جنسی جملے بازی


یہ مریم نواز کا ہی مسئلہ نہیں۔ مگر تفصیل سے پہلے ذرا پس منظر دیکھ لیتے ہیں۔ ملتان کے جلسہ میں سابق وزیراعظم عمران احمد خان نے مریم نواز پہ نازیبا کامنٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے جلسے میں مریم نواز ان کا نام بہت جذبے اور جنوں سے لے رہی تھیں۔ انہوں نے مریم کو مخاطب کر کے کہا کہ مریم کو ان کا نام اتنے جذبے سے نہیں لینا چاہیے۔ اس سے ان کے شوہر، ان سے ناراض ہو سکتے ہیں۔

اب ذرا اس بیان کی تشریح کر لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مریم ایک عورت ہیں۔ وہ ایک مرد کا نام بہت جذبے اور جنوں سے لے رہی ہیں۔ جب ان کے شوہر یہ دیکھیں گے کہ ان کی بیوی کسی دوسرے مرد کا نام اتنے جنوں سے لے رہی ہے تو وہ حسد کی وجہ ناراض ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مریم ان کا نام بہت محبت پیار اور چاہت سے لے رہی ہیں۔ انہیں پیار اور عشق ہو چکا ہے۔ جو مریم نواز کے شوہر پسند نہیں کریں گے۔

جو تشریح میں نے کی ہے، سب لوگوں کو وہی سمجھ آیا ہے۔ (ہاں خان صاحب کے کچھ شدید پیروکار ایسے ہیں جنہیں کچھ اور سمجھ آیا ہے۔ دراصل وہ بھی اپنے لیڈر کی طرح کی سوچ رکھتے ہیں اور یا پھر اتنی اندھی عقیدت رکھتے ہیں کہ خان صاحب کچھ بھی کہیں وہ اس کی وکالت ہی کریں گے۔)

اک ستر سالہ سیاسی رہنما، مخالف سیاسی رہنما خاتون کو یہ جنسی طعنہ مارتا ہے۔ تو اس میں، اصل میں غلط ہے کیا؟

اس میں دو قسم کے غلط ہیں۔

اول تو یہ کہ جب آپ سیاسی طور پہ دلیل نہیں دے سکتے۔ تو نہایت غیر سنجیدہ انداز میں تیسرے درجے کے تھیٹر اداکار کی طرز پہ جنسی جملے بازی کرتے ہیں۔ یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔

دوم یہ کہ دنیا بھر میں مردوں کی جانب سے، جب وہ خواتین کا مقابلہ نہیں کر پاتے تو، جنسی اور ذو معنی جملے اچھالے جاتے ہیں۔ ان پہ ہنسا جاتا ہے۔ تھڑا لگایا جاتا ہے۔ اور خواتین کو زچ کر کے میدان سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس عمل کو دنیا بھر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ قابل نفرت عمل دنیا میں گھریلو سطح سے لے کر ہر قسم کی ورک پلیس اور بین الاقوامی سطح تک کیا جاتا ہے۔ عموماً کم عمر یا نا تجربہ کار سیاستدان بھی یہ کام کرتے ہیں۔

نوے کی دہائی میں نون لیگ کے رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسی قسم کی جنسی جملے بازی کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اس جملے بازی کے سرخیل شیخ رشید احمد تھے۔ اتفاق کی بات ہے آج شیخ رشید احمد تحریک انصاف کے اتحادی ہیں۔ اور اس بڑھاپے میں بھی اسی قسم کی جنسی جملے بازی بلاول بھٹو زرداری کے خلاف کرتے ہیں۔ کیا کسی انسان کا ضمیر اتنا ڈیڈ، یا ڈیجیٹل الفاظ میں ’ناٹ ریسپانڈنگ‘ ہو سکتا ہے کہ وہ مسلسل دو نسلوں کو نشانہ بنائے؟ مگر اس ملک میں یہ ہو رہا ہے۔ اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ اب نون لیگ کے سرکردہ رہنما تو عموماً یہ نہیں کرتے مگر تحریک انصاف کا یہ وتیرہ بن چکا ہے۔

دراصل تحریک انصاف کے سربراہ تنقید کی بجائے تحقیر پہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اچکزئی سے لے کر بلاول تک سب کی نقل اتار چکے ہیں۔ توہین آمیز انداز میں بلاول کو خاتون کہہ چکے ہیں۔ اور یہی سوچ بتاتی ہے کہ وہ خواتین کو بالکل بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔

اگر ہم تحریک انصاف کے سربراہ کی زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی خاتون کو عزت نہیں دی۔ وہ خاتون ان کی دوست رہی ہوں یا بیوی انہیں کبھی عزت نہیں ملی۔ اس عمر میں بھی انہیں یہ خطرہ ہے کہ ان کی وڈیوز چلوا کر ان کی کردار کشی کی جا سکتی ہے۔ جبکہ ان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے ان پہ الزامات بھی لگائے ہیں جن کے ردعمل میں انہوں نے کوئی مقدمہ نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی سابق رہنما عائشہ گلالئی بھی ان پہ جنسی ہراسانی کے الزامات لگا چکی ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود وہ ایک ہر دلعزیز رہنما ہیں۔

مریم نواز کے خلاف عمران خان صاحب کے حالیہ ذومعنی، جنسی اور نرگسی قسم کے جملے نے نسائی حلقوں کو ہلا کر دیا ہے۔ وہ لاکھوں لوگوں (بقول ان کے کروڑوں) لوگوں کے آئیڈیل ہیں۔ جب وہ سٹیج پہ کھڑے ہو کر مریم کی تنقید کے جواب میں اسے جنسی جملے بازی کے ذریعے ہرانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ عملی طور پہ یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ اس طرح کی جملے بازی بالکل جائز ہے۔ وہ لاکھوں نوجوان جو ان کی پیروی کرتے ہیں عملی طور پہ یقیناً اس کو درست سمجھیں گے۔

اور اس برائی کو اپنے کردار کا حصہ بنا لیں گے۔ اس طرح ایک جملے کے ذریعے انہوں نے، نسائی تحریکوں کی عشروں پہ محیط جدوجہد کو رگڑ کر رکھ دیا ہے۔ جب کوئی مرد کسی عورت کو جنسی جملے کا نشانہ بناتا ہے تو وہ عورت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ زندگی سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ اس کے گھر والوں کو پتہ چلے تو وہ اسے ہی چپ کر جانے کی تلقین کرتے ہیں اور زندگی محدود کرنے کا درس دیتے ہیں۔

نسائی تحریکوں نے دسیوں سال لگا کر لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ جنسی جملے بازی غیر انسانی ہے، جنسی تفریق پہ مبنی ہے اور آدھی آبادی کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے کرنے کی روش ہے۔ جب لاکھوں لوگوں کا آئیڈیل رہنما جنسی جملے بازی کرتا ہے تو وہ اگلی دو نسلوں کو اس گندی حرکت میں دھکیل دیتا ہے اور کروڑوں عورتیں اس بدی کا نشانہ بنتی ہیں۔

اس طرح کی جملے بازی جنسی تفریق اس طرح سے ہے کہ جب آپ مردوں سے جھگڑا اور تکرار کرتے ہیں تو آپ ان کے جسم اور جنسیت کو کبھی بھی نشانہ نہیں بناتے۔ دوسری جانب عورتوں سے تکرار کے دوران دوسری یا زیادہ سے زیادہ تیسری دلیل میں ان کی جنسیت اور جسم کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ بددل ہو کر زندگی سے ہار جاتی ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مردوں کو اگر کبھی جنسی طعنہ زنی کا نشانہ بنایا بھی جاتا ہے تو وہ بھی انہیں، ’عورت‘ یا ’کھسرا‘ کہہ کر بنایا جاتا ہے۔ جو کہ مزید جنسی تفریق اور نفرت سے بھرپور اظہاریے ہیں۔

خان صاحب کے ایک غیر سنجیدہ تھڑے باز جملے کے نتیجے میں اب مریم نواز کے پیروکار مرحومہ شوکت خانم کو بھی گالیاں دے رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو منع فرمایا تھا کہ مخالفین کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہ کہو مبادا وہ تمہارے سچے خدا کو برا کہیں۔ مگر یہاں، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، قرآن مجید کی آیت سے تقریر شروع کرنے والے، ریاست مدینہ کے داعی رہنما، جو اعلیٰ اخلاق پہ لیکچر دے رہے ہیں۔ اسی لیکچر کے دوران ایک خاتون پہ یہ جنسی جملہ پھینکتے ہیں کہ وہ ان کا نام اس جنوں سے لے رہی ہیں جیسے وہ ان پہ فریفتہ ہوں اور جس کے ردعمل میں ان کے شوہر ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ یہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ اور شدید تکلیف دہ ہے۔

بد قسمتی سے یہ پہلا موقع نہیں کہ خان صاحب نے اس طرح کا رویہ دکھایا ہے۔ ریکارڈ پہ ہے کہ انہوں نے ریپ کی وجہ خواتین کے لباس کو قرار دیا تھا۔ اور پردے کی افادیت پہ خطاب فرمایا تھا۔ ان کی اہلیہ بشری بی بی پردے کی پابندی بھی کرتی ہیں۔ مگر عین اسی وقت ان کے جلسے میں جو خواتین شرکت کرتی ہیں وہ بالکل بھی پردے کے شرعی تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتیں۔ اس کے باوجود خان صاحب انہیں تلقین کرتے ہیں کہ خواتین کی جدوجہد کے بغیر کوئی مشن کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ہمیں جلسے میں شرکت کرنے والی خواتین سے بالکل مسئلہ نہیں البتہ ہمیں خان صاحب اس بیان سے یقیناً مسئلہ ہے جس میں وہ بے پردگی کے خلاف بھاشن دیتے ہیں مگر خود جنسی جملے بازی کرتے ہیں۔ اس کے بعد خان صاحب عورت مارچ کی خواتین پہ بھی تنقید کر چکے ہیں جب کہ وہی خواتین ان کے جلسوں میں ’مشن‘ کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔

رات سے خان صاحب کے کارکن ان کے دفاع میں جس طرح کی دلیلیں دے رہے ہیں، وہ ان کے اخلاقی دیوالیہ پن، ناسمجھی اور طویل المدتی نقصان سے ناآشنا ہونے کی دلیل ہیں۔ ان کی کسی دلیل میں کوئی وزن نہیں۔ مگر جو شخص دلیل دے رہا ہوتا ہے وہ تو اسے حرف آخر ہی سمجھتا ہے۔ آپ چاہیں تو یہی فارمولا مجھ پہ بھی لاگو کر سکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام انصاف اتنا تگڑا ہو کہ اس طرح کی تھڑے بازی کے ذریعے خواتین کو نشانہ بنانے والے مردوں (اور عورتوں ) کو تیز ترین انصاف کے ذریعے سزائیں دی جا سکیں۔ خواتین کو بشمول مریم نواز، ان چھوٹے اور سستے اور بازاری قسم کے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments