عمران خان کا مریم نواز کے بارے بیان


عمران خان نے ملتان جلسے میں مریم نواز کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی ہے کسی بھی سابقہ وزیراعظم کو اس طرح کے الفاظ زیب نہیں دیتے۔ عمران خان صاحب کے اس بیان کے بعد دو باتیں نہایت قابل غور ہیں۔ کہ عمران خان صاحب کی اسٹیٹمنٹ کے بعد جلسے کے شرکاء نے آگے سے ہلڑ بازی اور ہوٹنگ کی۔ مطلب آپ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان صاحب کے اس بیان کی تائید کی اور ہوٹنگ کر کے یہ ثابت کیا کہ آپ درست فرما رہے ہیں۔

دوسرا عمران خان صاحب کے اس بیان کی جب سوشل میڈیا کے سنجیدہ طبقات نے پرزور مذمت کی تو جواب میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے مختلف دلیلیں دینا شروع کر دی۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنان کے کل ملا کر بیانات کا خلاصہ بے نظیر کو پیلی ٹیکسی کہنے سے لے کر بے نظیر کی جعلی برہنہ تصاویر تک محدود تھا۔ بہرکیف جلسے کے شرکاء اور سوشل میڈیا کے ڈیفینڈ کرنے والے اقدامات دونوں ہی قابل مذمت قابل افسوس ہیں۔ سیاست میں کردار کشی کو 90 کی دہائی میں سب سے زیادہ عروج حاصل ہوا اور اگر پاکستان میں کسی بھی سیاسی خاتون کی سب سے زیادہ کردار کشی کی گئی ہے تو وہ بے نظیر بھٹو صاحبہ ہیں۔

نون لیگ کا یہ اقدام ہر دور میں قابل مذمت اور قابل افسوس رہا ہے۔ لیکن کیا تیس سال بعد نون لیگ کے ان اقدامات کی بنیاد پر عمران خان کے بیان کو ڈیفینڈ کیا جا سکتا ہے؟ میرے خیال میں یہ دلیل نہایت بودی ہے۔ عمران خان صاحب کے بارے میں جو بیانات ریحام خان اور عائشہ گلالئی نے دیے ہیں اور اس کے جواب میں عمران خان صاحب کا تحمل اور صبر قابل تعریف ہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ مریم نواز نے عمران خان کے خلاف سیاسی بیان بازی تو ضرور کی ہے لیکن کردارکشی کا کوئی ایسا خاص بیان جاری نہیں کیا۔

پھر کیا وجہ تھی کہ عمران خان صاحب اس حد تک چلے گئے؟ یار لوگ اس کو عمران خان صاحب کی بوکھلاہٹ بھی قرار دے رہے ہیں۔ مشرف کے مارشل لا کے بعد دونوں پارٹیوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور یہ عہد کیا کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی عدم برداشت اور کردار کشی سے پرہیز کیا جائے گا۔ 2007 سے لے کر 2018 تک دونوں پارٹیوں نے تقریباً اس پر عمل بھی کیا۔ اس عرصے کے دوران نون لیگ کی طرف سے پھر بھی پیپلز پارٹی پر حملے ہوتے رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرتے رہے لاڑکانہ کے سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالنے جیسے بیانات دیتے رہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز کو کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ وہ نون لیگ سے پیپلز پارٹی کا بدلہ لینے پر اترا آئے ہیں؟ جبکہ پیپلز پارٹی خود موجود ہے بدلہ لینے کی اہلیت رکھتے ہوئے بھی نون لیگ کے بارے میں کبھی غلیظ زبان استعمال نہیں کرتے۔

یہاں تک کہ پیپلز پارٹی نے کبھی پی ٹی آئی کے بارے میں بھی کوئی خاص کردار کشی کا پراپیگنڈا نہیں کیا۔ البتہ نون لیگ کے مراد سعید کے بارے میں بیانات بھی انتہائی قابل مذمت ہیں۔ سیاست میں کردار کشی کی اجازت اگر مگر کے بعد بھی کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ دوسری طرف نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ہے جو اس وقت امریکہ میں عمران خان کے دورہ روس کو ڈیفینڈ کر رہے ہیں اور اس کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی سابقہ قیادت سے لے کر موجودہ قیادت تک نے ہمیشہ عورت اور مذہب کارڈ کی مذمت کی ہے۔ تو کیا پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہو چکی ہے؟ یا پیپلز پارٹی پاکستانی منظرنامے سے ہٹ چکی ہے؟ جبکہ آج بھی لوگ زرداری کو پاکستان کا سب سے بڑا سیاستدان اور موجودہ حکومت کو زرداری کی مرہون منت شمار کرتے ہیں۔ میرے نزدیک خان صاحب کی بری کارکردگی کے باوجود جیسے عوام کا جم غفیر ان کے ساتھ تھا اور ان کے جلسوں میں جو تعداد کی پوزیشن تھی جس کی بنیاد پر وہ اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے تھے، ان کی مقبولیت کا گراف جس تیزی سے اوپر جا رہا تھا اب اس میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔

خان صاحب نے اپنے ہی ہاتھوں سے اس میں شگاف ڈال دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب آپ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہوں، حکومت ڈگمگا رہی ہو، آپ کا ہر طرح کا بیانیہ کامیاب جا رہا ہو اور آپ اس قسم کا بیان دیں تو میرے خیال میں یہ بیان آپ کا سیاسی موت ثابت ہو گا۔ سیاست سیاسی جدوجہد، برداشت اور تحمل کا نام ہے۔ سیاست کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ اور حکومت حاصل کرنے کا نام ہے۔ کردار کشی کر کے اور مذہبی چورن بیچ کر معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دینا سیاست نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments