بنی گالا شریف میں سلسلہ عمرانیہ اور معصوم ذہن


”آل ان ون اینڈ ون ان آل سنڈروم“ یہ ایک بڑی عجیب و غریب قسم کی اصطلاح ہے یا یوں کہہ لیں کہ ایک خطرناک قسم کی ذہنی بیماری ہے جس کا شکار شخص بظاہر تندرست و توانا دکھائی دینے کے باوجود ذہنی طور پر مفلوج ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی فلسفے یا شخص کا اس حد تک اسیر ہو جاتا ہے کہ اس سے باہر اسے سب مایا لگنے لگتا ہے، یعنی وہ فنا فی الشیخ یا فنا فی الیڈر کے روحانی مرتبے پر فائز ہو کر اپنی آنکھ، کان اور ذہن کو مستقل بنیادوں پر ایک شخص میں ضم کر دیتا ہے، پھر جو مرشد کی رضا وہی ہماری رضا ہے وہ جو کہے لبیک ہے۔

اس قسم کی ذہنیت انسان کو کس حد تک لاچار و بے بس بناتی ہے، میں اس کیفیت کو ایک مثال سے واضح کرنا چاہوں گا۔ گریجویشن کا ایک سٹوڈنٹ کافی عرصہ تک میرے پاس پڑھنے کے لئے آتا رہا۔ ایک دن وہ کافی مغموم تھا، میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو وہ غمگین انداز میں کہنے لگا ”سر میں آج یتیم ہو گیا ہوں“ جیسے ہی میں نے اس کے والد کے وفات پا جانے پر افسوس کا اظہار کیا تو اس نے فوراً سے کہا کہ نہیں سر میرے والد کا نہیں بلکہ میرے مرشد کا انتقال ہوا ہے۔

یہ بتاتے ہوئے اس نے پنجابی کا ایک شعر پڑھا جسے پڑھ کر آپ کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ شخصی اسیری و سحر کیا رنگ دکھاتا ہے۔ کہنے لگا ”مرشد باجوں رب نہ ملدا لکھ کوئی تسبیح پھیرے / پیر جینا دے سر تے ہون کون اوناں نوں چھیڑے“ آسان لفظوں میں مفہوم یہ بنتا ہے کہ مرشد کے رحلت فرما جانے کے بعد رب تک پہنچنا ناممکن ہے چاہے جتنی مرضی تسبیح پڑھتے رہیں اور جن کے پیر حیات ہوتے ہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ روحانیت کے نام پر یا حوروں کے قصے سنا کر نوجوانوں کے ذہنوں کو ہیک کرنے والے درجنوں ہیکرز طارق جمیل، احمد رفیق اختر، سرفراز شاہ اور عمران خان کی صورت میں موجود ہیں، جن کا کام ہی طلبہ کی تنقیدی سوچ کو کچل کر اطاعت مرشد کی طرف راغب کرنا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز بھی ساڑھے تین سال تک روحانیت کے سہارے ہی چلتا رہا اور اب روحانی نذرانوں کی ہوشربا کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ اب تو باقاعدہ طور پر بنی گالا کو دربار عالیہ کا درجہ دے دیا گیا ہے، جہاں فرقہ عمرانیہ کے سربراہ مرشد عمران خان باقاعدہ معصوم ذہنوں سے مل رہے ہیں۔ معصوم بچوں کے ساتھ سیلفیاں اور شرٹ پر آٹو گراف دیے جا رہے ہیں اور خود ہی آٹوگراف والی شرٹ کی کروڑوں میں بولیاں لگوا کر سوشل میڈیا پر تشہیر کی جا رہی ہے۔

ملکی سطح پر ”سازش سازش“ کا کھیل کھیلنے کے بعد اب معصوم ذہنوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور ذہنی غلام بنانے کا عمل بڑوں کے بعد اب معصوم ذہنوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ مردان سے اپنے تین معصوم ننھے بچوں کو فرقہ عمرانیہ کے چند مخصوص نعرے رٹوا کر عمران خان کے حضور پیش کرنے والا یہ باپ لاکھوں معصوموں کو آخر کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ ایبٹ آ باد سے سفر کر کے نویں جماعت کا طالبعلم ابوبکر بنی گالا پہنچتا ہے اور انتہائی معصومیت سے شرٹ پر آٹو گراف لیتا ہے اور باہر آ کر صحافیوں کو بتاتا ہے کہ وہ شرٹ اور سر کے ان بالوں کو جن پر عمران خان نے دست شفقت رکھا ہے انہیں ایک فریم کی صورت میں محفوظ کرے گا۔

آ خر یہ معصوم اس جنونیت تک کیسے پہنچ گیا؟ آخر کوئی تو ہے جس نے ابوبکر کی معصومیت کو بڑی بے دردی سے کچلا ہے اور اسے شخصی ہسٹریا کا شکار بنایا ہے؟ ان معصوموں کی ذہنی کلی تو ابھی پوری طرح سے کھلی بھی نہیں ہے تو پھر ان کے ذہنوں اور آنکھوں کے گرد عقیدت کے بلنکرز چڑھانے والے کون ہیں؟ کیا ہمارے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو کچلنے والے ان مختلف کرداروں کا بھی کبھی احتساب ہو گا یا یہ یونہی معصوم ذہنوں کا شکار کرتے رہیں گے؟

کیا مسیحائی ذہنیت اور آل ان ون اینڈ ون ان آل سنڈروم کے شکار یہ کلٹ رہنما اتنی سمجھ بوجھ کے مالک ہیں کہ انہیں ادراک ہو کہ وہ ان معصوم ذہنوں کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں؟ جن کا ذہنی سفر ابھی انتہائی ابتدائی مرحلے میں ہے اور ابھی تو ان کی ننھی سوچ نے تجسس میں ڈھل کر اپنی آنے والی زندگی کے لائحہ عمل کا تعین کرنا ہے۔ مگر درمیان میں آ کر ان معصوم ذہنوں کو ریڈی میڈ مسیحا یا ادب مہیا کر کے انھیں دولے شاہ کے چوہے یا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والے اور معصوم ذہنوں کو ہیک یا اغوا کرنے والے یہ کون لوگ ہیں؟

بیچارے ابوبکر کا ”کرش ان لو“ اس بات پر ٹکا ہوا ہے کہ میرے لیڈر عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کا آغاز کلمہ طیبہ سے کیا تھا، بس اس کی اسی ادا پر فدا ہو کر مشرف با عمران ہو گیا۔ بیچارے ابوبکر کے معصوم ذہن کو ابھی اس بات کا بھی ادراک نہیں ہے کہ دنیا کے پلیٹ فارم خاص طور پر اقوام متحدہ میں ہر ایک کی بات بڑے مہذب انداز میں سنی جاتی ہے، کیونکہ وہ انسانوں کی اجتماعی دانش پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔

دنیا کے پلیٹ فارم ہماری مساجد کی طرح نہیں ہیں کہ جہاں صرف اسی فرقے کا سربراہ بات کر سکتا ہے جس فرقہ کی وہ مسجد ہوتی ہے۔ پوز اور کلک سٹنٹ سے تو کہیں بہتر یہ نظارہ ہوتا کہ عمران خان ان معصوموں کے دماغوں سے اپنا شخصی خمار ختم کرنے کی کوشش کرتا اور انہیں اپنا تعلیمی سفر مکمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتا کہ تمہاری یہ عمر کسی کو رہنما چننے کی نہیں ہے بلکہ اپنے تجسس کی آبیاری کرنے کی ہے تاکہ بالغ ہو کر آپ شعوری فیصلہ لے سکو۔

ان معصوم بچوں کے والدین اپنے بچوں کو شخصی حصار میں قید کرنے کی بجائے سوال کرنا سکھاتے تاکہ یہی بچے تصویر بنوانے کی بجائے مرشد عمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھتے کہ اے ہمارے رہنما آپ کے اپنے بچے کس ماحول میں پرورش پا رہے ہیں؟ کیا وہ بھی ہماری طرح ناظرہ تعلیم، ٹاٹ کلچر اور یکساں نظام تعلیم سے فیض یاب ہو رہے ہیں یا ہوئے ہیں؟ یا یہ جھنجھنے اور شعبدہ بازیاں فقط ہمارا ہی مقدر ہیں؟ کیا ریاست مدینہ کی مثالی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد کرنے کے لیے 48 درجہ حرارت کی شدید گرمی میں ہم جیسوں کو ہی استعمال کیا جاتا رہے گا یا آپ کی اولاد جو انگلینڈ میں ایک شاہی لائف اسٹائل انجوائے کر رہے ہیں وہ بھی اس سخت گرمی میں ہمارے ساتھ جدوجہد میں کندھے سے کندھا ملائیں گے؟

کاش غلاموں کی طرح عمران خان کے حضور پیش ہونے والا ابوبکر اپنے لیڈر سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتا کہ حضور آپ نے اپنے بچوں کو ریاست مدینہ سے محروم کر کے کفار کی دنیا میں کیوں بسایا ہوا ہے؟ دوسری جماعتوں کے لیڈران تو چور اچکے اور رجسٹر لچے ہیں مگر آپ تو رجسٹرڈ صادق و امین ٹھہرے اور آپ کی دیانت داری کی باقاعدہ کمپین چلائی گئی، تمام سہولیات کے میسر ہونے اور دودھ کے دھلے ہونے کے باوجود آپ کے اثاثے ڈبل کیسے ہو گئے؟ کون سا روحانی چلا کھینچا گیا؟ آخر سوال تو بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments