شاہ عبداللطیف بھٹائی کا سر سامونڈی اور بنجاری کا درد


سر بنیادی طور پر موسیقی یا سنگیت کے سروں یا سرود سے منسلک ہے مگر سندھی زبان کی کلاسیکی شاعری میں سر موسیقی کے علاوہ شاعری کی موضوعاتی حوالے سے الگ ترتیب کو کہا جاتا ہے۔ سندھی زبان میں سر کسی ایک موضوع پر کی گئی شاعری کو بھی کہا جاتا ہے۔ سندھی کلاسیکی شاعری کے موضوع کے لحاظ سے الگ الگ سر ہوتے ہیں۔ یہ روایت محض سندھی زبان کی کلاسیکی شاعری میں ہی مروج ہے۔ کسی دوسری زبان میں شاعری میں سر مروج نہیں ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری بھی مختلف سروں میں تقسیم یا ترتیب دی گئی ہے۔ بھٹائی کی شاعری کے سر، موسیقیت یا آواز یا سنگیت کے سروں کے علاوہ موضوعاتی لحاظ سے بھی مرتب کیے گئے ہیں۔ ہر موضوعاتی سر میں شاہ لطیف کی شاعری میں اعلی تخیل اور مشاہدے میں سمندر جیسی گہرائی موجود ہے۔

شاہ لطیف بھٹائی کی شاعری 30 اہم سروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سر ’سامونڈی‘ بھی شامل ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کے ہر ایک سر میں خیالات کی اڑان کا سرچشمہ ان کا وسیع مطالعہ اور مشاہدہ ہے۔ بھٹائی نے قدرت، فطرت، سماجی حالات اور سماجی واقعات کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا۔ اس نے دریا کی دہشت اور سمندر کی گہرائی اور لہروں کی بدمستی کے ساتھ ساتھ صحرا، پہاڑ، سماج، سماجی اقدار، روایات، رسومات، موسموں، دندھوں، تہواروں اور دوسری اشیاء کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور اپنی شاعری میں شامل کیا۔

لطیف کے وسیع مشاہدے کی کوئی ناپ نہیں۔ اس نے ہر چیز کا اتنی باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے جو پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے اور جب بھٹائی نے مشاہدہ شعر میں شامل کیا تو فلسفہ بن کیا۔ جب سنار، لوہار، بڑھئی، چرواہے یا کسان وغیرہ کا ذکر کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے خود یہ ہی کام کرتا تھا۔ مروج دندھوں اور ان دندھوں میں استعمال ہونے والی اشیاء سے علامتی معنے لے کر اس عظیم شاعر نے سندھی سماج کی ترجمانی کی ہے اور عالمگیری سوچ فکر کا اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری آنے والے ہر دور میں سماج کی ترجمان رہے گی۔

بہرحال یہاں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کے سر سامونڈی (سمندری) میں شاہ لطیف کے بیان کردہ بنجارن یا بنجاری (ونجاری) کے درد کا ذکر کرنا ہے جس کا شوہر بنجارہ ہے اور تجارت کے غوراب لے کر دوسرے ممالک جاتا ہے۔ بنجارہ جب بنجاری کو گھر اکیلائی کی دلدل میں پھینک کر چھوڑ کر جاتا ہے تو اسے سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لوٹنے میں لگتا ہے۔ کبھی کبھار تو کسی بنجاری کا بنجارہ شوہر لوٹتا بھی نہیں۔ اگر لوٹتا ہے تو دوبار تھوڑے ہی عرصے میں دوبارہ تجارتی سفر کی تیاری کر تا ہے تو اس کی بنجارن بیوی درد کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔

اس موضوع کی نسبت سے سر کا نام سامونڈی رکھا گیا جس کا مطلب سمندری یا سمندر سے متعلق ہے۔ یہ سر موضوع کے لحاظ سے سمندر، سمندر کے ذریعے پرانے دور میں دوسرے ممالک سے سندھ کی تجارت، غورابوں، غورابوں سے منسلک چیزیں، ہیڑے، موتی جواہرات، بنجارے اور بنجاری کا ذکر ہے۔ اس سر میں 18 صدی عیسوی کی شروعات میں سمندر کے ذریعے سندھ کی دوسرے ممالک سے تجارت کا عکس اور نقش نمایاں نظر آتا ہے۔

شاہ عبداللطیف نے اپنی شاعری میں عوام کو ترجیح دی ہے۔ ان کرداروں کو اہمیت دی جو عوام میں سے تھے یا جو کردار عوام کے ہمدرد تھے۔ شاہ لطیف نے اس سر میں زیادہ تر بنجارن (ونجارن) کے کردار کے درد، شوہر سے جدائی کے احساسات اور مضطرب کیفیات کو موضوع بنایا ہے۔ اپنے شوہر بنجارے کی دوری یا جدائی کے درد میں مبتلا بنجاری کے درد کو اس طرح شدت سے بیان کیا ہے کہ شعر پڑھنے والا خود اس درد کے ساگر میں ڈوب جاتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اس سر میں خود بنجارن یا بنجاری بن جاتا ہے اور مخاطب ہوتا ہے جس کا اردو میں بیان اس طرح ہو سکتا ہے:

”بنجارے کی ماں، تم نے بنجارے کو کیوں نہیں روکا“
”اے پروردگار بنجاروں کے لوٹنے کے لئے آسانیاں پیدا کر“
”جن کے بنجارے شوہر پردیس سے لوٹے ہیں وہ خوش ہیں، جن کے نہیں لوٹے وہ سسک رہی ہیں۔“

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سر سامونڈی (سمندری) میں موسموں کا وسیع مشاہدہ بیان کیا ہے اور اس مشاہدے کی روشنی میں بنجاری کے درد کی شدت کو پیش کیا ہے۔ بنجارے بہار کے موسم میں تجارت کے بعد پردیس سے لوٹتے تھے اور شمالی سرد ہوائیں چلتی تھیں تو تجارت کے لئے پردیس جانے کی تیاری کرتے تھے۔ مطلب کہ بنجارے سردیوں کے پورے موسم میں نہیں لوٹتے تھے جن کے انظار میں بنجاریاں اپنے محبوب شوہروں کی یاد میں سردی کا پورا موسم اکیلے سسکتے گزارتی تھیں۔

یہ ایک بڑا درد ہے اور اس درد کی کیفیت کے بیان میں شاہ لطیف نے کمال کو چھوڑا ہے۔ بھٹائی نے اس انداز میں درد بیان کیا ہے جیسے وہ درد اس نے خود بھگتا ہو۔ اس دکھ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ہر دور میں ہر بنجاری کے علاوہ ہر اس دل والے کا ترجمان نظر آتا ہے جو محبوب کے بغیر ہر موسم میں اکیلے زندگی بسر کرتے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کچھ اس طرح فرماتا ہے :

”اے محبوب شوہر سردیوں کا موسم آنے والا ہے تم بھی آؤ ناں! میں نے تیرے آنے کے لئے منتیں اور دعائیں مانگی ہیں۔“

شاہ عبداللطیف بھٹائی اس سر میں موسموں، تجارت اور جہاز رانی کے علاوہ بنجاری کے بنجارے شوہر کے انتظار کے درد کو مختلف پہلوؤں کے پس منظر میں بیان کیا ہے۔ بنجاری کے غم گداز، دکھ، اکیلائی اور اضطرابی کیفیات کو شدید انداز میں شعر میں بیان کیا ہے۔ بنجاری اپنے بنجارے شوہر سے مخاطب ہے :

” کاش! اے میرے محبوب تم یہ تجارتی دندھا ہمیشہ بھول جاؤ۔“
”اگر مجھے پتہ ہوتا کہ میرا شوہر بنجارہ ہے تو میں تم سے شادی نہیں کرتی“

سر سامونڈی میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بنجارن کے سارے درد کو ایک شعر میں کمال سے بیان کیا ہے۔ جب سردیوں کے موسم میں بھی بنجارن کی جوانی انتظار کی گرمیوں میں برف کی طرح پگھلتی ہے تو پانی سے باہر مچھلی کی طرح تڑپتی ہے۔ اکیلائی کی آگ میں جوانی جلتے محسوس کرتی ہے۔ درد کی کنڈی میں لٹکتے محسوس کرتی ہے تو اپنی ماں سے مخاطب ہوتی ہے جس کی اردو اس طرح ہو سکتی ہے :

”میری جوانی کے ہی دن تھے بنجارہ سفر پر گیا، روتے روکنا چاہا نہیں رکا، کیا کروں ماں؟ مجھے گوشت کی طرح کنڈی میں لٹکا کر دور چلا گیا۔“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments