دعا زہرہ کے والد کو سلام


آفرین ہے دعا زہرہ کے والد سید مہدی علی کاظمی پر جو عزت کے نام پر قتل کر دینے والے مردوں کے اس معاشرے میں مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی بیٹی کے حق کے لئے کھڑا رہا۔ وہ معاشرہ جہاں معمولی شک کی بنا پر، بغیر حقائق جانے عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے سید مہدی علی کا ڈٹے رہنا مزاحمت کی ایک بڑی مثال ہے۔ وہ تمام نفرت، کردار کشی اور غلط الزامات کے باوجود وہ اپنی بیٹی کے پیچھے رہا اور سچائی کو ثابت کر نے میں جٹا رہا۔

جب اس کی بیٹی نے اپنی مرضی سے گھر چھوڑنے اور شادی کرنے کی ویڈیو جاری کی تو بھی اس نے اپنی بیٹی کے اندر کی آواز پر بھروسا کیا۔ اسے یہ پختہ یقین تھا کہ اس کی بیٹی اغوا کنندگان کے دباؤ کے زیر اثر یہ سب کر رہی ہے۔ وہ بیٹی پر اتنا اعتماد کرتا ہے کہ اس نے بیٹی کی ان کہی کو سنا۔ جو بیٹی کے دل میں تھا اسے جانا۔ جبر کی چال کو سمجھا۔

دعا زہرہ 14 اپریل کو شاہ فیصل کالونی کراچی کے علاقہ الفلاح سے غائب ہوئی۔ والدین کے بیان کے مطابق وہ کوڑا پھینکنے کے لئے گلی میں گئی پھر واپس نہیں آئی۔ انھوں نے فوراً اس کی تلاش کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ سید مہدی علی کاظمی نے متعلقہ تھانے میں بچی کے اغوا کی ایف آئی آر درج کروائی۔ منسٹر فار ویمن ڈیویلپمنٹ سندھ، محترمہ شہلا رضا اور جے ڈی سی فاؤنڈیشن کے سربراہ سید ظفر عباس نے خصوصی مدد کی۔

24 اپریل کو پولیس نے ایک بیان دیا کہ بچی کی لاہور میں موجودگی کا سراغ مل گیا ہے۔ کراچی پولیس کے مطابق چودہ سالہ دعا زہرہ نے کراچی پولیس کو اپنا نکاح نامہ اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اسے تلاش نہ کیا جائے۔ اس نے اپنی مرضی سے 17 اپریل کو 21 سالہ ظہیر احمد سے نکاح کر لیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ نکاح نامہ پر بچی کی عمر 18 سال درج ہے جبکہ دعا زہرہ کے والد کے مطابق 18 سال پہلے ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ بعد ازاں جب کراچی پولیس نے لاہور پولیس کو نکاح نامہ ارسال کیا تو انھوں نے نکاح نامہ پر درج پتے پر ریڈ کیا۔ ظہیر احمد لاہور کی شیر شاہ کالونی کا رہائشی ہے۔ بدقسمتی سے پولیس دعا اور ظہیر کو بازیاب نہ کرا سکی کیونکہ وہ وہاں سے روپوش ہو چکے تھے۔

26 اپریل کو ماڈل ٹاؤن لاہور عدالت میں پیش ہو کر جج تصور اقبال کے سامنے دعا زہرہ نے بیان دیا کہ وہ پولیس کی تجویز پر دارالامان نہیں جانا چاہتی۔ وہ ظہیر کے ساتھ محفوظ ہے جبکہ کراچی میں اپنے والدین کے گھر میں اس کی جان کو خطرہ ہے۔ عدالت نے دعا زہرہ کو ظہیر کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ اس سے پہلے دعا زہرہ نے اپنے باپ اور کزن زین العابدین کے خلاف لاہور میں پرچہ بھی درج کروایا کہ انھوں نے اسے اس کے شوہر کے گھر سے اغواء کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس دوران سید مہدی علی کاظمی کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیس نے مزید توجہ حاصل کر لی۔ ویڈیو میں دعا کے والد نے عام لوگوں سے اپیل کی تھی کہ ان کی گمشدہ بیٹی ڈھونڈنے میں ان کی مدد کریں۔ اگر وہ کہیں نظر آئے یا اس کا کوئی سراغ ملے تو انھیں اطلاع کریں۔ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔ اس کی زبردستی شادی کی گئی ہے۔ انھوں نے پولیس اور عدالت سے درخواست کی کہ حقائق جاننے کے لئے ان کی بیٹی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ دعا کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ درخواست گزار نے یہ بھی استدعا کی کہ اس کے خاندان کو تخفظ فراہم کیا جائے۔

بالآخر، ایک اچھی خبر سننے کو ملی۔ 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ علی کاظمی کے حق میں دے دیا ہے۔ دعا زہرہ کے نکاح نامے کو جعلی اور بوگس قرار دیتے ہوئے کیس کو سندھ ہائی کورٹ منتقل کر نے کا آرڈر جاری کیا گیا ہے۔ نکاح خواں اور ایک گواہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ کیس کا رخ بچی کو اغواء کیے جانے، بچپن کی شادی اور زنا بالجبر کی طرف مڑ چکا ہے۔ دعا کے معاملے میں ملوث گینگ کے تانے بانے مل چکے ہیں۔ پولیس کے مطابق گینگ کے سب اراکین کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

ایسے لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو victim blaming کرتے رہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے جہاں دعا زہرہ کے حق میں آواز اٹھائی وہاں کردارکشی کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ انھوں نے اس بات پر میمز بنائیں کہ دعا کا کہیں افیئر تھا۔ وہ گھر سے بھاگی ہے۔ اس نے اپنی رضامندی سے شادی کی ہے۔ ایک چودہ سال کی بچی کی شادی کے لئے رضامندی کی قومی اور بین الاقوامی قانون میں حیثیت کیا ہے۔ کیا اغواء کی گئی بچی کی رضامندی آزاد مرضی سے ہوتی ہے۔ ویسے بھی معاہدہ برائے حقوق اطفال کے مطابق چودہ سال کی بچی کی رضامندی، باخبر رضامندی نہیں ہوتی۔ پاکستان اس معاہدے کا 1990 سے رکن ملک ہے اور تمام ملکی قوانین کو اس کے مطابق بنانے اور ان پر عمل درآمد کا پابند ہے۔

صوبہ سندھ جہاں سے دعا زہرہ کا تعلق ہے وہاں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے مطابق لڑکا اور لڑکی دونوں کی شادی کی کم ازکم عمر اٹھارہ سال ہے۔ یہ قانون بچپن کی شادی کو قابل سزا اور ناقابل مصالحت جرم قرار دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس کسی بھی اطلاع پر مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے طور پر کارروائی کر سکتی ہے اور قانون کو نظرانداز کر کے خاندانوں، برادریوں اور جرگوں میں کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔

دعا زہرہ کے کیس پر تفصیلی فیصلہ ایک تاریخی حیثیت اختیار کرے گا۔ دعا زہرہ کی محفوظ گھر واپسی تک ہمیں اس کے لئے آواز اٹھاتے رہنا ہے۔ اپنے بچوں کے تخفظ کے لئے والدین کو مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی بچیوں کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں مجرمانہ ترغیب سے تیار کردہ جعلی نکاح نامے رد کرنے ہوں گے تا کہ ہم انھیں پیڈوفیلیا سے بچا سکیں۔ نکاح خوانوں کی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے والے اداروں کو مستحکم کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام افراد کو اپنی معاشرتی ذمے داری کو محسوس کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments