ہمارے روبوٹ بمقابلہ ترک پولیس


ایک بار سابق وزیر آزاد کشمیر چوہدری محمد سعید نے اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ سنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ عید کے تیسرے روز وہ اپنے گھر واقعہ بھٹو پارک جا رہے تھے کہ پی سی ہوٹل کی طرف جانے والے روڈ کو پولیس کانسٹیبل نے بیریر لگا کر بند کر رکھا تھا۔ ڈرائیور نے ہارن بجایا مگر کانسٹیبل نے بیریئر نہ ہٹایا۔ پھر چوہدری سعید نے کانسٹیبل کو آواز دے کر بتایا کہ راستہ کھولو مجھے اپنے گھر جانا ہے لیکن کانسٹیبل ٹس سے مس نہ ہوا اور راستہ کھولنے سے انکار کر دیا۔

ڈرائیور نے بحث کی تو کانسٹیبل نے گاڑی کی طرف گن تان لی اور حالات گمبھیر ہو گئے۔

چوہدری صاحب نے ایس ایس پی میرپور کو کال کی اور حالات سے آگاہ کیا جس پر ایس ایس پی سردار گل فراز  نے چوہدری صاحب کو وہیں رکنے کا کہا اور پھر کچھ دیر بعد فون کر کے کہا کہ چوہدری صاحب جہاں ہیں وہیں رکے رہیں۔ کانسٹیبل سے بحث سے گریز کریں اور گاڑی کو بھی حرکت نہ کروائیں، پولیس پہنچ رہی ہے

پھر پولیس کی گاڑیاں آئیں اور کانسٹیبل سے گن لی اور چوہدری سعید صاحب کو ان کے گھر پہنچایا اور کانسٹیبل کو ساتھ لے گئے۔

پتہ چلا کہ عید سے ایک روز قبل اس کانسٹیبل کی اس مقام پر ڈیوٹی لگی تھی پھر ڈیوٹی لگانے والے افسر کو یاد ہی نہیں رہا کہ ڈیوٹی تبدیل بھی کرنی ہوتی ہے اور وہ کانسٹیبل متواتر تین دن تین راتوں سے اسی جگہ پر ڈیوٹی دے رہا تھا اور شاید اسے کسی نے کھانا بھی دیا تھا کہ نہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر مکمل مفلوج ہو چکا تھا۔

آج صبح ترک پولیس کی یہ ویڈیو نظروں سے گزری تو مجھے اپنی پولیس یاد آ گئی۔ مظلوم، بے بس، غریب لاچار پولیس۔

ہماری پولیس کو نہ تو پولیس افسران انسان سمجھتے ہیں نہ حکمران اور نہ ہی عوام۔ اور تو اور انہیں ان کے گھر والے بھی انسان نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ روبوٹ ہیں جن کا کام حکم بجا لانا ہے

برطانیہ میں پولیس اہلکار 8 گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے اور اس کی تنخواہ پاکستانی روپوں میں شاید 8 لاکھ کے قریب ماہانہ بنتی ہے۔ ہمارا پولیس اہلکار 12 گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے اور تہواروں اور تقریبات کے دوران 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتا ہے مگر اس کی تنخواہ بمشکل تیس ہزار ہوتی ہے

اس تنخواہ میں اس نے اپنا گھر بھی چلانا ہوتا ہے بچوں کو بھی پڑھانا ہوتا ہے اور معاشرے میں خود کو منفرد بھی رکھنے کا ڈرامہ کرنا ہوتا ہے۔

پولیس کانسٹیبل تو درکنار پولیس انسپکٹر کی حالت اس سے کہیں زیادہ قابل رحم ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ایس ایچ او علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے تو چلیں بادشاہ سلامت کی زندگی کا یہ شاہانہ پہلو بھی آپ کے سامنے رکھتے ہیں

ایک ایس ایچ او 24 گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتا ہے۔ اس نے ٹھیک صبح 9 بجے کچہری پہنچنا ہوتا ہے کیونکہ جن جرائم کو اس نے پکڑا ہوتا ہے ان جرائم کی پیشیاں بھگتنا بھی اسی کا کام ہے۔ دو بجے تک ایک سے دوسری تاریخ بھگتو سانس لینے کے لئے کچہری میں واقعہ اعلی افسران کے کسی دفتر میں بہانے سے جا کر سلامی ٹھوکو اور اے سی کی ٹھنڈی ہوا لے کر سانس بحال کرو، کارگزاری بتاؤ اور پھر پیشی پر حاضر۔

2 بجے واپس تھانے پہنچو تو آگے صبح سے لوگ بیٹھے انتظار کر رہے ہوتے ہیں کسی کا خانگی جھگڑا کسی کا لین دین کسی کا چوری کا معاملہ بھگتاتے بھگتاتے شام پڑ جائے تو پتہ چلتا ہے فلاں جگہ جھگڑا ہو گیا ہے یا فلاں جگہ چوری ہو گئی ہے تو وہاں پہنچو۔ رات 2 بجے تک تفتیش مصالحتیں بھگتانے کے بعد ایک بادشاہ بیڈ پر جاتا ہے تو کوئی پتہ نہیں ہوتا رات چار بجے کوئی اور واقعہ ہو گیا تو وہاں بھی اسی نے پہنچنا ہے پھر صبح سات بجے اٹھ کر اگلے دن کی بادشاہی کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے

ایسے پولیس افسر بالخصوص ایس ایچ او کے بچے باپ کی موجودگی میں یتیموں کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ ایک بہت گہرے دوست ایس ایچ او نے ایک بار مجھے کہا کہ ایس ایس پی صاحب سے کہہ کر مجھے واپس اپنے ضلع بھجوا دو۔ میں نے پوچھا بھائی صدر تھانہ کے لئے لوگ اتنی سفارشیں کرواتے ہیں تو آپ جانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ میرے بچوں کو سکول سے لانے کی ذمہ داری جس کی تھی وہ نہیں جا سکا میرے بچوں نے کسی کے موبائل سے مجھے تین بجے کال کی اور کہا بابا ہم سڑک پر کھڑے ہیں ہمیں لینے کوئی نہیں آیا۔ دوست نے بتایا کہ وہ آدھا گھنٹہ میرے لئے نصف صدی کے برابر تھا، پولیس والے کسی دوست نے چار بجے بچے گھر پہنچائے۔

ہم بڑی آسانی سے پولیس والوں کو ہدف تنقید بنا دیتے ہیں، انہیں کرپٹ بددیانت اور نہ جانے کون کون سے طرے سنا دیتے ہیں لیکن ان کی زندگی کے یہ پہلو ہم نہ دیکھتے ہیں نہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ آئی جی سے کانسٹیبل تک سب سیاسی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں اور ان کے چمچوں کی فرمائشوں پر انہیں کمپرومائز کرنا پڑ جاتا ہے، اپنے سے اوپر والے افسران کو خوش رکھنا پڑتا ہے، نہ کریں تو کسی دور افتادہ علاقہ میں جانا پڑ جاتا ہے یا اضافی ڈیوٹی دے کر تختہ مشق بنا دیا جاتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں ایک سینئر ٹیچر کی تنخواہ ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ سکول میں محض تین چار پیریڈ یعنی بمشکل چار گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے مگر چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی رہنے والے ایس پی کی تنخواہ سینئر ٹیچر کی تنخواہ سے کم ہوتی ہے۔ ایس پی کا یہ حال ہے تو نیچے کانسٹیبل تک کے حال کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مہذب دنیا میں پولیس والوں کی نجی زندگی عام انسانوں کی طرح بہت خوبصورت ہوتی ہے لیکن ہمارے گھٹن زدہ معاشرے میں پولیس والوں کے خاندان اس پولیس والے کا غصہ چڑچڑا پن برداشت کرتے ہیں کیونکہ یہ کڑواہٹ چڑچڑا پن ان کا اپنا انتخاب نہیں معاشرے اور پولیس سسٹم کی طرف سے دیا گیا تحفہ ہے جسے انہوں نے زندگی بھر سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے

یہ ہمارے معاشرے کے روبوٹس ہیں

اور ہم چاہتے ہیں یہ روبوٹ ہی رہیں البتہ رویہ بہتر کر لیں حالانکہ ہم انسانوں کا اپنا رویہ ان روبوٹس سے کہیں ”بدمزہ“ ہو چکا ہے۔

ایسے ہی روبوٹس کی خدمت میں یہ ویڈیو پیش کر رہا ہوں۔ تاکہ یہ بھی جان سکیں کہ دنیا میں پولیس والے انسان ہوتے ہیں جن کے پاس احساسات بھی ہوتے ہیں اور زندگی کی رنگینی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).