پاکستان میں احمدیوں کے قتل


ضلع اوکاڑہ میں احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے نوجوان عبدالسلام کو تیز دھار آلے سے قتل کر دیا گیا۔ منگل کی شام ہونے والی اس واردات کی تفصیلات کے مطابق مقتول کو مذہبی منافرت کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے۔ مقامی مدرسہ سے ایک ہی روز قبل فارغ التحصل ہونے والے نوجوان علی رضا کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ ملزم علی رضا نے مقتول کو اس کی گلی میں شام کے ساڑھے پانچ بجے تیز دھار آلے کے وار کر کے قتل کیا ہے۔

یہ اس نوعیت کا کوٸی پہلا واقعہ نہیں ہے، پاکستان میں ایسی مذہبی منافرت کے وجہ سے سینکڑوں بے گناہ شہری قتل کئے جا چکے ہیں۔

اوکاڑہ رینالہ خورد ایل پلاٹ فوجیاں والا جس کی آبادی ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب ہے اس میں پہلے چالیس سے پچاس احمدی خاندان آباد تھے۔ جو مذہبی منافرت اور مقامی لوگوں کے رویوں سے تنگ آ کر گاٶں چھوڑ چکے ہیں، اس وقت مقتول عبد السلام کے خاندان سمیت آٹھ سے دس خاندان ایل پلاٹ فوجیاں والا میں رہاٸش پذیر ہیں۔

مقتول زمیندار تھا، دو بیٹوں اور ایک کم سن بیٹی کا باپ تھا۔ احمدی کمیونٹی کے ساتھ اس نوعیت کے بیسیوں واقعات پیش آچکے ہیں، لیکن روک تھام کی بجائے ایسے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ علم کی کمی، جنونیت اور اشتعال پر مبنی تقاریر جو کہ کم علم ملاٶں کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ یاد رہے اس واقعہ میں مقامی مدرسہ کے مہتمم پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک روز قبل اشتعال انگیز تقریر کی جسے سن کر ملزم علی رضا نے جنونیت میں آکر مقتول کو قتل کر دیا۔

 سابق آمر جنرل ضیاالحق مرحوم کے دور حکومت میں 26 اپریل 1984 کو حکومت پاکستان نے آرڈیننس 20 کا نفاذ کیا جس کے تحت 1974 میں سرکاری سطح پر غیر مسلم قرار دی گئی احمدی کمیونٹی پر اسلامی شعاٸر اپنانا اور ان پر عمل کرنا بھی قابل تعزیر جرم پایا۔ احمدی برادری کے افراد پر خود کو مسلمان کہلانے پر بھی پابندی عاٸد کردی گٸ تھی۔

جماعت احمدیہ کے مطابق احمدی کمیونٹی کی ہلاکتوں کا سلسلہ یکم مٸ 1984 سے شروع ہوا تھا۔ جماعت احمدیہ کے مطابق گذشتہ 38 برس میں احمدی برادری کے273 سے زاٸد افراد قتل ہوچکے ہیں۔ اور اس دوران احمدیوں پر 379 حملے ہوئے ہیں جن میں 27 عبادت گاہوں کو تباہ اور 33 کو بند کر دیا گیا ہے۔

ہلاکتوں میں پہلے نمبر پر صوبہ پنجاب ہے جہاں ہلاکتیں 69 فیصد جبکہ 23 فیصد ہلاکتوں کے ساتھ سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔ خیبر پختونخوا میں 5 فیصد اور بلوچستان میں 3 فیصد ہلاکتیں ہوٸی ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے خیبر پختونخوا میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

2017 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے پچاس فیصد سے زاٸد احمدی کمیونٹی ہجرت کرگٸی ہے۔ 1998 میں پاکستان کی کل آبادی کا 0.22 فیصد احمدی طبقہ تھا۔ جبکہ 2018 میں 0.9 فیصد رہ گئے ہیں۔

یاد رہے کہ اس کے علاوہ ہندو، مسیحی اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی یہ ناروا سلوک برتا جاتا ہے۔ اور کٸی کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ آخر حکومت پاکستان اقلیتوں بالخصوص احمدی جماعت کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments