1947 کے بچھڑے اب ملے: 'اپنے خون میں بڑی کشش ہوتی ہے، بھائیوں کو دیکھتے ہی پہچان گئی تھی‘

محمد زبیر خان - صحافی


ممتاز
’ہم تین بھائی ہیں ساری زندگی ایک بہن کے لیے تڑپتے رہے تھے۔ اپنے خالہ اور ماموں کی بیٹیوں کو بہنیں بنا کر ان کے ساتھ بہنوں والے رسم و رواج نبھاتے رہے۔ قدرت نے اتنے عرصے بعد بہن کو ملایا ہے تو اب خواہش ہے کہ بہن کو جلد از جلد انڈیا کا ویزہ مل جائے اور وہ ہمارے پاس آکر کچھ دن رہ لیں۔‘

یہ کہنا تھا کہ انڈیا کی ریاست پنجاب کے ضلع پٹیالہ کے گاؤں شترانہ کے رہائشی گرومکھ سنگھ کا۔

گرو مکھ سنگھ کی بہن ممتاز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں رہائش پذیر ہیں۔ تقسیم برصغیر کے وقت یہ بہن بھائی بچھڑ گئے تھے۔ اب سے کوئی دو سال قبل ان کے آپس میں رابطے بحال ہوئے اور چند ہفتے قبل ان کی کرتار پور میں ملاقات ہوئی تھی۔

ممتاز بی بی کا کہنا ہے کہ ‘اپنے خون میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ بھائیوں کو دیکھتے ہی پہچان گئی تھی۔ اب خواہش ہے کہ کچھ دن میں ان کے پاس رہنے کے لیے جاؤں اور کچھ دن وہ میرے پاس رہنے کے لیے آئیں۔’

یہ کیسے بچھڑے اور کیسے ملے؟ ان بہن بھائیوں کی ملاقات میں سب سے اہم کردار گرو مکھ سنگھ کے 30 سالہ بھتیجے سکھجندر سنگھ نے ادا کیا تھا۔

ممتاز

سکھجندر سنگھ نے ملن کی اس کہانی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ 'میں نے اپنے بڑوں سے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں اپنے گاؤں سیکھم کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔

ہمارے بڑے اس بارے میں اس طرح بات کرتے تھے کہ ان کا اصل گاؤں سیکھم ہی ہے۔ تو میرے لیے بھی سیکھم ہی اصل گاؤں ٹھہرا تھا۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ میں برسوں سے کوشش کر رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح سیکھم تک پہنچوں، اس کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا تھا شاید اس کے لیے اتنا وقت بھی کبھی نہیں ملا جتنا وقت چاہیے تھا اور یہ وقت مجھے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران مل گیا تھا۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے میں نے شیخوپورہ کے کچھ لوگ تلاش کیے۔ اس طرح سوشل میڈیا پر پنجاب کے بچھڑے لوگوں کو ملانے کے لیے سرگرم عمل پنجابی لہر پلیٹ فارم سے بات ہوئی مگر بات کچھ بن نہیں رہی تھی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا میرے جنون میں اضافہ ہوتا گیا۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے گوگل میپ کے ذریعے شیخوپورہ اور پھر گاؤں سیکھم کو تلاش کیا۔ مجھے میری دادی نے بتا رکھا تھا کہ سیکھم کے پاس ایک نہر گزرتی ہے۔ ’میں گوگل میپ پر اس طرح کے گاؤں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘

mumtaz

'دادی نے کہا کہ اگر یہ ہی ہمارا سیکھم ہے تو اس کے ساتھ والے گاؤں کے نام بتاؤ، میں نے گوگل میپ پر وہ نام دیکھے اور دادی کو بتائے تو میری بیمار دادی اٹھ کر کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ یہ ہی ہمارا گاؤں ہے۔'

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے سوشل میڈیا پر سیکھم اور سیکھم کے لوگوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ اس تلاش میں سیکھم میں قائم ایک جنرل سٹور عبداللہ کی نشاندہی ہوئی اس کا رابطہ نمبر بھی مل گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ‘میں اس نمبر پر واٹس ایپ پیغام دیتا تو وہ دیکھ کر جواب نہ دیتے۔ پھر میں نے کال کی مگر جواب نہ ملا مگر میں بھی ضد کا پکا تھا۔ ہر تھوڑے دن بعد کال کرتا۔ شاید وہ کال اٹھا لیں مگر میرا خیال ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے وہ کال اٹھا نہیں رہے تھے۔’

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں مگر ایک دن وہ کال عبداللہ جنرل سٹور والے صاحب نے تو نہیں اٹھائی مگر ان کے پاس موجود راجہ سکھو نامی نوجوان نے اٹھا لی۔ وہ مجھ سے بات کر کے بہت خوش ہوئے اور یوں ہمارا تعلق بن گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ راجہ سکھو کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ مگر وہ علاقے کے کچھ بزرگوں کو پہچانتے تھے جو حیات تھے۔ انھوں نے ایسے ہی مہتاب نامی ایک بزرگ سے میرا رابطہ کروا دیا تھا۔

حیرت انگیز طور پر جب بزرگ مہتاب سے بات ہوئی تو وہ میرے دادا پالا سنگھ کو اچھی طرح جانتے تھے۔

mumtz

دادا کے پگڑی بدل بھائی

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ 'جب بات شروع ہوئی تو ان کو میں نے بتایا کہ میں پالا سنگھ کا پوتا ہوں۔ وہ پوچھنے لگے کہ سیکھم والا پالا سنگھ جس پر میں نے جی کہا تو ایک دم ہی ماحول بدل گیا۔مہتاب چاچا زارو قطار رونے لگے، میں ان کی ہچکیاں سن رہا تھا۔ وہ زار و قطار رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ پالا سنگھ اور ان کے والد کے پگڑی بدل بھائی تھے۔

مہتاب چاچا کہہ رہے تھے کہ ہمارا خاندان ہمیشہ ہی سے مسلمان ہے اور پالا سنگھ ہمیشہ ہی سے سکھ تھے مگر دونوں نے آپس میں پگڑیاں بدل کر ایک دوسرے کو بھائی بنا رکھا تھا۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ جب میں نے ان کو بتایا کہ میرے دادا پالا سنگھ وفات پا گے ہیں تو وہ اور رونے لگے۔ ’انھیں کچھ واقعات کا پتا تھا اور کچھ واقعات کا پتا نہیں تھا، کچھ بھول چکے تھے۔ مگر میرے دادا پالا سنگھ کا نام نہیں بھولے تھے۔‘

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ یہاں پر یاد رکھنے والی بات ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت سیکھم میں 30 سکھ اور 30 مسلمان خاندان آباد تھے۔ جس میں 29 سکھ خاندانوں نے پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ ایک خاندان نے اسلام قبول کرلیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں سے کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور مہتاب چاچا نے میرا رابطہ قمر حیات کے خاندان سے کروا دیا جنھوں نے تقسیم برصغیر سے قبل ہی اسلام قبول کر لیا تھا اور اس خاندان میں ایسے لوگ موجود تھے جنھیں تقسیم برصغیر کے واقعات کے بارے میں معلومات اور کچھ نشان دہی موجود تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘ان سے بات ہوئی تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں اپنی جس بوا (پھوپھی) کو مردہ سمجھ رہا ہوں۔ وہ زندہ ہیں اور ایک خوشحال شاندار زندگی گزار رہی ہیں۔’

mumtaz

تقسیم کے وقت دادی قتل ہوگئی تھیں

قمر حیات نے کیسے سکھجندر سنگھ کی مزید مدد کی اس بارے میں کچھ آگے چل کر بات کرتے تھے۔ اس سے قبل ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پالا سنگھ کے ساتھ تقسیم کے وقت کیا واقعات پیش آئے اور انڈیا میں زندگی کیسی گزری تھی۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ جب تقسیم ہوئی تو اس وقت میرے دادا پالا سنگھ نے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ قافلے کے ہمراہ انڈیا کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں حملہ ہوا۔ جو واقعات مجھ تک پہنچے ہیں ان کے مطابق اس وقت میرے دادا پالا سنگھ ایک دو سالہ بچی اور آٹھ سالہ بیٹے کے والد تھے۔

یہ بچی میرے دادی نے گود میں اٹھائی ہوئی تھی۔ فائرنگ ہوئی دادی موقعے پر ہلاک ہوگئیں اور قافلے میں بھگڈر مچ گئی تھی۔ اس کے بعد دادا کسی طرح اپنے بیٹے کے ہمراہ انڈیا پہنچ گئے۔ جو بعدازاں انڈیا پہنچ کر وفات پا گیا تھا۔

ان کے مطابق پالا سنگھ کا نام آج بھی سیکھم گاؤں کے بہت لوگوں کو یاد ہے کیونکہ وہ علاقے کے ایک بڑے زمیندار تھے۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ تقسیم کے کچھ عرصے کے بعد پالا سنگھ اپنی بیٹی اور اہلیہ کی تلاش کے لیے پاکستان گئے تھے۔ کچھ دن پاکستان میں رہے۔ وہاں پر کیا ہوا یہ زیادہ نہیں پتا انھوں نے بھی کسی کو کچھ زیادہ نہیں بتایا تھا۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ انڈیا پہنچ کر میرے دادا نے قتل ہونے والی دادی کی بہن سے شادی کر لی تھی۔

‘میری اصل دادی وہ ہی ہیں جن کی گزشتہ سال وفات ہوئی ہیں۔ وہ ساری زندگی اپنی بہن کو یاد کرتی رہیں اور ہمیں کہتی رہیں کہ یہ تو پتا چلتا ہے کہ میری بہن قتل ہوگئی ہے مگر وہ لڑکی ضرور زندہ ہے۔’

mumtaz

شیخورہ میں موجود قمر حیات کہتے ہیں کہ 'مجھے میرے والد اور تایا نے تقسیم کے وقت کی باتیں بتا رکھی تھیں۔یہ ہی باتیں میں اپنے بیٹیوں کو بھی بتاتا ہوں کیونکہ بہرحال ہم لوگ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ دل میں کبھی کبھی یہ خواہش ضرور پیدا ہوتی تھی انڈیا میں موجود اپنے قبیلے کے لوگوں سے رابطہ ہو۔'

یہ موقع سکھجندر سنگھ سے رابطے کے بعد پیدا ہوا۔ وہ جب بھی بات کرتا تو کہتا کہ میری بوا (پھوپھی) کے بارے میں بتاؤ۔ اب میں اس کو کیا بتاتا اور کیا نہیں بتاتا۔ شروع میں تو میں خود بھی تھوڑا خوفزدہ ہوگیا تھا مگر پھر میں نے بھی اس کی مدد کرنے کا سوچ لیا تھا۔ پالا سنگھ کی کہانی اس لیے بھی یاد اور مشہور تھی کہ وہ بہت امیر کبیر شخص تھے۔’

تیس ہزار روپیہ اور سونا بندھا ہوا تھا

قمر حیات ان واقعات کی تصدیق کرتے ہیں جو سکھجندر سنگھ نے پالا سنگھ کے حوالے سے بتائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مجھے میرے والد اور تایا نے یہ واقعات بتا رکھے تھے۔

قمر حیات کہتے ہیں کہ تقسیم کے وقت ہجرت کے دوران پالا سنگھ کی اہلیہ کی کمر کے ساتھ 30 ہزار روپے اور بڑی مقدار میں سونا بندھا ہوا تھا۔ تقسیم کے وقت شاید یہ اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا تھے۔ رقم اور سونا لوٹ لیا گیا اور ان کی بیٹی پاکستان ہی میں رہ گئی تھی۔

قمر حیات کہتے ہیں کہ اس کم عمر بچی کو علاقے کے ایک بڑے زمیندار چوہدری مبارک علی مرحوم نے گود لے لیا تھا۔ اس کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا۔ اس وقت تک چوہدری مبارک علی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس بچی کے جس کو انھوں نے ممتاز بی بی کا نام دیا تھا بعد میں اولاد بھی ہوئی تھی۔

قمر حیات کہتے ہیں کہ سکھجندر سنگھ کے ساتھ رابطوں کے بعد وہ سارے سنے ہوئے واقعات یاد آنا شروع ہوئے۔ بات سے بات ملائی تو سمجھ میں آگیا کہ ہو نہ ہو یہ ہی مائی ممتاز بی بی سکھجندر سنگھ کی بوا ہے۔ اس کے بعد سکھجندر سنگھ کے بیٹیوں سے بات ہوئی جن کا شمار شیخپورہ کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔

پہلے تو وہ یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھے مگر بعد میں انھوں نے اپنے خاندانی زرائع سے معلومات حاصل کیں تو نہ صرف وہ بلکہ اس مائی نے بھی تسلیم کرلیا کہ یہ وہ ہی وہ بچی ہے جو تقسیم کے وقت اپنے والد سے بچھڑ گئی تھی۔

ممتاز بی بی کے بیٹے شہباز احمد ورک کہتے ہیں کہ شروع میں تو ہمیں بھی یقین نہیں آیا کہ ایسے بھی ہوسکتا ہے مگر سچائی سچائی ہوتی ہے جس کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے بھی اس سچائی کو قبول کرلیا ہے اور جب ہمارے ماموں پاکستان آئے تھے تو میری والدہ ان سے مل کر بہت جذباتی ہوئیں تھیں۔

mumtaz

اپنا خون تو اپنا ہوتا ہے

ممتاز بی بی اس وقت شیخوپورہ میں ایک خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنا خون تو اپنا ہوتا ہے۔ خون ایک دوسرے کو دیکھ کر جوش مارتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سکھجندر سنگھ سے رابطے سے پہلے وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ پالا سنگھ کی بیٹی ہیں۔ ’پہلے تو جب پتا چلا تو یقین ہی نہیں آیا مگر پھر مجھے بھی پتا چلا گیا کہ یہ سچ ہے۔‘

ممتاز بی بی کی طرح ان کے بیٹے شہباز احمد ورک نے بھی اس پر بات کرنے سے گرہیز کیا کہ انھیں حقیقت کا کیسے پتا چلا۔ کس کی نشان دہی پر ان کو یقین آیا۔ بس یہ کہا کہ مجھے حقیقت پتا چل چکی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

ممتاز بی بی کہتی ہیں کہ کرتار پور میں ہونے والی ملاقات بہت جذباتی تھی۔ ’اس میں اپنے بھائیوں کو دینے کے لیئے صرف آنسو ہی تھے جو میں نے بہت دیئے ہیں۔ کوئی بھی میرے بھائیوں کو دیکھے اور مجھے دیکھے تو اس کو فی الفور پتا چل جائے گا کہ ہم بہن بھائی ہیں۔‘

میرے بیٹوں نے انڈیا کے ویزہ کے لیے درخواست دینے کی تیاری کر رکھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں جلد انڈیا جاؤں گی اور پھر میرے بھائی پاکستان آئیں گے جہاں پر وہ سیکھم اپنے گاؤں کو بھی دیکھیں گے۔

سکھجندر سنگھ کہتے ہیں کہ میں نے وڈیو کال کے ذریعے سے اپنے دادا کا گھر دیکھا تھا۔ وہ کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ باہر سے اب بھیی ویسا ہی ہے جیسا مجھے میری دادی نے بتایا تھا۔ لکڑی کے بڑے بڑے دروازے اور اونچی دیواریں اور وہ سب کچھ۔

بس میرے خواہش ہے کہ پہلے بوا ہمارے پاس آئیں اور پھر ہم سیکھم جائیں۔ سیکھم کے پاس موجود نہر کے پاس کچھ وقت گزاریں اور اس گھر کو دیکھیں جہاں پر میرے دادا کا بچپن اور جوانی گزری تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments