پروفیشنلزم کی آڑ میں کمرشلزم


پروفیشنلزم کا موضوع بہت وسیع ہے اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو سکتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کوئی بھی مہارت حاصل کر کے پروفیشنل اپروچ کا حامل ہو سکتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہیں یا پھر ہماری اجتماعی، معاشرتی یا اقتصادی ناہمواری کا نتیجہ کہیں یا پھر ہماری اعلی ظرفی کے مقابلے میں چند مخصوص لوگوں یا ٹولے کی کم ظرفی یا شارٹ کٹ کے وسیلے سے مالی مفادات کا حصول کا وتیرہ سمجھیں کہ پروفیشنلزم یعنی خدمات یا سروسز کے شعبہ جات میں کمرشلزم نے کچھ زیادہ ہی سرائیت کیا ہوا ہے یا پھر ہمیں کچھ زیادہ لگ یا محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ شعبہ جات ہی کچھ اس طرح کے ہیں کہ یہاں خالص پروفیشنلز کا تصور پایا جاتا ہے اور عوام توقع بھی ان سے یہی رکھتے ہیں تو لوگوں کو کچھ زیادہ روٹین یا روایت سے ہٹ کر لگتا ہے جب ادھر بھی دیگر مقبول شعبہ جات کی طرح پروفیشنلزم کی بجائے کمرشلزم سے کام لیا جاتا ہے۔
مثلاً سب سے پہلے تعلیم کا شعبہ لیتےہیں جن کا بنیاد ہی خدمات اور پروفیشنلزم پر ہے لیکن کونسا ایسا فرد ہوگا ہمارے معاشرے میں جو بین السطور میں ان کے پروفیشنلزم کے کمرشلزم کا شکار نہ ہوا ہو (مستثنیات کو چھوڑ کر اگر ہو !)۔ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں کو تو اپنی بحث سے ہی خارج کرتا ہوں اور براہ راست نجی تعلیمی اداروں کی طرف آتا ہوں۔ پروفیشنلزم میں پہلے خدمات ہوتی ہیں پھر معاوضہ لیکن بہ بفضل خدا ہمارے نجی تعلیمی ادارے پہلے معاوضہ (فیس) پکڑتے ہیں، داخلہ فیس کے ساتھ سالانہ چارجز بھی وصول کرتے ہیں۔ پروفیشنلزم کا تقاضہ دیکھیں فیس واؤچر میں جو انسٹرکشن دیں ہوئی ہوتی ہیں اس پر گیس، بجلی کے بل کا گماں گزرتا ہے اس میں یہ زیادہ نمایاں کیا ہوا ہوتا ہے کہ ویلڈ آپ ٹو اور مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد اتنا ادا کرنا پڑے گا اور مزید یہ کہ تین فیس مسلسل ادا نہ کرنے پر طالب علم کا نام سکول سےخارج کر دیا جائے گا۔ کتابیں پہلے تو شروع کے تین سے چار مہینے تک دستیاب نہیں ہوتیں اور اگر کہیں دستیاب بھی ہوں تو سکول کے کسی مخصوص کردہ بک شاپ پر یا پھر سکول میں فراہم کردہ بک شاپ سے معمول سے زیادہ قیمت پر آپ کے بچوں کے بھاری بھرکم بستوں کی زینت بنے گی۔ ہر گلی اور محلے میں یہ پروفیشنلزم کے نام پر کمرشلزم کے تعلیمی خدمات اپنے اپنے مخصوص کردہ نصاب اور یونیفارم کی شکل میں نیوسنس پھیلاتے رہیں گے اور زیادہ تر قریبی گھروں والے ان سے لڑ جھگڑ کر ہمت ہار کر بیٹھ چکے ہوتے ہیں۔
جس کا اندازہ اس بات سے بھی آپ لگا سکتے ہیں کہ دور دور سے بچے یہاں پڑھنے کے لئے آئیں گے لیکن سکول سے جڑے ہوئی دیوار کے گھر کا بچہ اس سکول کے بجائے دور کسی اور سکول میں پڑھ رہا ہوگا۔ اس کے دیگر وجوہات بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ بھی ایک وجہ مشاہدے میں آچکی ہے۔ ان سکولوں میں زیادہ تر صبح میں سکول اور شام میں ان بچوں کو کوچنگ دی جاتی ہے جو ان کے پروفیشنلزم پر کمرشلزم کا سٹگما لگاتی ہے۔ زیادہ ترٹیچر کم تنخواہ پر نان پروفیشنل رکھے جاتے ہیں کیونکہ پروفیشنل ٹیچر اپنی اہلیت کے مطابق سیلری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اکثر سکولوں کا احاطہ سکول کے احاطے پر اترتا ہی نہیں اور نہ وہ سکول کے ماحول کو رپرزنٹ کرتے ہیں۔ اکثر سکولوں میں ایک ہی گھر کے افراد کی اجارہ داری ہوتی ہے باپ یا ماں ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس، بڑا بیٹا یا بیٹی ہیڈٹیچرز، دیگر بیٹے، بیٹیاں اور بہوئیں دیگر مضامین کے ٹیچر، گھر کے ہی نوکر سکول کے نوکر ہوتے ہیں، اور گھر میں جو بندہ کسی کام کا نہیں ہوتا وہ سکول میں کینٹین یا پھر کتابوں کی دکان پر اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر بھی پروفیشنلزم کے نام پر کمرشلزم کے سودوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں سرکاری ہسپتال اور نجی ہسپتال کے ڈاکٹرز کے علاج معالجے کا انداز ہی سرے سے الگ الگ ہیں۔ علاج کے نام پر تشخیص کے ایک لمبے پروسس میں مریض کو پہلے الجھا دیا جاتا ہے۔ پھر دوائیاں سب لینی ہیں، سب کھانی ہیں اور سب ادھر سے لینی ہیں جہاں سے ڈاکٹر تجویز کریں۔ پورے مہینے یا دس بیس دن کھانی ہے اور پھر وزٹ پر وزٹ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ طول پکڑ لیتا ہے۔ علاج غریب آدمی کا کام نہیں البتہ بیمار ہونا غریب آدمی کے جسمانی اور ذہنی ساخت میں موجود ہے۔ ہر ڈاکٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ ان خدمات کے لئے اپنا نجی ہسپتال بنائیں تاکہ لوگوں کے بلکل اسی طرح علاج معالجہ کو جاری رکھ سکیں۔ اگر نجی ہسپتال میں مریض کا بل کے ساتھ ساتھ “صحت” اور سٹیٹس بنتا ہے تو دوسری جانب سرکاری ہسپتال میں مریض اور اس کے تیمارداروں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اس لئے اکثر مریض کے سٹیٹس کے ساتھ ساتھ دن بدن صحت بھی گرتی رہتی ہے اور بلآخر اتنی گر جاتی ہے کہ ان کا ڈھانچہ یا ڈیڈ باڈی ہی ہسپتال سے نکالی جاتی ہے۔
اسی طرح جب ہم انصاف کی طرف آتے ہیں کورٹ کچہری کی طرف آتے ہیں تو یہاں بھی زیادہ تر پروفیشنلزم کے بجائے کمرشلزم ہی نظر آئے گا۔ انصاف کا حصول بھی صحت کی حصول کی طرح آسان نہیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وکیلوں کی بھاری بھرکم فیسز، تاریخوں پر تاریخیں، پیشیوں پر پیشیاں بھگتنا پڑتی ہیں۔ فیصلہ ہونے پر بس نہیں، پھر اپیلوں کا سلسلہ، ایگزیکیوشن سٹے ہوجاتی ہے، پھر سے اپیل کی سماعت شروع ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایگزیکیوشن بھی سیدھے سیدھے کرنا ہو تو ایک بار پھر کیس کی سروس کے سارے پروسز سے گزرنا پڑتا ہے جو موکل کو سمجھانے کے لئے وکیل کے لئے ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے اور اکثر موکل ججمنٹ یا فیصلہ حق میں آنے کے باوجود ایگزیکیوشن کے لئے کسی دوسرے وکیل کے پاس چلے جاتے ہیں۔ عدالت موکلین کو پاپر ایکیوز ایڈوکیٹ بھی دیتی ہے لیکن یہاں بھی وہی سرکاری اور پرائیویٹ علاج کا فارمولا قدرے مشترک ہوتا ہے پھر انصاف کا حصول بار اور پہنچ کو سر کرنے کے بعد ممکن ہے اور یہ دونوں کو سر کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں اسی لئے اکثر دیوانی مقدمات میں مدعی کو اپنے وارثین کی ایک لسٹ بھی فراہم کرنا ہوتا ہے جس کا یہ بھی منشا ہے کہ اگر مدعی دوران حصول انصاف یا دوران کیس ٹرائل فوت ہو جائے تو ان کے ورثا میں سے کوئی ایک اس کیس کو آگے ٹرائل کر سکے یا پھر ایڈورس آرڈر یا ججمنٹ کی صورت میں ان کو دھر سکیں۔
مقصد یہ کہ پروفیشنلزم ہمارے ہاں زیادہ تر عملی طور پر کمرشلزم کی شکل میں جاری اور جاوداں ہے اور غریب عوام ہیں کہ ان کے تختہ مشق ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان خدمات سے جان چھڑانا ان کے لئے ممکن ہی نہیں کیونکہ صحت تعلیم اور انصاف بنیادی حقوق، سروسز یا پروفیشنل مانگیں ہیں لیکن کمرشلزم کی چکاچوند سے پروفیشنل فرائض منصبی ادا کرنے والوں کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں جن کی وجہ سے ان کو پیسوں کی چھنک یا کھنک تو سنائی دیتی ہیں پر غریب بے بس، لاچار اور بیمار عوام کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments