یہ پاٹے پرانے

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


سیاست کے میدان میں خواتین کی موجودگی نئی ہے نہ ہی ان کے لیے کی جانے والی، غلیظ، ذو معنی اور فحش استعارات سے بھری گفتگو نئی۔ ملتان کے جلسے میں ایک خاتون سیاستدان کے لیے جو کہا گیا وہ کوئی نئی بات نہیں۔

مجھے خان صاحب سے شکوہ ہوتا اگر مجھے ان سے کسی بھی قسم کی اچھی گفتگو کی امید ہوتی۔ خیر سے وہ اس سے بھی رکیک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ذرا وقت گزرنے دیجیے، مزید زبان کھلنے دیجیے۔

پاکستانی خواتین سیاست میں اس وقت سے موجود ہیں جب سے اس خطے میں سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ خواتین نہایت باوقار انداز میں، نو آبادیاتی آقاوں سے بھی ٹکرائیں، ہماری مشہور زمانہ اسٹیبلشمنٹ اور مخالفین کے سامنے بھی ڈٹ کے کھڑی ہوئیں، لاٹھیاں کھائیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، یہاں تک کے اپنی جان سے بھی گئیں۔

یہ حسین، ذہین، باصلاحیت خواتین بلا تخصیص سیاسی اور نظریاتی وابستگی کے ہمارے لیے بے حد قابل عزت ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہ خواتین ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ یہ ایک ایسے معاشرے میں سیاسی جدوجہد کے لیے باہر نکلی ہیں جہاں مردانہ سماج کا زہریلا روپ اپنے پورے جوبن پر نظر آتا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں اور نہ ہی عمران خان پہلے مرد ہیں جنھوں نے اس طرح کھلے عام خود کو پیش کیا۔ پاکستان کے بیشتر ’پاٹے پرانے‘ بابے اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ کسی بھی عورت کے گھر میں جھگڑے کا باعث بن سکتے ہیں۔ قربان جائیے اس جھوٹے اعتماد اور خوش فہمی کے۔

یہ بات کہنے والا تو خیر سے ایک مخصوص ماضی رکھتا ہے اور اسے اس قسم کے بہت سے تجربے ہیں کہ کچھ لوگ اس کا نام تک سن کے سوچتے ہیں کہ یہ سیہہ کا کانٹا کہیں ان کے گھر میں بھی پھوٹ نہ ڈلوا دے۔

ہنسی تب آتی ہے جب زمانے بھر کے دھتکارے، دیمک زدہ مرد بھی اسی خوش فہمی کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایسے جملوں پر سر دھنتے ہیں اور جن کے پاس سوائے بیویوں پر بنائے لطیفوں کے، ہنسنے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔

حیرت صرف اس بات پر ہو رہی ہے کہ یہ جملہ کسنے والا عوام میں سے نہیں ایک لیڈر ہے جو اسی منہ سے ریاست مدینہ کی بات بھی کرتا تھا اور یہ ہی ذہن لے کر وہ پونے چار برس ہمارا وزیراعظم بھی رہا۔ گو اس دوران کئی مواقع پر وہ اپنی سوچ کا کھلم کھلا اظہار بھی کر چکے ہیں لیکن جانے کیوں ان کے ’فین کلب‘ کو دیکھ کر اب بھی امید رہتی ہے کہ شاید یہ سدھر جائیں۔

کہاوت ہے کہ چھٹی کے بگڑے بھی کبھی سدھرے ہیں۔ پاکستانی مرد بھی ایسے ہی ہیں۔ ماؤں کے یہ لاڈلے جب بھی کسی عورت کے مقابل آتے ہیں تو بجائے دلائل سے بات کرنے کے اس کے عورت ہونے پر طنز کرنے لگتے ہیں۔ بطور خاتون یہ رویہ ہم سب زندگی بھر جھیلتے آئے ہیں۔

لطف تو تب ہے کہ ہم سب ان باتوں کو سن کے صبر کرنے سے انکار کر دیں۔ ایک عورت کے بارے میں گندی زبان استعمال کرنے والے کو ساری عورتیں رد کر دیں تو اگلی بار یہ ہی زبان جو آڑھی گوٹ پر میرٹھ کی قینچی کی طرح چلتی چلی جاتی ہے، سو بار سوچ کے چلے گی۔

یہ گندا رویہ ہمارے ہاں کا مرد اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور مرتے ہوئے بھی اسی زعم میں مرتا ہے۔ مجھے یاد ہے دوسری جماعت میں میرا ایک نالائق کلاس فیلو کسی کھیل میں مجھ سے ہار گیا، لڑائی بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور جب وہ اس میں بھی ہارنے لگا تو اس نے کے کہا کہ ’تم فیشن کرتی ہو، کلپ لگاتی ہو۔‘

یہاں آ کر میرے ہاتھ پاؤں ساکت ہو گئے، سکول کی یونیفارم کا سادہ سرخ ہئیر پن میری ذات پر الزام بن کر رہ گیا۔ میں جیتی ہوئی جنگ ہار کے بے وجہ شرمندہ ہو گئی اور وہ ہارا ہوا بھی اینڈتا پھرا۔

عورت کو رنڈی، گشتی، طوائف، کتیا اور جانے کیا کیا کہنے والے یہ بھی جانتے ہوں گے جسے یہ سچ مچ قحبہ کے ٹھیے پر بٹھا دیتے ہیں وہ بھی یہ پیسہ اپنے کنبے کو پالنے کے لیے کماتی ہے، آپ کے نام نہاد ہیروز کی طرح اپنے بچوں کی دوا کے پیسے بھی عیاشی میں نہیں اڑاتی۔

معاشرتی رویے گل سڑ رہے ہیں اور سڑاند کے بھپکے ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں۔ اس مرض کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس گند کو قالین کے نیچے چھپانے کی بجائے باہر نکالیے۔

سوچیے جب آپ کا لیڈر یہ زبان استعمال کرتا ہے تو وہ آپ سب کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ کیا آپ سب بھی یہ سوچ رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو اس سوچ کو رد کر دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments