ہم قومی مفادات کے سب سے بڑے دشمن ہیں!


جیری اسٹون سے میری واقفیت بالکل واجبی سی ہے۔ آسٹن میں رہنے والا جیری ایک اسپتال میں معمولی سی نوکری کرتا ہے۔ درمیانے سے وسائل کے ساتھ ایک خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ ملاقات مکمل طور پر اتفاقیہ تھی۔

ایک دن طے ہوا کہ ہفتے یعنی چھٹی والے دن‘ دونوں شام کو کسی کافی شاپ میں جا کر کافی پئیں گے۔ بتاتا چلوں کہ جیری کو کرنٹ افیئرز جاننے اور پڑھنے کا جنون ہے۔ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے متعلق اس کی معلومات حد درجہ متاثر کن ہیں۔ ایشیاء میں اس نے کبھی قدم نہیں رکھا ۔ مگر اس سے پاکستان ‘ ہندوستان ‘ افغانستان کے سیاسی معاملات پر دلیل سے بات کر سکتے ہیں۔ وسیع المطالعہ شخص ۔ جیری کا سیاسی امور سے گہرا تعلق ہے۔ مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے اپارٹمنٹ بلڈنگ سے باہر آیا تو جیری پہلے سے وہاں موجود تھا۔

حیرانی ہوئی کہ مقررہ وقت سے دو چار منٹ پہلے جیری وہاں انتظار کیوں کر رہا ہے۔ ہم دونوں نزدیک ایک کافی شاپ میں بیٹھ گئے ۔ گفتگو کی ابتداء میں جیری سے پوچھا کہ ہم نے تو پانچ بجے ملنا تھا۔ آپ وقت سے پہلے کیونکر آ گئے۔ اس نے غور سے کچھ سوچا اور جواب دیا‘ کہ صرف اس لیے میں اپنے ملک یعنی امریکا سے محبت کرتا ہوں۔ یہ جملہ میرے لیے حیران کن تھا۔

بھلا وقت سے پہلے آنے کا اپنے ملک سے محبت کرنے سے کیا تعلق ہے؟ جیری نے ایک جملہ مزید کہا کہ وہ تقریباً چالیس منٹ گاڑی چلا کر آیا ہے اور پانچ بجنے میں پندرہ منٹ پہلے اپارٹمنٹ بلڈنگ کے باہر پہنچ گیا تھا۔ کافی تعجب ہوا کہ پندرہ منٹ وقت سے پہنچنے میں ملک سے محبت کہاں سے آ گئی‘جیری نے حد درجہ سنجیدگی سے میری طرف دیکھا۔ کہنے لگا‘ تم پاکستان سے آئے ہو۔ تمہارا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ مگر جو کچھ آپ یہاں دیکھو یا سنو گے۔

اسی سے ہمارے ملک کے متعلق تاثر بنے گا۔مثبت یا منفی۔ چند منٹ‘ مقررہ وقت سے پہلے آنے کی وجہ صرف ایک ہے۔ کہ جب تم واپس جاؤ تو یہ ضرور سوچو کہ امریکی لوگوں میں وقت کی قدر اور پابندی بہت زیادہ ہے۔ اگر ایک بار ذہن میں یہ نکتہ بیٹھ گیا‘ تو آپ کو نہ صرف میری قدر ہوگی بلکہ میرے ملک یعنی امریکا کی بھی قدر ہو جائے گی۔ اس کے برعکس ‘ اگر میں دس منٹ تاخیر سے آتا اور تم بلڈنگ کے باہر انتظار کر رہے ہوتے۔ تمہارا ردعمل میرے متعلق بھی حد درجہ منفی ہوتا۔ اور اپنے ذہن میں امریکا کی ایک منفی تصویر لے کر واپس جاتے کہ امریکا کے لوگ حد درجہ غیر ذمے دار ہیں۔ جواب سن کر میں حیران ہو گیا۔

کیونکہ شخصی رویے کو قوم کے ساتھ منسلک کم از کم ہمارے ملک میں ہر گز ہرگز نہیں کیا جاتا۔ بار بار ایک سوال کر رہا تھا۔ کہ تم لوگوں نے بے نظیر بھٹو کو کیوں قتل کیا۔ اس کے بقول وہ پاکستان کا وہ لبرل چہرہ تھا جس کی بدولت پوری دنیا میں تمہاری عزت کی جاتی تھی۔ میرے پاس اتنے سنجیدہ سوال کا کوئی خاص جواب نہیں تھا۔ جب جیری مجھے واپس چھوڑ کر چلا گیا۔ تو کافی دیر تک پابندی وقت اور ملک کی عزت اور حرمت کے باہمی تعلق پر سوچتا رہا۔

بظاہر اس واقعہ کا ہمارے قومی معاملات سے کوئی تعلق نہیں آتا۔ مگر غور کریں تو شہری اور اپنے ملک سے محبت کا ربط ضرور سامنے آتا ہے۔ مجھے ان گنت واٹس اپ میسج ‘ فون اور لوگ ملتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ننانوے فیصد لوگ اپنے ملک یعنی پاکستان میں کرید کرید کر منفی معاملات سامنے لاتے ہیں۔حد درجہ صاحب رائے لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ اکثریت خوشحال لوگوں کی ہے۔ جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو وہ پاکستان کے متعلق کوئی مثبت بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ہر طبقے میں تقریباً یہی حال ہے۔

ہر ایک ہر وقت پاکستان کی برائی کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ قطعاً عرض نہیں کر رہا کہ ہمارے ملک میں خرابیاں نہیں ہیں۔ بالکل ہیں ۔ مگر کیا خرابیوں کے ساتھ ساتھ اچھائیوں کا وجود نہیں ہے۔ بھرپور طریقے سے ہے۔ مگر اکثریت ان اچھائیوں پر بات کرنا تو درکنار‘ غور کرنا بھی پسند نہیں کرتی۔ تمام وقت ہر سطح اور ہر حرکت پر کیڑے نکالنا اب ہمارا فرض بن چکا ہے۔ تمام عناصر جو ہمارے قومی مفادات کے اردگرد گردش کرتے ہیں‘ ہم ان پر کسی قسم کی حقیقت پسندانہ گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

ملک کے قومی مفادات کی اپنے حساب سے ایک لسٹ بنائیے ۔ اس کے بعد خود فیصلہ کیجیے کہ کیا ہم اپنے قومی مفادات کو واقعی خاطر میں لاتے ہیں یا نہیں۔ اپنے دل کی آواز سے فیصلہ کیجیے ۔ سارا دن ‘ میڈیا بلکہ ہر طرف‘ کرپشن کرپشن کا واویلا سنتے ہیں۔ واقعی یہ ایک کینسر ہے اور ہماری ملکی ترقی میں حائل بھی ہے۔ مگر کیا آج تک کوئی بھی یہ سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا ہے کہ کرپشن تو ہندوستان میں بھی قیامت خیز ہے۔ وہاں ترقی کی شرح نو سے دس فیصد کیونکر ہے؟ اگر اہلیت کو ترجیح دی جائے ‘ تو حد درجہ کرپشن میں بھی ترقی ممکن ہے۔ ہندوستان اس کی آپ کے سامنے ایک زندہ مثال ہے ۔

ہم کرپشن کی لفظی مذمت تو ہر وقت کرتے ہیں مگر کبھی شخصی اہلیت کو پسند نہیں کرتے۔ ہمارے قائدین اور اداروں کے سربراہان کی اہلیت پر سنجیدگی سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ دراصل ہم تو صلاحیت والے شخص کو اپنے لیے ایک دھمکی گردانتے ہیں۔ یہ معاملہ سماج اور سسٹم پر ہر جگہ یکساں طور پر موجود ہے۔

قومی مفادات میں کیا یہ سرفہرست امر نہیں ہے کہ ہماری پاگلوں کی طرح بڑھتی ہوئی آبادی‘ ہمارے تمام وسائل کو ختم کر دیتی ہے۔ اتنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا کیا ہمارا اولین قومی مفاد نہیں ہے۔بالکل ہے۔ اب اپنے قومی سطح کے تمام قائدین کی فہرست بنائیے ۔ ان کی تقاریر سنیئے۔ آپ کو آبادی کی شرح نمو پر کوئی نکتہ نہیں ملے گا۔ کسی بھی وزیراعظم یا صدر نے آج تک یہ نہیں فرمایا کہ اتنی کثیر آبادی کے ساتھ ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ وجہ کیا ہے۔

ان کے خیال میں اگر وہ اس نکتے کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے تو دائیں بازو کے لوگ خلاف ہو جائیں گے۔ ووٹ بینک پر اثر پڑے گا۔ لہٰذا انھیں کیا ضرورت ہے کہ اوکھلی میں سر ڈال دیں۔ جیسے معاملات چل رہے ہیں‘ ویسے ہی چلنے میں وقتی عافیت ہے۔ کیا ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی قائدین کو بروقت عوام کو آبادی پر کنٹرول کرنے کی فکر کو اجاگر کرنا چاہیے یا نہیں۔ یہ ہماری ترقی کا جوہری نکتہ ہے۔ مگر دائیں بازو کی طاقت سے خوف زدہ ہو کر وہ یہ بات سوچنے کی ہمت تک نہیں کرتے۔ کیا اس پر حقیقت پسندانہ پالیسی ترتیب دینا ہمارے قومی مفادات میںنہیں ہے؟ ہمیں ہر وقت بتایا جاتا ہے کہ ہم امن پسند قوم ہیں۔ مگر ہمارا رویہ اس کے بالکل الٹ ہے۔

ہمارا قومی مفاد ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات بہتر ہوں۔ دونوں ممالک میں بھرپور تجارت ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت آپس میں جنگ کی باتوں سے مفر حاصل کیا جائے۔ اعتماد سازی کے لیے اقدامات اس طرح کیئے جائیں کہ کوئی بھی آنے والی حکومت بعد میں ختم نہ کر سکے۔مگر اس اہم ترین نکتہ پر بات کرنے سے آپ کو غداری کا سرٹیفکیٹ مل سکتا ہے۔ معاملہ اب یہاں تک بگڑ چکا ہے کہ اگر آپ ہندوستان سے خلوص نیت سے مذاکرات اور اقدامات کی آواز اٹھائیں تو پاکستان میں آپ پر زندگی تنگ کی جا سکتی ہے۔

ہندوستان کے ساتھ معاملات بہتر کرنا کیا ہمارا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح کیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کی اس قدر سپورٹ کرنا ‘ کہ ہمارا پورا ملک ہی داؤ پر لگ جائے‘ کیا ہمارے قومی مفاد میں ہے؟ یہاں تو طالبان کو فرشتہ ثابت کرنے کے لیے دانشوروں کے جتھے بنے ہوئے ہیں۔

جب بذات خود‘ہمیں اپنے قومی مفادات کی نگہبانی کرنی نہیں آتی‘ تو پھر یہ مفروضہ قائم کرنا حد درجہ آسان ہو جاتا ہے کہ ہماری بدحالی دراصل یہود ہنود کی سازش ہے۔مگر یہ بدقسمت بیانیہ صرف اور صرف ہمارے ملک میں کامیابی سے کیسے جڑ پکڑ گیا؟ترکی ‘ متحدہ امارات‘ مراکش اور ملائشیا جیسے ممالک مسلمان ہونے کے باوجود کیونکر ترقی کر گئے۔ نہیں صاحب‘ کسی کو ہمارے ملک کے خلاف سازش کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس تباہی کے لیے خود کفیل ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments