صفدر صوفیہ کیسے بنی؟


ہاسٹل الاٹمنٹ کی لسٹ لگ چکی تھی۔ عروج رش میں اچک اچک کر اپنا نام تلاش کر رہی تھی۔ آخر اسے نظر آگیا۔
۔ لیکن یہ کیا ؟ وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ اسی کمرے میں دوسرے الاٹی کا نام صفدر شیخ درج تھا۔ عروج نے سوچا شاید ٹائپنگ کی غلطی ہو،کوئی ہ لگنا رہ گیا ہو،لیکن صفدر ایک خالص مردانہ نام تھا جسکی تانیث رائج نہیں تھی۔ تو پھر کیا اس یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کے ساتھ مخلوط رہائش بھی مروج تھی۔ اتنی مشکل سے تو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت ملی تھی۔ یہ روشن خیالی تو ابا بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ یہ عقدہ حل کرنے کے لئے وہ ہاسٹل ایڈمن کے دفتر چلی ائی۔ اسکی پریشانی سن کر وہ مسکرائے اور صفدر شیخ کا پر کیا ہوا درخواست فارم اس کے اگے رکھ دیا۔ ان کی انگشت شہادت جنسیت کے خانے کی طرف اشارہ کناں تھی جہاں ‘عورت’پر کلک کیا گیا تھا۔
عروج اپنا سامان لیکر ہاسٹل پہنچی تو صفدر موجود نہیں تھی۔ دوسری منزل کے روشن کوریڈور میں اس کا کمرہ دوسرے نمبر پر تھا۔ کمرے کے وسط میں دو سنگل بیڈ جوڑ کر رکھے گئے تھے۔ میز اور دو کرسیاں تھیں۔ باتھ روم اٹیچڈ تھا جس کے سامنے دو دیوار گیر الماریاں تھیں۔ جانے کیوں عروج نے بیڈ علیحدہ کرکے کرسی اور میز کے ساتھ کچھ اس طرح سیٹ کئے کہ کمرہ غیر مرئی لکیر سے دو میں تقسیم ہوگیا۔ اپنے ساتھ لائی ہوئی منی پلانٹ بیل کی ایک بوتل میز پر اور ایک باتھ روم کے آئینے پر رکھ دی۔ ہریالی اسے پرسکون کرتی تھی۔ ہفتے بھر تک اسکی روم میٹ نہیں ائی۔ اتوار کے روز وہ کمرے کی جھاڑ پونچھ کرکے گلدان میں تازہ پھول سجا رہی تھی۔ اسے پھولوں کی سجاوٹ میں دلچسپی تھی اور اس نے سوچ لیا تھا۔ جاپانی قونصلیٹ سے اکے بانا کا کورس ضرور کرے گی۔ وہ خود بھی گلابی لباس میں ایک کھلا ہوا پھول ہی لگ رہی تھی۔۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ نووارد ہلکے رنگ کے مردانہ شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ کانوں سے اوپر تک کٹے ہوئے بال اور پاوں میں پشاوری چپل۔
“اسلام علیکم میں صفدر شیخ ہوں۔ میری اس کمرے میں الاٹمنٹ ہوئی ہے۔ آپ یقینا عروج ہیں۔ “
مردانہ حلیے والے نووارد کی آواز، مردانہ نہیں تھی۔ عروج نے بددلی سے ایک جانب ہو کے اسے اندر آنے کی راہ دی۔ اس کا قد شاید اتنا چھوٹا نہیں تھا لیکن مردانہ لباس میں ایک مرد کی قامت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس کا چہرہ میک اپ سے بے نیاز اور ہاتھ اور کان کسی قسم کے زیور سے عاری تھے۔ اسکے شیشم رنگ بال ریشمی اور چمکدار تھے۔ اور اس کی کشادہ بھوری کنجی آنکھیں __ان آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی اور اداسی مترشح تھی عروج الجھ گئی “کیا وہ ایک خواجہ سرا ہے”؟ لیکن اس کا چہرہ تازہ مکھن کی طرح ملائم اور چکنا تھا۔ ڈھیلے ڈھالے مردانہ لباس میں بھی اس کے سینے کے ابھار مخفی نہیں رہ سکے تھے۔ وہ خواجہ سرا نہیں ہوسکتی تھی پھر کیا وہ ٹرانس ویسٹائٹ تھی جو اپنی جنس کے مخالف لباس پہننا پسند کرتے ہیں۔ وہ بہت مختصر سامان لےکر آئی تھی، بس ایک چھوٹا سا سوٹ کیس ،بالکل مردوں کی طرح۔ لڑکیاں تو جانے کیا کیا الم غلم سوٹ کیسوں میں بھر لاتی ہیں جو ان کے نزدیک انتہائی ناگزیر ہوتے ہیں۔ صفدر کا سارا سامان الماری کے دو خانوں میں سما گیا تھا۔ سامان ہی کیا تھا چند مردانہ جوڑے،دو بیڈ شیٹ، ایک چپل ،دو جوتے اور ایک موئسچرائزنگ کریم۔ عروج نے خاص طور پر نوٹ کیا شیونگ کٹ سامان میں شامل نہیں تھی۔ وہ تولیہ صابن لے کر باتھ روم میں گھس گئی۔ نکل کر بیڈ شیٹ پھیلائی اور کوئی بات کئے بنا لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں۔
“عجیب لڑکی _کا _ ہے۔ ” عروج جھنجھلا گئی۔
شام ڈھلے تک وہ بے سدھ سوتی رہی، جیسے میرپور خاص سے اونٹ پر سواری کرکے پہنچی ہو۔ ڈائننگ ہال نو بجے بند ہوجاتا تھا اس کے بعدکچن سمیٹنے کے لئے پچھلا دروازہ کھلا ہوتا تھا اور خاص واسطہ ہونے کی صورت میں ہی کھانا مل سکتا تھا۔ عروج نے یہ معلومات صفدر کو بتانا ضروری سمجھا۔ اگلے چند ہفتے مانوس اجنبیوں کی مانند گزرے۔ صفدر بہت کم بولتی تھی۔ یونورسٹی سے آکر تھوڑی دیر آرام کرتی اور پھر لائبریری چلی جاتی۔ شام ڈھلے آتی اور کھانا کھا تے ہی پڑ کر سو جاتی۔ وہ ماسٹرآف پبلک ایڈمنسٹریشن کی طالبہ تھی اور عروج ایم ایس سی کر رہی تھی۔۔ عروج ایک روایتی لڑکی تھی۔ شوخ رنگ لباس ،چوڑی مہندی، اور خواتین کے ڈائجست پڑھنے کی شوقین۔ اور اس کی یہ روم میٹ 180 کے زاویے پر۔ بہت ہی انوکھی۔ شکنتلا سے کمرے کی صفائی کروانی ہے، باتھ روم کا فیوز بلب تبدیل کرنا ہے۔ کھڑکیوں کے پردے لانڈری میں دینے ہیں یا واش بیسن میں پانی نہ آنے کی کمپلینٹ کرنی ہے ،ہر کام جیسے بس عروج کی ذمہ داری تھی۔ صفدر کو کسی چیز سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ لڑکوں کی طرح بے پروا تھی۔ عروج نے چودہ انچ کا ٹی وی کمرے میں لا رکھا تھا جسے وہ خواتین ڈائجسٹ والے ڈراموں کے چینل پر ٹیون کئے رکھتی۔ اس روز چھٹی کا دن تھا۔ عروج کا پڑھنے کا موڈ نہیں تھا۔ وہ ٹی وی پر رومانوی ڈرامہ دیکھنے میں منہمک تھی۔ تب ہی صفدر نے اس سے کہا۔
“کیا آپ خبریں لگا سکتی ہیں”؟
خبریں ؟(اوہ تو مردوں کی طرح خبریں دیکھنے میں دلچسپی ہے)۔
اس نے ریموٹ صفدر کو تھماتے ہوئے کہا”کیا نئی خبریں ہوں گی۔ وہی سیاسی شعبدہ بازیاں، وہی اقتدار کی بھوک، ایسی بھوک کہ دوسرے فریق کو باری بھی پوری نہیں کرنے دیتے۔ ایک تخت پر تو دوسرا سڑک پر۔ پھر یہ ترتیب بدل جاتی ہے۔ مگر وہی نعرے وہی وعدے اور وہی چھل کپٹ۔ “
“آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر کیا کریں حالات حاضرہ سے باخبر ہوئے بغیر چین بھی تو نہیں آتا”
“خبریں نہ دیکھ کر ہم تو بڑے چین سے رہتے ہیں۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل”۔ عروج نے ہاتھ پیچھے جھٹک کے کہا۔ صفدر کو اس کے انداز پر ہنسی آگئی۔ ایسا اتنے عرصے میں پہلی بار ہوا تھا کہ صفدر ہنسی ہو۔ برف پگھلی تو تھی۔ اب اکثر وہ مختلف موضوعات پر بات کرتیں گو کہ یہ زیادہ تر یونیورسٹی سے متعلق ہی ہوتے۔ دونوں میس میں ساتھ کھانا کھانے جاتیں۔ ایک بار دونوں ساتھ مل کر جانز کا بروسٹ کھانے بھی گئیں۔ اگرچہ عروج صفدر کے حلیے اور رویے کے بارے میں متجسس تھی لیکن اس نے راست سوال سے گریز کیا۔ اسے اندازہ تھا کہ صفدر سے یہ سوال ان گنت بار ہوا ہوگا اور ایک بار اور پوچھ کر تکدر کا باعث بننا نہیں چاہتی تھی۔ ایک سال گذر گیا۔ عید پر عروج گھر گئی تو امی نے نئے لباسوں کی کمک تیار کر رکھی تھی۔ اس نے پرانے جوڑے شکنتلا کو دئے اور نئے کپڑے الماری میں لٹکا دئے۔ صفدر کی الماری میں بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار کا اضافہ ہوا تھا۔ وقت اپنی چال چلتا رہا کبھی دلکی کبھی سرپٹ اور وہ آخری سال میں پہنچ گئے۔ کچھ عرصے سے عروج نے نوٹ کیا تھا کہ صفدر اس کے رنگین لباس۔ میچنگ سینڈل اور جیولری میں دلچسپی لینے لگی تھی۔ وہ چوڑیاں ہاتھ میں لے کر ان کے رنگوں پر غور کرتی رہتی۔ ایک دن عروج نے کاسنی چوڑیاں اس کی کلائی میں پہنا دیں۔ “دیکھو یہ تمہاری کلائی میں کتنی اچھی لگ رہی ہیں “وہ پرجوش ہوکر بولی۔
صفدر کچھ دیر سوچ میں ڈوبی چوڑیوں کو کلائی میں گھماتی رہی پھر اتار کر عروج کو تھمادیں۔ اس لمحے عروج کو اس کے چہرے پر گہرا ملال نظر ایا۔ یعنی وہ ٹرانس ویسٹائٹ بھی نہیں تھی۔ عروج کی الجھن سوا ہو گئی۔ اس کے ظاہری حلیے اور رویے کے پیچھےآخر کیا رمز تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ دروازے پر دستک نے اس کے خیالات کی ڈور کاٹ دی۔ لیاقت درزی آیا تھا۔ لیاقت درزی یونیورسٹی کے قریب کی بستی میں رہتا تھا۔ وہ ایک مشہور بوتیک پر “نامعقول مشاہرے” پر ملازم تھا۔ وہ اپنی دکان کھولنا چاہتا تھا۔ آمدنی میں اضافے کیلئے گھر پر سلائی کرتا تھا۔ وہ گرلز ہاسٹل آکر کپڑے لے جاتا اور سی کر دے جاتا۔ اس کی سلائی عمدہ تھی اور لڑکیوں کو ہوم سروس کی سہولت حاصل تھی اس لئے اس کی گاہکوں میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا۔ عروج نے چند جوڑے سلائی کیلئے دئے۔ لیاقت نے ناپ لیا اور چند دن میں کپڑے دینے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ صفدر خاموشی سے یہ کاروائی دیکھتی رہی تھی۔ اچانک کہنے لگی “عروج تمہارے بریسٹ بہت چھوٹے ہیں۔ باتھ روم کے آئینے میں شاید پرکشش دکھتے ہوں کپڑوں میں تو بہت سپاٹ سینہ لگتا ہے۔ دیکھو میرا سینہ کتنا بھرا بھرا ہے۔ “عروج اس بے حجابانہ تبصرے پر شرم سے سرخ ہوگئی۔ صفدر کی بے باکی میں مردوں کی اوطاق میں کی جانے والی گفتگو کی جھلک تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا صفدر کو کیسے سمجھائے کہ کنواری لڑکیوں کے انداز گفتگو میں بھی ستر ہوتا ہے۔
“ویسے تم۔ بہت پرکشش ہو خاص طور پر تمہاری مونا لیزا مسکراہٹ بڑی قاتلانہ ہے۔ ہائے مار ڈالتی ہے۔ صفدر نے سینے پر ہاتھ رکھ کر مرنے کی ایکٹنگ کی۔ اور سلیمان شاہ کا نغمہ گنگنایا۔
اسین تہ عشق مریندا
ڈھولن ول ول قتل کریندا
اب عروج کو اس پر لیسبئین ہونے کا شبہ ہونے لگا۔ وہ جھلا کے اپنی سائنس جھاڑتے ہوئے بولی۔ “تم جینوٹپیکلی اور فینوٹیپیکلی فیمیل ہو تو لڑکیوں کی طرح کپڑے کیوں نہیں پہنتیں۔ اس سوال نے یقینا صفدر کی دکھتی رگ کو چھو لیا وہ ایک دم سنجیدہ ہوگئی اور سپاٹ لہجے میں بولی “مردے تو صرف کفن ہی پہنا کرتے ہیں “
عروج کو اپنے سوال پر پچھتاوا ہوا۔ وہ نرم لہجے میں بولی”تم نے ایسا کیوں کہا۔ تمہیں کس نے زندہ درگور کیا ہے؟”
“میرے اپنوں نے۔ میری شناخت کو پہیلی بنانے والا کوئی اور نہیں میرا باپ تھا۔ “صفدر کا خول چٹخ رہا تھا۔
“کیا مطلب”
میرے باپ نے اپنے سے پندرہ برس چھوٹی لڑکی سے اولاد نرینہ کیلئے شادی کی تھی کیونکہ پہلی بیوی سے بیٹے کی خواہش پوری نہیں ہوسکی تھی۔ لیکن میری ماں نے بھی اوپر تلے تین بیٹیوں کا بوجھ لاد دیا۔ چوتھی بار جب وہ حاملہ ہوئی تو میرا باپ اچانک بیمار پڑگیا۔ اسے کینسر ہوگیا تھا۔ جان بچانے کیلئے اس کے خصیے نکالنے پڑے۔ بیٹے کی خواہش پوری ہونے کا یہ آخری موقع تھا۔ شو مئی قسمت چوتھی بار بھی لڑکی پیدا ہوئی۔۔ میرا باپ قدرت کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا۔ اس نے اس بچی کو ہی بیٹا بنانے کی ٹھان لی۔ اسے مردانہ نام دیا گیا اور اس کا لباس،گھیل اور پرورش لڑکوں کے انداز میں کی گئی۔ اسے زبان خانے میں ماں اور بہنوں کے بجائے اوطاق میں مردوں کی صحبت میں پروان چڑھایا گیا۔ اس بہروپیے بیٹے کی بلوغت کیا رنگ لائے گی، یہ دیکھنے کے لئے وہ زندہ نہ رہا۔ وہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گیا تھا لیکن کم عمر بیوہ چار بچوں کے ساتھ تنہا کیسے رہتی اس لئے دیور کے گھر چلی آئی۔ چچا نے ان تینوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور شفقت کا سلوک کیا۔ لیکن وہ نو عمر صفدر کی الجھن ہوئی شخصیت کو سمجھنے اور سنبھالنے سے قاصر تھا۔ وہ خودبھی کہاں سمجھ پارہی تھی وہ کیا ہے اس کی شناخت کیا ہے۔ اس کی شخصیت نہ مکمل مرد کی تھی نہ عورت کی۔ ایک یدھ اس کے اندر بھی کروٹیں لے رہی تھی۔ ایک بھاڑ سینے میں دہک رہا تھا۔ اس کے اندر زبردستی سلائی گئی عورت بغاوت کر بیٹھی تھی۔ انگڑائیاں لیتی، بل کھاتی، چٹکیاں لیتی تھی۔ چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش جاگ رہی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی محبت اور شادی کے لئے کسی مرد کو چنے یا پھر کسی عورت سے تعلقات استوار کرے۔ صفدر یکایک خاموش ہوگئی تھی۔ آنسوؤں سے اس کا گلا رندھ گیا تھا۔ صفدر کا خول بلاسٹ ہوگیا تھا اور اندر سے نرم و نازک مظلوم شہزادی گل بکاولی نکل آئی تھی۔ عروج کے سارے قیاسات باطل ہوگئے تھے وہ نہ خواجہ سرا تھی ،نہ ٹرانس ویسٹائٹ اور نہ ہی لیسبئین۔ وہ تو ایک لڑکی تھی، بیٹے کی ضد میں جس کی نسوانیت پر مردانہ لباس کا کفن پہنا کر درگور کردیا گیا تھا۔ عروج نے کپکپاتی صفدر کو گلے لگا لیا۔ کمال کی طاقت کسی لفظ کی محتاج نہ تھی لیکن اس نے اس کے ہاتھ تھام کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“اب وقت آگیا ہے کہ تم پر منڈھا گیا کفن پھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ اور جو تم چاہتی ہو وہ روپ اختیار کرو۔ شروع میں یہ بہت مشکل محسوس ہوگا لیکن پھر آسان ہوجائے گا۔
اگلی بار لیاقت درزی آیا تو صفدر نے کچھ شوخ رنگ کپڑے اسے دیتے ہوئے کہا۔ “انہیں اچھے ڈیزائن سے سی دیجئے۔ آگے اور پیچھے کا گلا گہرا رکھئے گا”
“پانچ انچ ٹھیک رہے گا ؟”
نہیں آٹھ انچ۔۔۔ “صفدر نے کہا تو لیاقت جز بز نظر آیا اتنے گہرے گلے تو ہاسٹل کی کوئی لڑکی نہیں بنوا تی تھی۔
عروج نے کہا”پانچ انچ ٹھیک ہے ماسٹر صاحب “۔ اسے اندازہ تھا صفدر کو اس ٹرانسفارمیشن میں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت تھی۔
کپڑے سل کر آئے تو پہلی بار پھولدار لان کا کرتا پہن کر اسے بڑا ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔ لیکن بڑے سے دوپٹے کو سنبھالنا اس کے لئے کسی کوہ پیمائی سے کم نہ تھا۔ صفدر نے بال بڑھانے شروع کر دئے تھے اور جب کندھوں تک پہنچ گئے تو عروج اسے لیڈیز ہیر اسٹائلسٹ کے پاس لے گئ۔ ہلکا ہلکا میکپ کرنا بھی سکھا دیا۔ دونوں ہی بہت پرجوش تھیں عروج کو خوش گمانی تھی کہ صفدر کی تبدیلی ماہیت میں اس کی بھرپور نسائیت نے کردار ادا کیا تھا لیکن درحقیقت یہ مہمیز کافی نہیں تھی۔ اس کے اندر کی عورت کو ابھارنے اور ڈٹ جانے میں اکرام شیخ کی محبت کا دخل تھا۔ اکرام شیخ اس کی چچا زاد بہن کا شوہر تھا۔ اسی چچا کی بیٹی کا شوہر جس نے باپ کی موت کے بعد ان کی سرپرستی کی تھی۔ صفدر کی چچازاد ان پڑھ اور گاوں کی پروردہ تھی۔ اکرام شیخ دوسری شادی پڑھی لکھی شہری لڑکی سے کرنا چاہتا تھا۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ ان کے ہاں ایک شادی گاوں میں اور ایک شہر میں کرنے کا عام رواج تھا۔ جب صفدر نے ماں کو بتایا کہ اکرام شیخ اس سے شادی کرکے شہر میں رکھنا چاہتا ہے تو گویا اس پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس نے صفدر سے کہا “تو اپنی ہی بہن کا گھر اجاڑے گی”۔
صفدر اپنی زندگی میں آنے والے پہلے صبا کے جھونکے کا روزن بند نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے کہا۔
“اکرام مجھے جانتا سمجھتا ہے۔ میری کمی کجی میری بے ڈھب شخصیت سے واقف ہوتے ہوئے مجھ سے رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے۔ مجھے اس جیسے مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔ “
“میں تمہارے چچا کو کیا منہ دکھاؤں گی”
ماں۔ اکرام نے دوسری شادی کی ٹھان لی ہے۔ چچا کی بیٹی پر سوتن کا آنا مقدور ٹھہرا ہے۔ پھر وہ کوئی اور ہو یا میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ “
“فرق پڑتا ہے۔ اپنوں کا دیا گھاؤ گہرا لگتا ہے۔ یہ انصاف نہیں کہ ہم احسان کا بدلہ ظلم سے دیں”
صفدر کے اندر کنڈلی مارے سانپ جیسے پھن اٹھا کر کھڑا ہوگیا وہ زہر خند لہجے میں بولی “جب میرے ساتھ ناانصافی ہو رہی تھی۔ جب میری شناخت کا مذاق بنایا جارہا تھا تب تو تم نے آواز نہ اٹھائی۔ کیا وہ ظلم نہیں تھا۔”
“میں اس وقت آواز اٹھانے کی جرآت کہاں سے لاتی میں جو چار بیٹیاں پیدا کرنے اور بیٹا پیدا نہ کرنے کے جرم کی سزاوار تھی”۔ ماں نے بیچارگی سے کہا
“کبھی تمہیں میرے چہرے پر درد کی دھول دکھائی نہیں دی کبھی مجھے جھلساتے باد سموم کے جھونکے کی تپش تم تک نہ پہنچی۔ ” صفدر آج چپ رہنے والی نہ تھی۔ ماں خاموش نظریں جھکانے فرد جرم سنتی رہی۔
“ماں مجھے اکرام سے شادی کرنے دے۔ ایک پڑھے لکھے محبت کرنےوالے شخص کی رفاقت کا سکھ میرا حق ہے اسے مجھ پر کئے گئے ظلم کا کفارہ سمجھ کر اجازت دے دے۔ “صفدر نے ہاتھ جوڑ دئے۔
بالآخر ماں ہار گئی لیکن وہ سب کے سامنے اس کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں رکھتی تھی اس نے کہا ۔ وہ کورٹ میرج کرلے۔
امتحانات سر پر آگئے تھے۔ عروج سارے معاملات بھلا کر امتحان کی تیاری میں لگ گئی۔ امتحان کے بعد چھٹیاں ہوئیں اور سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ آخری روز عروج نے دیکھا تھا ایک پجیرو کمپاونڈ میں آ کرر کی تھی۔ کلف شدہ شلوار قمیض میں ملبوس شخص گاڑی سے اترا اور صفدر کیلئے دوسری جانب کا دروازہ کھولا۔ صفدر کے دو سوٹ کیس گاڑی کے پچھلے حصے میں رکھے اور ڈرایونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔ گاڑی زن سے کھلے گیٹ سے نکل گئی۔
وہ اکرام شیخ تھا یا اس کا کزن؟عروج نے خود سے سوال کیا۔
کافی برس گزرنے کے بعدعروج لیاقت ٹیلرز کی نئی دکان تلاش کرتی پہنچی تو صفدر کو وہاں پایا۔ وہ بڑے تپاک سے ملی۔ اس نے بتایا اکرام شیخ سے اس کی شادی ہوگئی تھی۔ دو بچے ہیں پہلا بیٹا اور دوسری بیٹی۔
“چلو شکر ہے بیٹا ہوگیا کسی اور صفدر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ “
“ارے ہاں اب میرا نام صفدر نہیں صوفیہ ہے۔ صوفیہ اکرام۔ اس نے مسکرا کر کہا اور عروج اور لیاقت دونوں مسکرا دئے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments