حکومتی بے بسی اور اسٹبلشمنٹ کی سیاست


خبر ہے کہ آئندہ دو روز میں طاقت ور حلقوں نے حکومت کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین نہ دلایا تو موجودہ حکومت کام کرنے سے انکار کردے گی اور قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔ یہ خبر جیو نیوز کے حوالے سے سامنے آئی ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس میں حکومتی ذرائع کی درپردہ فراہم کردہ معلومات شامل ہوں گی۔ اس سے پہلے بھی حکومت کے ہمدرد صحافی یہ خبریں دیتے رہے ہیں کہ اگر اسٹبلشمنٹ نے بے یقینی کی صورت حال برقرار رکھی تو شہباز حکومت کے لئے کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔

آج شام سرگودھا میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے حکومت چھوڑنے کا واضح اشارہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام پر عمران حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے مہنگائی کا بوجھ لادنے سے بہتر ہے کہ اقتدار چھوڑ دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ نواز شریف کے لئے آسان تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط مان کر سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کرتے اور ملک کے لئے مالی سہولت حاصل کرلی جاتی۔ لیکن ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم یہ عوام دشمنی کیوں کریں۔ اس بیان سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) موجودہ حالات میں برسراقتدار رہنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اشارہ حکومت میں شامل ان اتحادی جماعتوں کو دیا گیا ہے جو جلد انتخابات کی بجائے انتظار کرنے اور مسائل حل کرنے پر زور دے رہی ہیں یا اسٹبلشمنٹ کو دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر حکومت کی شرائط پر اسے کام نہ کرنے دیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ایسی لولی لنگڑی اور بے اختیار حکومت میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس سے بہتر ہوگا کہ وہ انتخابات میں مکمل کامیابی حاصل کرکے حکومت سازی کی کوشش کرے۔ مسلم لیگ (ن) کو اندیشہ ہے کہ اگر مارکیٹ تخمینے اور آئی ایم ایف کی شرائط کی بنیاد پر پیٹرول کی قیمتوں میں پچاس ساٹھ روپے اضافہ کا فیصلہ کیا گیا تو اس سے افراط زر میں شدید اضافہ ہوگا اور مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کو ذبردست دھچکا لگے گا۔ اب ظاہر ہورہا ہے کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم رکھنے کے لئے مسلم لیگ (ن) یہ قیمت ادا نہیں کرنا چاہتی۔ کم از کم پارٹی میں جس گروپ کی نمائندگی مریم نواز کرتی ہیں، اب اس کی پوزیشن واضح ہورہی ہے۔

اس دوران تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے حامی تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے تسلسل سے یہ تاثر استوار کرنے کی کوشش کی ہے کہ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کو سیاسی جال میں پھنسا لیا ہے۔ موجودہ حکومت کی بے عملی اور غلط فیصلوں کا سارا بوجھ شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو اٹھانا پڑے گا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ واضح ہورہا ہے کہ جلد اور فوری مشکل معاشی فیصلے نہ کئے گئے تو پاکستان کے ڈیفالٹر ہونے کا اندیشہ پیدا ہو رہا ہے۔ نادہندگی کی صورت حال سے بچنے کے لئے فوری بیرونی امداد کی ضرورت ہے جو آئی ایم ایف پیکیج سے مشروط ہے۔ شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے واشنگٹن بھیجا تھا اور فنڈ نے پاکستان کو 6 کی بجائے 8 ارب ڈالر کا پیکیج دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ لیکن پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کی شرط اپنی جگہ پر قائم رکھی تھی۔ اب قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع ہوں گے لیکن پیٹرول کی قیمتوں کے بارے میں ڈرامائی فیصلہ کے بغیر کسی مالی معاونت کا امکان نہیں ہے۔

اس دوران شہباز شریف نے مالی امداد کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی کیا تھا اور چین جانے کا پروگرام بھی طے تھا۔ تاہم ان دونوں ملکوں نے خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود واضح کیا ہے کہ مالی معاونت کا کوئی ٹھوس معاہدہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پانے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ بیجنگ سے بھی ایسے ہی اشارے دیے گئے ہیں حالانکہ چین سی پیک منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ماضی قریب میں پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ چین بھی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات طے ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف بیجنگ جانے کی بجائے لندن چلے گئے تاکہ اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے حقیقی لیڈر نواز شریف سے ہدایات لے سکیں۔

کسی باقاعدہ اعلان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان ملاقاتوں میں کیا فیصلے کئے گئے ہیں تاہم اتوار کو لندن سے واپسی پر شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے لیڈروں سے ملاقات کرکے انہیں اعتماد میں لیا۔ اس ملاقات کے بعد آئندہ برس اگست تک حکومت کرنے اور ضروری قانونی و معاشی اصلاحات پر اتفاق رائے ہؤا ہے۔ بین السطور یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر اسٹبلشمنٹ تہ دل سے موجودہ حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہوگی تو مسلم لیگ مشکل سیاسی فیصلوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ ایسی صورت میں قومی اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کا انعقاد ہی واحد حل ہوگا لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس طرح موجودہ معاشی بحران کا حل نہیں نکل سکتا۔ انتخابات کے لئے قائم ہونے والی عبوری حکومت عالمی اداروں سے دیرپا معاہدے کرنے کی اہل نہیں ہوگی۔ اسی لئے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے اپنی پوزیشن واضح نہ کی تو چند روز میں مرکزی حکومت ٹوٹ جائے گی۔

حیرت انگیز طور پر جو سیاسی پارٹیاں فوج کے ’نیوٹرل‘ ہونے کا جشن مناتے ہوئے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی تھیں، وہ اب اسی عسکری قیادت سے حمایت کی خواست گار ہیں۔ پاکستان کی سیاسی روایت کے تناظر میں تو یہ طرز عمل قابل فہم ہے کہ ستر برس تک فوجی قیادت ہی نے ملکی عدلیہ کے ساتھ مل کر اس ملک پر اپنے فیصلے مسلط کئے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی مجبوری یا ہوس اقتدار میں ہر قدم پر عسکری قیادت کی معاونت ضروری سمجھتی رہی تھیں۔ گو کہ ایسا ہر تعاون یا تو ماورائے آئین تھا یا جمہوری اخلاقی روایات سے برعکس تھا۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتوں نے قومی مفاد کے نام پر فوج کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کبھی بھی کسی دقت کا سامنا نہیں کیا۔ سول لیڈروں کو عبرت ناک سزائیں بھی دی گئیں لیکن اس کے باوجود تعاون و اشتراک کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔

تاہم اپریل میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لا کر، باقی ماندہ تقریباً سب پارٹیوں پر مشتمل اتحادی حکومت قائم کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ عمران خان کو اب فوج کی سرپرستی حاصل نہیں ہے اور اسٹبلشمنٹ نے حکومتی کارکردگی سے مایوس ہوکر ’غیر جانبدار‘ رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسی لئے ملک کی دگرگوں حالت کو سنبھالنے کے لئے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر تمام جماعتوں نے طویل غور و خوض کے بعد باہمی سیاسی نظریاتی اختلافات کے باوجود اتحادی حکومت پر اتفاق کیا۔ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ حکومت خودمختارانہ فیصلے کرے گی، ملک و قوم کو درپیش مسائل کا حل سامنے لائے گی اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدام کرے گی۔ تاہم حکومت کے قیام کے پانچ ہفتے بعد بالواسطہ طور سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہونے کی یقین دہانی تک کوئی بڑا فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ یا شاید حکومت قائم رکھنا بھی سود مند نہیں ہوگا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کا احتجاج اور موجودہ حکومت کے خلاف پرزور منفی مہم جوئی ہے۔ ملک میں اشتعال کی ایک کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ فوج کاایک قابل ذکر اور بااثر حلقہ عمران خان کا حامی ہے جس کی وجہ سے عسکری قیادت ’غیر جانبداری ‘ کے اعلان کے باوجود کھل کر حکومت کا ساتھ دینے یا اس کے احکامات کی پابند رہنے کا اقرار کرنے سے گریز کررہی ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جو فوجی قیادت نے 2017 میں فیض آباد دھرنے کے دوران اختیار کی تھی اور حکومت کو انتہائی ہتک آمیز شرائط پر تحریک لبیک سے معاہدہ کرنے اور فیض آباد دھرنا ختم کروانے پر مجبور کیا تھا۔ اب عمران خان اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور بیس لاکھ لوگ جمع کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ آئندہ انتخات کی تاریخ کا اعلان ہونے تک اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ انتظامی طور سے اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے حکومت کو فوج اور عدلیہ کے غیر مشروط تعاون کی ضرورت ہوگی۔

موجودہ حالات میں ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ دونوں ادارے داخلی تقسیم کی وجہ سے حکومت کا سہارا بننے اور ایک مشکل بحران پر قابو پانے میں معاونت پر آمادہ نہیں ہیں۔ فوجی قیادت نے عمران خان کی مہم جوئی کا مقابلہ سیاسی طریقوں اور مفاہمت سے کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ تحریک انصاف کو حکمران سیاسی قوتوں کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے آئینی شق 63 اے کے بارے میں صدارتی ریفرنس میں آئین سے ماورا اقدام کرتے ہوئے موجودہ سیاسی صورت حال میں پنجاب کے علاوہ مرکز میں سیاسی تبدیلی کو مشکل صورت حال سے دوچار کیا ہے۔ اس کے علاوہ آج ایک سوموٹو نوٹس کے تحت حکم دیا ہے کہ حکومت ہائی پروفائل کیسز میں افسروں کے تبادلے نہیں کرسکتی اور نہ ہی نیب یاایف آئی اے اپنے ہی قائم کئے ہوئے مقدمات واپس لینے کی مجاز ہوں گی۔ یہ فیصلہ بھی حکومتی اختیار کو محدود کرے گا اور سیاسی حکومتی لیڈروں کی قسمت کی ڈور مسلسل عدلیہ کے ہاتھ میں رہے گی۔ چیف جسٹس نے اس معاملہ کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ یہ اقدام کسی حکومت کے خلاف نہیں ہے بلکہ انصاف کی بالادستی اور عدلیہ کی خود مختاری کے لئے کیا گیا ہے۔ لیکن حکومتی ذرائع اس فیصلہ کے سیاسی مضمرات کے بارے میں متنبہ کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے ایک جلسہ میں واشگاف طور سے کہا ہے کہ ’عدلیہ ایسے فیصلوں سے اپنا وقار کم کر رہی ہے، بعد میں ہم سے شکایت نہ کی جائے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے جب انتظامی اختیارات کے تحت سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی تھیں تو عدلیہ خاموش رہی لیکن عمران خان کے ایک جلسہ سے گھبرا کر سو موٹو نوٹس لینے پر آمادہ ہوگئی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا یہ رویہ بھی ناقابل فہم ہے کہ وہ اہم سیاسی و آئینی معاملات پر بنچ مقرر کرتے ہوئے عدلیہ کے سینئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس حوالے سے چیف جسٹس کو خط بھی لکھ چکے ہیں لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اصرار ہے کہ بنچ کا تعین کرنا چیف جسٹس کا استصواب ہے۔ یہ بات درست ہونے کے باوجود اعلیٰ عدلیہ میں اصولی تقسیم کا واضح اشارہ ہے۔ چیف جسٹس ایسے ججوں کو ہائی پروفائل کیسز میں بنچ کا حصہ بنانے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے برعکس مختلف آئینی و قانونی توجیہ سامنے لاسکیں۔ چیف جسٹس کا یہ رویہ اعلیٰ عدلیہ میں انتشار پیدا کرے گا جس سے انصاف کو یقینی بنانے کی بجائے عدلیہ کا کردار ہی مشکوک ہوجائے گا۔ چیف جسٹس نے اگر فوری طور سے اس طرز عمل پر نظر ثانی نہ کی تو عدالتوں پر شبہات میں اضافہ ہوگا۔اس وسیع تر تناظر میں بظاہر حکومت کی طرف سے اسٹبلشمنٹ کی حمایت کی کوشش قابل فہم ہوسکتی ہے لیکن آئین و جمہوری اصول کے تحت یہ غلط اور ناقابل قبول رویہ ہے۔ شہباز شریف اگرچہ انتہائی کم اکثریت سے منتخب ہوئے ہیں اور قائد ایوان بننے کے لئے انہیں چھوٹی بڑی 10 پارٹیوں کا تعاون حاصل کرنا پڑا ہے لیکن وہ بہر حال ملک کے وزیر اعظم ہیں اور آئین انہیں تمام انتظامی اختیار ات تفویض کرتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو یہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوج کو سیاسی جوڑ توڑ میں فریق بننے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب اسٹبلشمنٹ کے اشاروں کا انتظار کرنے کی بجائے اب اس پر واضح کیا جائے کہ جی ایچ کیو وزیر اعظم ہاؤس کے فرمان کا انتظار کرے۔ اس کی طرف سے کوئی سیاسی اشارہ کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہوگا۔ جب تک فوجی قیادت کو اس کی حدود کے بارے میں دوٹوک الفاظ میں بتایا نہیں جائے گا، ملک کی سیاسی حکومتیں مسائل کے بوجھ تلے دبی رہیں گی اور فیصلوں کے لئے غیرمتعلقہ حلقوں کی محتاج رہیں گی۔ کسی سیاسی حکومت کو کبھی یہ اختیار پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ آئین سے حاصل شدہ طاقت کے ذریعے یہ اختیار چھیننا پڑے گا۔ حکومت کی اتحادی جماعتیں اگر اس اصولی فیصلہ پر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہ دیں تو شہباز شریف تمام حالات سے قوم کو آگاہ کر کے اپنے عہدے سے علیحدہ ہوجائیں تاکہ عوام کو علم ہوجائے کہ کون اسٹبلشنٹ کی کٹھ پتلی ہے اور کون ملک میں ایک آئینی انتظام کے لئے اقدام کرنا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments