سیاست خواہشات پوری ہونے کا نام نہیں


کیونکہ ملک میں سیاست کچھ ناقص طرز کی ہو رہی ہے اس لیے عموماً موضوع گفتگو سیاست اور سیاستدان ہوتے ہیں۔ نزلہ سیاستدانوں کے ساتھ فوج کی اشرافیہ پر بھی گرتا ہے جس کی ماضی کی عیاں اور حال کی مخفی روش نے ملکی معیشت کو یہ دن دکھائے کا بیان دے دیے جاتے ہیں اگر سعودی عرب وغیرہ مالی مدد نہ کریں تو ملک ڈیفالٹ کر جائے یعنی دیوالیہ ہو جائے گا۔ ایسے بیان عجیب بھی ہیں اور رندانہ جرات اظہار بھی۔

لیکن گفتگوئیں کرنے والے پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں میں یہ ناقابل عمل خواہش نہ معلوم کیسے جگہ پائے ہوئے ہے کہ کیا اچھا ہو اگر ملک میں درمیانے طبقے کے لوگ عوام کے نمائندے ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا صرف ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انقلاب آیا ہو اور وہ بھی مذہبی جیسے ایران میں یا ضیاءالحق کا برپا کردہ جس میں غیر جماعتی نمائندے منتخب کروائے جاتے ہیں مگر اس طبقے کے یوں اوپر لائے لوگ بالائی طبقے تک سعود کر جانے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگایا کرتے۔

ضیاء کے زمانے میں آگے آئے لوگوں کو دیکھ لیں یا ایران میں اوائل انقلاب میں برسراقتدار آنے والوں کو، درمیانے طبقے کی فطری موقع پرستی واضح ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ دنیا میں کہیں بھی درمیانہ طبقہ سیاسی میدان میں بالادست نہ کبھی رہا اور نہ آج ہے البتہ ان ملکوں میں جہاں متناسب نمائندگی طرز انتخاب ہو یا امریکہ کا منفرد طرز انتخاب وہاں جانتے بوجھتے درمیانے طبقے کے افراد کو جو مالی طور پر بالعموم ہمارے ملک کے بالائی درمیانے طبقے کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، تھوڑی سی تعداد میں آگے کی صفوں میں لایا جاتا ہے تاکہ شلغموں سے مٹی چھاڑی جا سکے۔

ہم اگر ملک میں دیکھیں تو درمیانہ طبقہ کی شرح کل آبادی کا بمشکل دس بارہ فیصد بنتی ہوگی جبکہ غریبوں کی شرح اسی فیصد سے تجاوز کرتی ہوئی ہوگی۔ کچھ چار پانچ فیصد بالائی درمیانہ طبقہ ہو گا اور ڈیڑھ دو فیصد مالیتی اشرافیہ جن میں مراعات یافتہ جرنیل، بیوروکریٹس، بہت کم ٹیکنوکریٹس، بڑے تاجر، سرمایہ کار اور صنعت کار شامل ہوں گے ، مگر گفتگو میں پڑھے لکھے لوگ کبھی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نہیں پائے گئے کہ عوام کی نمائندگی کرنے والوں کی بیشتر تعداد غریبوں میں سے ہو۔

ایسا نہ سوچا جانا ہی اس نام نہاد درمیانے طبقہ جو درحقیقت نچلا درمیانہ اور وسطی درمیانہ طبقہ ہوتا ہے، سے متعلق ہم ایسے افراد کی مخفی کمینگی اور موقع پرستی کے مواقع کے حصول کی خواہش کا مظہر ہوتا ہے، ہم جو اچھے ریستورانوں اور کافی ہاؤسز میں شاموں اور راتوں میں بیٹھے غیبت گوئی میں مصروف ہوتے ہیں جسے ہم بڑے خلوص سے سیاسی بحث کا نام دیتے ہیں۔ پھر گھروں میں جا کر سو جاتے ہیں اور اگلے روز اسی نظام سے وابستہ اداروں و تنظیموں کے دفاتر میں جا کر روزی روٹی کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں جس کا ہم گلہ کرتے ہیں۔

ہم مڈل کلاسیے اپنے اپنے سیاسی تعصبات، مالی تحفظات اور نفسیاتی امتناعات میں مبتلا کبھی یہ خواہش کر کے اس کی تکمیل کا جتن کیوں نہیں کرتے کہ ہم جہاں ہیں وہاں سے ہی میسر ذرائع سے ملک کی کثیر آبادی کو تعصب، تحفظ اور امتناع سے ماورا ہو کر جتنا ممکن ہو سکتا ہے حقائق سے آگاہ کریں۔ نہ نواز شریف کے وکیل بنیں، نہ بلاول کے شستہ جیالے، نہ عمران خاں کے نرم خو عقیدت مند اور نہ ہی فوج کے دانت کٹکٹاتے مخالف بلکہ صحافی، استاد، ادیب، فنکار، شاعر، تجزیہ کار کے طور پر سب کی قلعی کھولیں اور سب کی واجب ستائش سے بھی گریز نہ کریں۔

لوگوں کو بتائیں کہ اپنے مصائب کے وہ خود ذمہ دار ہیں کہ چننا ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پری پول اور پوسٹ پول رگنگ جسے اب انجنیئرنگ کہا جاتا ہے کہاں نہیں ہوتی۔ کہیں کم، کہیں زیادہ، کہیں مہذب انداز میں تو کہیں بھدے طریقے سے۔ اس سے مفر نہیں۔ نہ ہی اگلے بیس برسوں میں جو میسر سیاسی خاندان ہیں ان کا متبادل دیا جا سکتا ہے، اس لیے جان کاری کو نشر کرنے کا اسی طرح کام کریں جیسے فرانس اور اٹلی میں رینے ساں والوں نے کیا تھا۔

صلابو۔ یہ روسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ نہیں کر سکتے نا، اگر ایسا ہے تو باتیں کرتے رہیں لیکن اگر کچھ کرنا ہے تو جو سوچتے ہیں اور جیسا سوچتے ہیں اس کے لیے عمل بھی کریں۔ مڈل کلاس اپنے تمام تر کمینہ پن اور موقع پرست سرشت کے باوجود کچھ کر گزرنے کے لیے متحرک قوت بھی ہوا کرتی ہے۔ کچھ کیجیے ممکن ہے آپ بھی ہمارے دوست افراسیاب خٹک کی طرح بنی گالہ میں بنگلہ تعمیر کروانے سے پہلے سینیٹر منتخب کروا لیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments