پاکستانی ٹھرکی# پاکستانیو نکل جاؤ #


”میرے کمرے کی کھڑکی جو گلی میں کھلتی ہے، کے باہر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر علاقے کے چند آوارہ لڑکے مقامی ویشیا کا ذکر کر کے لطف اندوز ہو رہے تھے اور میں اپنے کمرے میں بیٹھا مدھم موسیقی کے ساتھ ساتھ ان کی واہیات باتیں بھی سن رہا تھا“ !

ان میں سے ایک نے کہا
”یار اب وہ بوڑھی ہو گئی ہے، اس کی بیٹی دیکھی ہے، گلناز نام ہے۔ بہت ظالم چیز ہے!“

اسکی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ اتنے میں اذان گونجنے لگی اور اس شور میں ان کا ایک ساتھی یہ بات ٹھیک طرح سن نہ پایا تو میری کھڑکی بجا کر غصے سے بولا ”!

”یار گانے بند کرو، اذان ہو رہی ہے“ !

یہ اقتباس منٹو کے ایک افسانے کا ہے۔ ایک اچھا ادیب صرف اپنے وقت کا رونا ہی نہیں روتا بلکہ آنے والے عہد کا نوحہ بھی لکھ جاتا ہے۔ شاید ہم منٹو کے اسی آنے والے عہد میں آخری سانسیں لے رہیں ہیں۔

گزشتہ دو تین ہفتوں سے ترکی میں پاکستانیو نکل جاؤ اور پاکستانی ٹھرکی pakistanigetout# pakistaniperverts# کے ہیش ٹیگ چل رہے ہیں۔

اس کی وجہ وہ ٹک ٹاک ویڈیوز ہیں جو ترکی میں عارضی طور پر مقیم پاکستانی شہریوں نے ترک لڑکیوں کی بنائی ہیں۔ اگر کوئی ترک خاتون چھوٹی اسکرٹ میں ٹرین کا انتظار کر رہی ہے اور اس کے جسم کے خد و خال ابھر کر سامنے آ رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ وہ پاکستانی جنتی کے موبائل فون میں محفوظ ہو چکی ہے اور ٹک ٹاک پر مشہور ہو رہی ہے۔

کوئی بکنی پہنے ترک لڑکی اگر ساحل سمندر پر نہا رہی ہے، کوئی چھوٹا لباس پہنے ریسٹورنٹ میں کھانا رہی ہے، اس پاکستانیوں کے گینگ سے کوئی محفوظ نہیں تھا یہاں تک کے چھوٹے بچے بھی جو سمندر میں نہا رہے تھے۔

بازار میں گھومتی اور روزمرہ زندگی کا سامان خریدتی ہوئی لڑکیوں کی بھی ویڈیو بنا کر ٹک ٹاک پر نمائش کے لیے پیش کر دی گئی۔

ترکی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ہم شریک تھے۔ کسی سے پچاس ہزار یورو تو کسی سے دس ہزار یورو تک مانگے گئے۔

ان ہی واقعات کی وجہ سے ترکی کی حکومت نے پاکستانیوں کے لئے ویزہ پالیسی میں سختی کر دی ہے۔ اور ہم پاکستانیوں کی نیک نامی میں اضافہ الگ۔

ترکی میں خواتین کا اسکرٹ پہننا، بکنی میں نہانا، چھوٹے بلاوز میں باہر جانا ایک عام بات ہے۔ رات کے کھانے میں مشروب مغرب بھی لینا عام بات ہے۔ موسیقی سنتے ہوئے لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ کیفے میں وقت گزارنا، ہنسنا، مسکرانا اور اپنی زندگی کا مزہ لینا نارمل لوگوں اور نارمل معاشرے کا کام ہے۔

لیکن شاید ہم نارمل زندگی گزارنے کے فن سے ناواقف ہیں۔ ہمارا پورا معاشرہ ایب نارمل طرز عمل رکھتا ہے۔ ہمیں نہ خوشی منانا آتی ہے نہ ہی غم۔ نہ ہم ڈھنگ سے کوئی تہوار مناتے ہیں اور نہ ہی ہمیں احتجاج کرنا آتا ہے۔

احتجاج کریں گے تو اپنی ہی گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگا دیں گے۔ بسنت کا تہوار منانے گے تو کم از کم دس سے پندرہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گے۔ کوئی خوشی کا لمحہ ہو گا تو رات کو بارہ بجے تک اونچی آواز میں گانے بجاتے رہیں گے۔ کوئی بیمار بھی ہو سکتا ہے محلے میں۔ ہم ایب نارمل لوگ ہیں۔

دوسری طرف مسجدیں بھری ہوئی ہیں، عمرہ اور حج اتنا مہنگے ہونے کے باوجود بھی ہم سب سے زیادہ کرتے ہیں، پورے پاکستان میں کسی کو بھی فون کر لو اس کے موبائل فون پر نعتیں لگی ہوئی ہیں لیکن معاشرہ اس کے برعکس جس کا ترکی میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے۔ مان لیجیے صاحب کہ ہم بیمار لوگ ہیں۔

ایک اچھی روح کے بغیر مذہب، دین، ایمان اور عقیدہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ ہم نے منبر والوں کو بھی پرکھ لیا۔ بادشاہوں کے دربار میں حاضری لگانے والے مولانا ہوں یا منبر پر بیٹھ کر کامیڈی کرنے والے مولوی، کسی نے اس قوم کی تربیت نہیں کی۔

ریاست کو تو خیر چھوڑ ہی دیجئے جو خود نزع کے عالم میں ہے۔ وہ ملک کیسے عوام کی تربیت کرے جس کے پاس صرف تین مہینے کا راشن بچا ہو۔

سیاسی لیڈر تربیت کریں گے؟ جو ایک دوسرے کے گریبانوں سے الجھے ہوئے ہیں۔ جو مدینہ اور مکہ میں بھی دست و گریباں ہیں۔ جن کا مقصد ہر صورت اقتدار اور بس اقتدار ہے۔

وہ تعلیمی ادارے ہماری قوم کی تربیت کریں گے جن کے تعلیمی نصاب میں صرف جھوٹ اور جھوٹ پڑھایا جاتا ہے؟ چاہے وہ مسلمانوں کی تاریخ ہوں یا پاکستان کی تاریخ۔ نفرت پر مبنی تعلیم صرف بیمار ذہنیت کے لوگ ہی پیدا کر سکتی ہے جو ہم کر رہے ہیں جس کا ثبوت ہم ترکی میں دیکھ رہے ہیں۔

منٹو کے اوپر بیان کیے ہوئے اقتباس نے ہمارے سماج، دم توڑتے معاشرے، اخلاقی اقدار اور منافقت کی صحیح نشاندہی کر دی ہے اور جو کچھ باقی بچا ہے وہ جون ایلیا کے اس شعر کے مصداق ہے کہ

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments