پاکستان میں، جاپان کا ٹیکسی ڈرائیور!


ان دنوں ہماری سڑکوں پر کریم اور اوبر، معاشرتی زندگی کا حصہ نہیں بنی تھیں اور تمام تر انحصار میٹر سے عاری ٹیکسیوں پر تھا جنہیں عرف عام میں پیلی اور کالی پیلی ٹیکسی کا نام دیا جاتا تھا۔ ان سے مالی معاملات طے کرنے میں جہاں عام مقامات پر سر کھپانا پڑتا تھا، وہاں اگر بات بیرون شہر آنے جانے والی جگہوں مثلاً ریلوے اسٹیشن، بس اڈے یا ائرپورٹ پر ہو رہی ہو تو بالآخر مسافروں کو تمام تر بحث و مباحثے کے بعد ان کے آگے، سر جھکانا ہی پڑتا تھا کہ عوامی نفسیات کے یہ ماہر جانتے تھے کہ یہی وہ صورت حال ہے جہاں مسافروں کا قتل جائز ہے کیوں کہ بے سہارا، سفر کا مارا، اس حالت میں پیدل تو گھر پہنچنے سے رہا۔

اس دن مقام، ائرپورٹ تھا اور کراچی سے اسلام آباد کی مسافت کے بعد یہاں استقبال کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک ہمدرد، دیدہ و دل فرش راہ کیے کھڑا تھا اور سب کا دعوی یہی تھا کہ اس کے توسط اور اس کی رہنمائی سے ہی یہ سفر منزل تک، آسانی کا باعث ہو گا۔ یہاں لاٹری کے سوا اور چارہ نہیں کہ کسی ایک کا انتخاب بہرحال، کسی نہ کسی صورت، یہاں سے نکلنے کا واحد حل ہوتا ہے۔ مقدور بھر، پس و پیش کے بعد قسمت آزمائی کے لئے جو انتخاب ہوا، نہیں علوم اس کی پیش کش یا ادا، کیوں دل کو بھائی، مگر آخرکار، اس مفاہمت سے، ایک اور نسبتاً مختصر سفر کا آغاز ہوا۔

ائرپورٹ سے نکلتے ہی اس بات پر اطمینان ہوا کہ جہاز پر اپنایا گیا موقف ایسا غلط نہیں تھا۔ گھر والوں کا اصرار تھا کہ لیدر جیکٹ پہن کر سفر کیا جائے۔ اس اصرار پر اس لئے عمل کرنے سے مسلسل احتراز ہوا کہ موسم فی الحال لیدر جیکٹ کا نہیں تو کیوں اس بے چاری کو زحمت دی جائے اور خود کو آزمائش میں ڈالا جائے۔ در حقیقت، اس اصرار کے پیچھے، اصل نیت، موسمی بندوبست سے زیادہ، اس اندیشے اور خطرے کی طرف اشارہ تھا کہ کہیں اس بے عملی سے یہ لیدر جیکٹ جہاز میں ہی رہ نہ جائے۔

اتفاق ہے، شہر کا موسم بھی اس بات کی تائید کر رہا تھا کہ ابھی لیدر جیکٹ پہننے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ڈرائیور کے لباس سے بھی یہ بات عیاں تھی کہ موسم معتدل ہے اس لئے وجود پر اضافی وزن لادنا، سراسر اضافی اور معصومانہ فعل ہو گا۔

ڈرائیور اور باربر کو ہمارے ہاں کب کوئی گفتگو سے روک سکا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس عمل میں ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد مقابل خود، کبھی کبھار ڈرائیور کو اوور ٹیک کر کے اسے پیروی پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں بھی، بہ ظاہر دونوں فریق ایک ہی سپیڈ پر دکھائی دے رہے تھے۔ بات چیت، موسم سے ہوتی ہوئی سیاست اور سیاست کو بائی پاس کر کے شہر میں بننے والی سڑکوں کی ہونے لگی۔ یقیناً ایک ڈرائیور کا فطری طور پر یہی پسندیدہ موضوع ہو سکتا ہے۔ مختلف چھوٹی بڑی سڑکوں سے، گلی کے موڑ پر داخل ہوتے ہوئے یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا کہ اس گھر کی دو چیزیں وہ کبھی نہ بھول پائے گا، ایک گلی نمبر، جو بارہ ہے یعنی درجن اور دوسرا گھر کا نمبر، جو اتنا ہی ہے، جتنے سال کے دن ہوتے ہیں۔

بعض سخت دل ناقدین یہ نقطہ نظر رکھتے ہیں کہ کچھ ٹیکسی ڈرائیور اس لئے بھی مسافروں سے گھل مل کر باتیں کرتے ہیں تاکہ مسافروں کے اترتے وقت، یہ دوستانہ گپ شپ، انھیں حاتم طائی کی صورت، فراخدلی پر اکسائے۔ یہاں اس قسم کی کوئی صورت حال پیدا نہ ہوئی البتہ اس دوران سفر، گفتگو کا فائدہ یہ ہوا کہ راستہ کٹنے اور گھر پہنچنے کا احساس تک نہ ہوا۔ ٹیکسی کے پہنچتے ہی پڑوسی خیر و عافیت جاننے کے لئے گھر سے باہر آچکے تھے۔ ڈرائیور نے طے شدہ کرائے سے زیادہ حاصل کرنے کی یکسر کوئی خواہش ظاہر کی، نہ کسی طور اس کے لئے کوشش کی بلکہ نہایت ذمہ داری سے ایک سے زائد بار محض اس طرف توجہ دلائی ”دیکھ لیں، کچھ گاڑی میں رہ تو نہیں گیا۔“ طویل سفر سے واپسی اور پڑوسیوں کی موجودگی میں، بس یہی خواہش تھی کہ کسی طرح گھر میں داخل ہو کر سفر کی تکان اتاری جائے، سو اس وقت ڈرائیور سے اجازت لینے میں، تیزی دکھانا ہی مناسب تھا۔

چائے پینے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد بھتیجی کی طرف سے خواہش کی گئی کہ اسے گھر کے قریب ہی اس کی سہیلی کے گھر چھوڑ آیا جائے اور کچھ وقفے کے بعد واپس لے لیا جائے۔ اس گھر تک کا فاصلہ، پانچ منٹ سے بھی کم ہو گا۔ سو اس ڈراپ کرنے میں کیا وقت لگنا تھا۔ ادھر گئے اور ادھر آئے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد جب پک کرنے کے لئے وہاں سے فون آیا، رات کافی ڈھل چکی تھی اور فضا میں خنکی کا اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ وہ موزوں وقت تھا جب لیدر جیکٹ کا استعمال ضروری محسوس ہوا۔ سارا سفری سامان یکے بعد دیگرے، بار بار ٹٹولنے اور کھنگالنے کے بعد بھی وہ لیدر جیکٹ کہیں دکھائی نہ دی۔ یوں جہاز میں دی گئیں ہدایات، کی یاد دہانی گھر میں پھر سے کرائی گئی ”کہا تھا، پہن لیں، گم جائے گی، گم گئی نا“

گئی چیز کا سوگ کب تک؟ جو ہوا، سو ہوا۔ ہونی کو کس نے روکا ہے، جو، اب رک جاتی۔ کوئی شے دائمی نہیں، پھر آرڈر پر بنوائی ہوئی جیکٹ کا کہاں سے یہ مطلب ہو گیا کہ یہ تا حیات ساتھ رہنی تھی۔ جانے والی چیز تھی، چلی گئی!

پھر بھی گھر کے ماحول میں غصہ، ناراضگی، احتجاج، مایوسی، کسی چیز کے کھو جانے کی پریشانی، یہ سارے عوامل یکجا ہو کر لیدر جیکٹ کے نہ ملنے پر، گزرتی رات کو افسردہ بناتے رہے۔ رات کا ایک بجا ہو گا جب، گھنٹی بجی۔ اب مہمانوں نے بھی، اتنی رات کو اور وہ بھی اس عالم میں آنا تھا۔

باہر دیکھا تو، تعجب ہوا، اس غیر متوقع آمد پر ظاہر ہے، حیرت ہی ہونی تھی، سامنے، صبح والی ٹیکسی کھڑی تھی۔

اس سے پہلے کہ کوئی سوال کیا جاتا، مانوس صورت ڈرائیور نے خود گفتگو کا آغاز کیا ”آپ کی یہ چیزیں گاڑی میں رہ گئی تھیں۔ میں تو سارا دن ٹیکسی چلانے میں مصروف رہا، ابھی آخری سواری کے بعد فارغ ہوا اور گھر جانے لگا، پیچھے دیکھا تو یہ سامان پڑا تھا۔“

چہرے پر حیرانی ( اور غیر یقینی ) کے تاثرات دیکھ کر، شائستگی سے کہنے لگا ”مجھے اس گھر کا پتہ جس طرح بتایا گیا تھا، میں دن بھر جگہ جگہ پھرتا رہا، مگر اس گلی اور گھر کے نمبروں کو بھول نہ سکا“ ۔

اس انمول احساس ذمہ داری کی یقیناً کوئی قیمت طے نہیں کی جا سکتی تھی مگر اس کے لئے وہ بجا طور پر، تشکر کے ساتھ، حوصلہ افزائی کا حق دار تھا، مگر یہاں بھی اس نے خود کو مختلف ثابت کیا۔ انعام کے طور پر دی جانے والی رقم قبول کرنے میں اس نے جی بھر کر تامل کا مظاہرہ کیا اور دیانت داری اور ایمان داری کے دہرائے گئے تعریفی جملے سن کر، وہ نہایت سادگی اور معصومیت سے بولا ”اس میں، میری کوئی ایمان داری نہیں۔ یہ تو سواریوں کی ایمان داری ہے جو سارا دن میری ٹیکسی پر بیٹھتی رہیں، اترتی رہیں، اور کسی نے انھیں ہاتھ نہ لگایا“

رات کے اس پہر ٹیکسی کی آمد پر، اور ڈرائیور کی باتیں سن کر، مقابل گھر کی چھت پر چہل قدمی میں مصروف، راجہ صاحب جو عام میل جول میں بہت تکلفات کے عادی تھے، ان سے بھی رہا نہ گیا، انھوں نے وہیں سے پورے جذبات کے ساتھ، بے ساختہ صدا لگائی ”بھائی، یہ تو جاپان ہو گیا!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments