تمہیں ظلم میں مہارت ہے


ملک میں جب سے حالیہ سیاسی بحران شروع ہوا ہے، بعض حلقوں کی جانب سے اشاروں کنایوں میں یہ باؤ کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جسے اس کے پس پردہ مقتدر حلقوں کا کوئی کردار ہے۔ یہ حلقے بڑے تواتر سے ایسی افواہیں پھیلا رہے اور قیاس آرائیاں کر رہے ہیں، ایسی شر پسندی کا مطلب کیا ہے ’اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف جس تواتر کے ساتھ جارحانہ انداز میں جلسے کر رہی ہے اور اسلام آباد دھرنے کا اعلان بھی کیا جا چکا اور احتجاجی مظاہروں سے سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے تو جو اباً حکومت بھی ترکی با ترکی جواب دے رہی ہے۔ اس کی وجوہ سے سب آگاہ ہیں کہ عمران خان فوری طور پر انتخابات چاہتے ہیں، ان کی دانست میں اس وقت وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں اور انہیں عوام کی ہمدردی اور مکمل حمایت حاصل ہے، لہذا انتخابات کے نتیجے میں انہیں دو تہائی اکثریت ملنے کا یقین ہے۔

ملک کے فہمیدہ حلقے جانتے ہیں کہ اس وقت جو فضا بنی ہوئی ہے اس میں حکومتی اتحاد کے لئے بڑے چیلنجز ہیں کہ وہ کسی بھی صورت سیاسی اور معاشی بحران کے مضر نتائج سے بچ نہیں سکتے، ان حالات میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ سیکورٹی، ریاست کے لئے پریشانیوں کا موجب بنی ہوئی ہے۔ صورت حال اب کچھ یوں ہے کہ پی ٹی آئی سے پونے چار برس تک حکومتی دور میں اٹھائے گئے اقدامات پر سوال نہیں اٹھایا جا رہا ۔ عام انتخابات اگر ہوتے بھی ہیں تو اس میں عوام کے پاس جانے اور ووٹ مانگنے کے لئے کارکردگی کے بجائے تھیوریوں کا سہارا لیا جائے گا، اگر کسی سیاسی جماعت کا بیانیہ کسی بھی قسم کی تھیوری پر مشتمل ہو گا تو ان کی مخالف جماعت کی تمام قوت اس بیانیہ کی رد کرنے پر صرف ہوگی۔ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا جا رہا کہ عوام کے لئے ایسا کیا گیا جس سے انہیں کوئی ریلیف ملا ہو، صرف تکلیف، تکلیف اور تکلیف ملنے پر ووٹ مانگنے کا نیا رجحان یقیناً قابل دل چسپ ہو گا، جب سیاسی جماعتیں خود کو پہنچنے والی تکالیف پر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہوں گے۔

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ایک جانب تو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے تو دوسری طرف تواتر سے معاشی حب کراچی کے مصروف ترین بازاروں میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ بم دھماکے انتہائی مصروف ترین بازاروں میں ہوئے ہیں، خوش قسمتی سے قیمتی جانوں کے نقصان کم ہیں لیکن ان دھماکوں سے معاشی سیکورٹی کو بے یقینی کا سامنا ہے، جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے، اب تصور کیا جائے کہ ایک جانب موجودہ حکومت معاشی بحران کو کم کرنے کے لئے فیصلہ کن عمل کرنے میں تامل کا شکار، تو دوسری جانب ڈالر کی تاریخی اڑان کے نتیجے میں افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ سے عوام کا غیض و غضب اور سرمایہ کاروں کی بے چینی تو تیسری جانب پی ٹی آئی کے روزانہ جلسوں میں مختلف سازشی تھیوریاں اور حکومت سے فوراً انتخابات کرانے کا مطالبہ۔ ان حالات میں اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ موجودہ معاملات کا فائدہ براہ است کس جماعت کو جائے گا۔

پاکستان مزید کسی سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ، حکومت کو اپنی تمام تر توجہ سیاسی بحران کو حل کرنے پر مرکوز رکھنی چاہے، ملک میں آئین موجود ہے، پارلیمنٹ موجود ہے اور جمہوریت موجود ہے، لہذا ایسا نہیں ہے کہ نظام میں کسی بحران کا حل موجود نہیں، اگر بحران کے حل لئے کہیں کسی آئینی مشکل کا معاملہ آتا ہے تو عوامی نمائندے اسے بھی طے کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضد اور انا کو چھوڑنا پڑے گا۔ حالیہ سیاسی بحران کو شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا، اس بحران کے اثرات معیشت سے لے کر انتظامیہ تک مرتب ہو رہے ہیں، غیر ملکی قوتیں اس بحران کو دیکھ رہی ہیں ایسی صورت حال کے باوجود سیاسی قیادت کا کسی فیصلہ کن رائے پر متفق ہونا ضروری ہے۔ مشکل فیصلے کل بھی کرنا ہی ہوں گے، لہذا سیاسی مفادات کے بجائے ملکی ترجیحات کو اہمیت دینا زیادہ ضروری ہے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت بالغ نظر اور تجربہ کار ہے، وہ حالات کو بخوبی سمجھ رہی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ ابھی تک اس بحران کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی جانب نہیں بڑھ سکی۔ اسی وقت صورت حال یہ ہے کہ تمام تر معاملات میں حکومتی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں میں معاملہ جوں کا توں ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سیاسی بحران و عدم استحکام کو سیاسی انداز میں ہی حل ہونا چاہے، گیند کو ایک دوسرے کی کورٹ میں پھینکنے سے گریز کرنا چاہیے، کسی ریاستی ادارے کو براہ راست مداخلت کی دعوت دینے کے بجائے اپنا معاملہ خود ہی حل کرنا چاہے، کسی تیسرے فریق کو معاملے میں لانے سے ماضی میں ناقابل تلافی نقصان اٹھائے جا چکے ہیں، اس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وقت تیزی سے گزر رہا ہے ان حالات میں الزام تراشیوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے، حکومت اور اپوزیشن جماعت بلاتاخیر بامعنی اور بامقصد مذاکرات کریں تو یہ بحران خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے کسی عمل کا حصہ بننے کے بجائے سیاسی تپش کو بڑھا رہے ہیں۔

آئینی بحران نے پنجاب کو بری طرح جکڑ دیا ہے، صدر، گورنر پنجاب کو برطرف تسلیم نہیں کر رہے، پنجاب میں کابینہ موجود نہیں، آئینی طور پر گورنر پنجاب برطرف ہیں لیکن نیا گورنر تعینات نہیں ہو سکتا کیونکہ صدر پاکستان اسے خلاف آئین اور اپنا صوابدید اختیار سمجھتے ہیں، قائم مقام گورنر اپنا عہدہ سنبھالنے کے لئے تیار نہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں ابھی تک نیا گورنر تعینات نہیں کیا جا سکا۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے اراکین کے استعفیٰ آئین کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق منظوری کے عمل سے گزرنے باقی ہیں۔

منحرف اراکین کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صورت حال بڑی گنجلک ہو گئی کیونکہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوسکتے۔ جس کے بعد پنجاب میں ایک بڑا آئینی بحران جنم لے گا۔ جس کے اثرات قومی سیاست پر پڑیں گے۔ افواہیں سرگرم کہ ان حالات کا سکرپٹ ماہرانہ انداز میں لکھا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں آج آئینی بحران اور سیاسی عدم استحکام عروج پر ہیں۔ اس نئے بحران کے قیمت ملک و قوم کو کس صورت میں ادا کرنا ہوگی، اس کے لئے سب کو تیار رہنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments