پاکستانی روپے کی قدر میں تاریخی کمی، وجہ تجارتی خسارہ یا غلط معاشی فیصلے؟


پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور جمعرات کو ایک ڈالر کی قیمت دو سو پاکستانی روپے سے بھی بڑھ گئی ہے۔

گزشتہ پانچ ہفتوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 17 روپے سے زائد کی کمی آ چکی ہے۔ جب کہ رواں سال روپے کی قیمت میں 12 فی صد اور گزشتہ سال کی نسبت اس کی قدرمیں 23 فی صد کمی نوٹ کی گئی ہے۔

ماہرینِ معیشت کے مطابق روپے کی قدر میں کمی سے ملک پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو پہلے ہی 130 ارب ڈالرز سے بڑھ چکے ہیں۔ کئی ماہر ین معیشت کے بقول ان قرضوں کی واپسی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گی۔

روپے کی قدر میں بڑی گراوٹ کی وجہ کیا ہے؟

چیئرمین فاریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ درآمدات میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب دنیا بھر میں اجناس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے کی وجہ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھا ہے تو دوسری جانب جاری کھاتوں کا خسارہ بھی 12 ارب ڈالرز تک جاپہنچا ہے۔

لیکن ان کے خیال میں اس میں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ درآمدی بل میں تقریباً 15 ارب ڈالرز کی اشیا ایسی ہیں جو پرتعیش اشیا کی فہرست میں آتی ہیں۔ جن میں گاڑیاں، کاسمیٹکس کا سامان، فرانس سے درآمد شدہ پانی، جوتے، پالتو جانوروں کی خوراک اور دیگر اشیا بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ان کی ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو کئی تجاویز بھی بھیجی جاچکی ہیں اور حال ہی میں ان کی وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات میں یہ نکات اٹھائے گئے۔ لیکن ان پرعمل درآمد میں کافی تاخیر ہو چکی ہے۔

ملک بوستان کے مطابق ایسی اشیا کی درآمد جن پر کیش مارجن صفر یا انتہائی کم ہے اسے بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس عمل سے امپورٹر غلط فوائد اٹھا رہے ہیں۔

کئی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی گرتی ہوئی قدر کی اصل وجہ درآمدات میں بے تحاشہ اضافہ اور اس کے مقابلے میں برآمدات کم ہونا ہے۔

سابق بینکار اور ماہر معیشت شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی سے ملک کے تجارتی خسارے میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ عرصے میں تیزی سے کمی اس وقت شروع ہوئی جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو برقرار رکھا گیا بلکہ اس کے ساتھ انہیں چار ماہ کے لیے منجمد رکھنے کا بھی اعلان کردیا گیا۔

یہ اعلان ہونے کے بعد سے زرِمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہوئی اور اب یہ ذخائر صرف 50 روز کی درآمدات کے مساوی رہ گئے ہیں۔

شاہد حسن صدیقی کے خیال میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضے کی قسط جاری کردے گا جس کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی معاشی پیکج ملنے کی توقع ہے۔

اُن کے بقول امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے چند ماہ میں روپے کی قدر میں بہتری آئے گی۔ لیکن اس وقت تک ذخیرہ اندوز اور بینک کافی منافع کما چکے ہوں گے۔

“تجارتی خسارہ نہیں بلکہ ڈیفالٹ کا خطرہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ ہے”

ماہر معاشیات سمیع اللہ طارق اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ روپے کی قدر میں حالیہ تیزی سے کمی کی وجوہات تجارتی اور جاری کھاتوں کا خسارہ ہی ہے۔

ان کے خیال میں اس وقت ملک کو ڈیفالٹ کے خطرات کی وجہ سے روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کا سامنا ہے۔ سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کو آئندہ چند برسوں کے لیے تقریبا 30 ارب ڈالرز سالانہ کی ضرورت ہے جس کا بندوبست فی الحال نظر نہیں آتا۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں ایک ارب ڈالر کے قرض کی نئی قسط کی اشد ضرورت ہے جس کے بعد دیگر ممالک اور مالیاتی ادارے بھی قرضے ری شیڈول کرسکتے ہیں۔

معاشی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر 100 ارب روپے ماہانہ سے زائد کی سبسڈی دینا معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور یہ ایسی سبسڈی ہے جس سے امیر ترین طبقات اور وہ افراد بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جو بوجھ برداشت کرسکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس پیٹرولیم مصنوعات، توانائی پیدا کرنے کے لیے کوئلہ، گیس اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے کے لیے کوئی طویل المدتی معاشی پالیسی موجود نہیں ہے کہ کس طرح درآمد شدہ ایندھن اور دیگر اشیا پر انحصار کم کیا جاسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا بوجھ قومی خزانے اور پھر لامحالہ روپے کی قدر پر پڑ رہا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی روکنے کے لیے حکومتی اقدامات

ادھر حکومت نے آج کئی “غیر ضروری اشیا” کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے درآمدی بل کم کرنے کے لیے تمام امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی لگادی ہے۔

مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی سے ملک کو تقریباً چھ ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہو گی۔ مقامی انڈسٹری کو ترقی ملے گی جب کہ مقامی افراد کو روزگار کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

ان اشیا میں امپورٹڈ موبائل فونز، ڈرائی فروٹس، گھریلو استعمال کی مختلف اشیا، جوتے، لائٹس شینڈلر، ڈیکوریشن پیس، بعض سینٹری ویئر، کارپٹس، فروزن فوڈ، میک اپ کا سامان، چاکلیٹس، کنفیکشنری، جیم جیلیز، سن گلاسز، آئس کریم، سگریٹ، میوزک آئٹمز وغیرہ شامل ہیں۔

مریم اور نگزیب کا مزید کہنا تھا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اگر کسی کے پاس کوئی معاشی پلان ہےتو وہ صرف موجودہ حکومت ہی کے پاس ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments