مریم نواز: قابل فخر بیٹی


جب انسان کے اعصاب پر کوئی اہم بات، کوئی دوسرا انسان یا کوئی اہم واقعہ سوار ہو جائے تو وہ اس کے لئے درد سر بن جاتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کے دماغ پران چیزوں کا گہرا اثر ہوتا ہے جس کے بعد ذہن سوچنے، سمجھے اور غور کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سختیاں برداشت کرنے اور اپنے توقعات کے برعکس بات سننے کا عادی نہیں ہوتا ہے۔ جب کبھی اچانک کوئی دوسرا انسان اس کے سامنے اس کی توقع کے برعکس اور اسی کی حقیقت اور اصلیت پر بات کردے تو اچانک اس شخص کو گہرا صدمہ بھی پہنچ جاتا ہے پھر اس کے منہ میں جو آتا ہے وہ جو اباً سب کچھ بغیر سوچے کہنا شروع کر دیتا ہے۔

اگر آپ کا کبھی لاہور کے مینٹل ہسپتال میں چکر لگا ہو تو ہسپتال کے ریکارڈ روم کا جائزہ لازمی لیں۔ اس ریکارڈ کے مطابق یہاں نوے فیصد مریض وہی آتے ہیں جن کو ذہنی طور پر کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہوتا ہے۔ عمران خان کی آج کل صورتحال بھی اسی پاگل خانے کے مریض جیسی ہے۔ جو کرسی چھن جانے کے صدمے میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ جس دن کا وزیر اعظم ہاؤس سے نکلا ہے کبھی خطرناک بن رہا ہے، کبھی بے لگام گھوڑے کے مانند دوڑ رہا ہے اور کبھی ذہنی مریض کی طرح مغلظات منہ سے نکالتا ہے۔

میں تو حیران ان لوگوں پر ہوں جنہوں نے ایک ایسے ذہنی مریض کو پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا۔ عمران خان وزیر اعظم بنا تو اس نے سب سے پہلے سعودی عرب جیسا نظام لانے کی بات کی، پھر ایران جیسا نظام لانے کا خواہاں تھا، کچھ ہی عرصے بعد امریکی نظام کی خواہش کا اظہار کیا۔ پھر جب ایران گیا تو ایران اور سعودی عرب کی صلح کرانے کے لئے سہولت کار بننے کی آفر کی، پھر چین گیا تو چین اور امریکہ کے درمیان صلح کرانے کی آفر کی، پھر روس گیا تو وہاں بھی امریکہ اور روس کے درمیان صلح کرانے کی آفر کی، بدقسمتی دیکھیں عمران خان سعودی، ایران اور امریکہ کا نظام تو یہاں نہ لا سکا لیکن جو پاکستانی نظام چل رہا تھا اس کو بھی تباہ کر گیا اور جن ممالک کے درمیان صلح کرنے کی آفریں کرتا تھا جاتے جاتے سعودی عرب، ایران، چین اور امریکہ سے بھی پاکستان کے تعلقات خراب کر گیا۔

عمران خان وزیر اعظم ہاؤس سے نکلا نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا وزیر اعظم بن گیا جس کو پارلیمنٹ نے آئینی طریقے سے نکالا اسی بات کا صدمہ ان کے ذہن پر سوار ہو چکا ہے۔ پہلے تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کے نام بگاڑے اور گالیاں دی اب مریم نواز کے متعلق انتہائی گھٹیا اور غیر ذمہ دارانہ گفتگو کر کے ہماری اخلاقی روایات کو بھی داغدار کر دیا۔ مریم نواز اس وقت پاکستان میں جمہوریت کی سب سے طاقتور آواز ہے۔

جو دو بار بے گناہ جیل جاکر بھی جھکی نہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹی۔ اکثر لوگوں کے دماغ میں ایک بات ڈال دی گئی ہے کہ مریم نواز نے بھی کرپشن کی ہے۔ اگر مریم نواز نے کرپشن کی ہے تو آج تک نیب مریم نواز کے خلاف عدالتوں میں ثبوت کیوں نہیں پیش کر سکا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں مریم نواز کی بریت کی درخواست کو ایک سال ہونے والا ہے اور مسلسل کیس چل رہا ہے اس میں بار بار نیب کا کبھی وکیل بھاگ جاتا ہے اور کبھی نیب کی ٹیم ثبوت تلاش کرنے نکل جاتی ہے لیکن آج تک نیب مریم نواز کے خلاف عدالت میں ایک بھی ثبوت نہیں پیش کر سکا۔

ثبوت کہاں سے آئیں گے؟ ثبوت ہوں گے تو پیش کریں گے۔ نیب کی پاناما والی جے آئی ٹی نے عدالت میں لیز چیپس والے بڑے بڑے ڈبوں میں عدالت میں بقول نیب کے اہم شواہد پیش کیے تھے۔ ان ڈبوں میں شاید شواہد کی بجائے لیز چیپس ہی تھی جو امکان ہے اب تک عدالتی عملہ کھول کر کھا بھی چکا ہے یا ان کو پڑے پڑے دیمک لگ چکا ہو گا۔ مریم نواز ایک قابل فخر اور بہادر بیٹی ثابت ہوئی ہیں جنہوں نے ہر طرح کی اذیتیں اور مشکلات برداشت کرلی لیکن کبھی ان کا کسی کے سامنے ذکر تک نہیں کیا۔

پاکستان کے تمام بڑے سیاستدان اکثر جیلوں سے نکلنے کے بعد یا جیل میں ہی کتابیں لکھتے ہیں۔ اگر مریم نواز نے کبھی اڈیالہ جیل اور نیب کے عقوبت خانے میں پیش آنے والے واقعات پر کتاب لکھ دی تو امکان ہے وہ بہت سارے چہروں کو بے نقاب کردے گی۔ مریم نواز پاکستان کی خواتین ہی نہیں بلکہ تمام محروم اور پسے ہوئے طبقات کی آواز ہیں۔ جو خاتون جیل کی اذیتوں سے نہیں گھبرائی اور عمران خان جیسے ذہنی مریض کے ذاتی حملوں سے بھی گھبرانے والی نہیں۔

مریم نواز کی کردار کشی کی مہم 2014 سے چل رہی ہے لیکن اس بار عمران خان نے خود اس مہم میں حصہ لے کر ثابت کر دیا ہے وہ یہ کردار کشی کی مہم انہی کے کہنے پر چلائی جاتی رہی ہے۔ مریم نواز پہلے بھی اس مہم سے گھبرائی نہیں تھی اب بھی گھبرانے والی نہیں۔ ایسی مہم سے مریم نواز کمزور نہیں ہوئی بلکہ مزید مضبوط اور مقبول ہوئی ہیں۔ مریم نواز کے مخالفین کو اسی بات کا غم ہے کہ ہم ان کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مریم نواز الٹا مزید مقبول ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی ان کی کامیابیوں کے سفر کی شروعات ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی خواتین کو اس دن کا انتظار ہے جب وہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی طرح پاکستان کی عالمی سطح پر پہچان بنیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments