فیک اکاؤنٹ، فین اکاؤنٹ اور جھوٹا سچ


دور حاضر میں سوشل میڈیا نے اتنی پذیرائی حاصل کر لی ہے کہ کوئی بھی بیانیہ بنانا اس کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاست، حکومت، سائنس، شوبز ہو یا کرکٹ کا میدان سوشل میڈیا کی دھوم ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ مختلف کاروباری کمپنیوں نے بھی ابھی مصنوعات کی بہتر تشہیر کے لئے سوشل میڈیا کی خدمات لی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں فیسبک اور ٹویٹر دو ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہیں جو عوام سے لے کر خواص تک یکساں طور مقبول ہیں۔ لوگوں کی معلومات تک رسائی انتہائی آسان ہو گئی ہے بلکہ میرے نزدیک ہماری دماغی وسعت سے زیادہ معلومات ہمارے ذہنوں میں سرایت کی جا رہی ہے۔ یہ معاملہ قابل غور ہے کہ موجود معلومات وہی ہیں جو ہم حاصل کرنے کی سعی کر رہے ہیں یا ہمارے ذہن میں وہ معلومات ڈالی جا رہی ہیں جس کا ہماری علمی تشنگی سے تعلق کم اور “پروپیگنڈا” سے زیادہ ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم اپنے ذہن کو درکار معلومات کا ادراک نہیں رکھتے؟ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ کون سی معلومات سچی ہیں اور کون سی جھوٹ پر مبنی؟ شاید اس کا جواب یہ ہو کہ ہم “سچ” اور “جھوٹ” کی پہچان رکھتے ہیں لہذا ہم کسی کے “پراپیگنڈا” کا شکار نہیں ہو سکتے۔
اب آتے ہیں کہ ہم کیسے “جھوٹ” کو “سچ” سمجھ لیتے ہیں۔ جو لوگ “پراپیگنڈا” کرنے کے ماہر ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے آپ کی “نفسیات” کو قابو کرتے ہیں۔ اس کے بعد بظاہر آپ کے پسندیدہ “شخص”، ادارہ (میڈیا) اور ثقافت کے ذریعے آپ کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں سمجھنے کے لئے ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ سہیل وڑائچ صاحب ایک نامور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کے لئے “مثالی شخصیت” کے حامل انسان ہیں۔ وہ اپنی بات اخبار، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچانے رہتے ہیں۔
پراپیگنڈا کرنے والے جب اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اگر کوئی بات سہیل وڑائچ صاحب کے نام سے منسوب کر کے پھیلائی جائے تو اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو جائیں گے، بس پھر ایک عدد جعلی فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ آنے کی دیر ہے کہ کچھ ہی منٹ میں لاکھوں افراد تک پہنچ گئی، جب تک سہیل وڑائچ صاحب اس کی تردید کرتے ہیں تب تک یہ خبر لاکھوں کی بجائے کروڑوں لوگ تک پہنچ چکی ہو گی۔
اس امر کی روک تھام کے لئے مختلف طریقے موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جھوٹ خرگوش کی رفتار سے پھیلتا ہے اور سچ کے پاس کچھوے کی ٹانگیں ہیں۔
فیک اکاؤنٹ سے بڑھ کر ایک اور چیز آئی ہے وہ ہے “فین اکاؤنٹ” اب سمجھ نہیں آتی کہ “فین اکاؤنٹ” وہ شخص خود اپنے دوسرے اکاؤنٹ کے طور پر استعمال کر رہا ہے یا واقعی کسی “فین” نے یہ اکاؤنٹ بنایا ہوا ہے۔ اکثر فین اکاؤنٹ سے ایسی ٹویٹ آتی رہتی ہیں جن کو لوگ متعلقہ “شخص” کا موقف سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر عمران ریاض صاحب ایک صحافی اور یوٹیوبر ہیں، ٹویٹر پر بھی اپنے تبصرے شئیر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے کوئی “چھ” مختلف ٹویٹر اکاؤنٹ میں نے خود دیکھے ہیں۔ عام صارف کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کون سا اکاؤنٹ اصل اور کون سا جعلی ہے بلکہ بعض اوقات بڑے بڑے نیوز چینل بھی اسی “جھوٹ ” کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اور “جھوٹے سچ” کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔
بطور سوشل میڈیا صارف ہم سب پر ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ ہم “جھوٹا سچ” کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں۔ کسی بھی شخص کی رائے کو بطور “رائے” ہی استعمال کریں، لوگوں کے نظریات اور خیالات کے ساتھ اختلاف ضرور رکھیں، لیکن اسے حق و باطل کا معرکہ نہ بنائیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments