اسٹیبلشمنٹ کو در پیش مشکل صورت حال!


چند ہی ہفتوں میں سب کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ کل تک جو اسٹیبلشمنٹ کے سر ایک ’سیلیکٹڈ‘ حکومت ملک پر مسلط کیے جانے کا الزام دھرتے تھے، حال ہی میں اس کے نیوٹرل ہو جانے کو عین آئین اور قانون کے مطابق قرار دے کر دوسروں کو بھی کچھ ایسا ہی مشورہ دے رہے تھے۔ تاہم صورت حال کچھ یوں بدلی ہے کہ اب صاف صاف الفاظ میں افواج پاکستان کو مدد کے لئے پکارا جا رہا ہے۔ جس کی چڑیا اس کی بے جا (overrated) شہرت کا سبب بنی تھی، اب کچھ دنوں سے تواتر کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ حکومت کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

صرف اسی ایک شخص کی مایوسی قابل دید نہیں، خود مریم نواز نے سرگودھا جلسے میں اپنی تقریر کے اختتام پر عوام، میڈیا اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ واضح الفاظ میں ’افواج پاکستان‘ کو ’عمرانی فتنہ‘ روکنے کے لئے پکارا ہے۔ شہباز شریف تو ایک عرصے سے تسلسل کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ’لاڈلے‘ کو ملنے والی ’سپورٹ‘ کا گلہ کرتے ہوئے اپنے لئے اسی طرز کی مدد امداد کے حصول کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اب تو خواہش اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مشکل معاشی فیصلوں کے لئے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے فورم کو استعمال کیے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کراچی جلسے میں مولانا کے تیور بھی بدلے نظر آئے۔

بد قسمتی سے قومی ادارے اس وقت ایسی صورت حال سے دوچار نظر آرہے ہیں کہ جہاں محاورے کی ’چھپکلی‘ کو نہ تو نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اگلا جا سکتا ہے۔ کئی روز سے شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ نہیں ملتی تو ہمیں حکومت چھوڑ دینی چاہیے۔ کیا وہ یہ بات اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں؟ نواز شریف ملک کو در پیش مسائل کا ذمہ دار اکتوبر 2020 ء سے ہی مخصوص شخصیات کو ٹھہرا رہے ہیں۔ اب خواہش کے مطابق ’سپورٹ‘ نہ ملنے پر حکومت اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

ملتان میں عمران خان کے غیر معمولی طور پر بڑے جلسے میں جہاں ایک طرف عمران خان نے بتایا کہ وہ حکومت کو وقت دینا چاہتے تھے تاکہ اس کو ’لانے والے‘ شرمسار ہوں، تو عین اس کے بعد ایک ٹی وی پروگرام میں رانا ثناء اللہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حکومت کو چاروں طرف سے گھیرے جانے اور ’لاڈلے‘ کی مبینہ پشت پناہی کا شکوہ کر رہے تھے۔ اندریں حالات یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئین اور قانون کی سربلندی سبز کتاب نہیں بلکہ ہماری خواہشات اور مفادات سے مشروط ہے۔ اپنے ادارے سے متعلق سابقہ فوجی افسروں کی بھاری اکثریت جو گزشتہ ہفتوں کچھ مایوسی تو کچھ غم و غصہ کی ملتی جلتی کیفیت سے دوچار تھی، اندازہ ہے کہ اب ان کے دلوں میں ان بے چین سروں سے متعلق ضرور کچھ ہمدردی کے جذبات نمو پا رہے ہوں گے کہ انگریزی محاورے کے مطابق جو تاج پہنے ہوتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کو ایک منظم اور طے شدہ حکمت عملی کے تحت اقتدار سے محروم کیا گیا۔ اب تو سب ہی مانتے ہیں کہ جہاں حکمت عملی کامیاب رہی، نتائج کا اندازہ لگانے میں سبھی ناکام رہے۔ چنانچہ وہ سب چھوٹے بڑے جو عمران حکومت گرنے کے بعد اطمینان سے ’یونیٹی گورنمنٹ‘ کے مزے لوٹنے کے خواب دیکھ رہے تھے، اب اسی یونیٹی گورنمنٹ کے وزیر اعظم کے ’سخت معاشی‘ فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ سخت فیصلے لینے کو تیار نہیں اور انتخابات میں اترنے سے گھبرا رہے ہیں۔ گومگو کی سی اسی حالت میں اب اسٹیبلشمنٹ پر ایک بار پھر جھپٹنے کے لئے اپنے دانت تیز کر رہے ہیں۔

عام تاثر یہی ہے کہ عین عصر کے وقت، ایک غیر مقبول حکومت کو گرانے کے پیچھے بڑے سیاسی خاندانوں کے پیش نظر کچھ مقاصد تھے۔ کلیدی افراد کے خلاف کرپشن کیسز کو ٹھکانے لگانا ایک بنیادی ہدف تھا۔ چنانچہ حکومت سنبھالتے ہی راتوں رات ملکی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سنگین مقدمات میں ملوث افراد کے نام ای سی ایل میں سے نکالے گئے اور حکومتی زعماء کے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے والے پراسیکیوشن افسران کو ان کی ذمہ داروں سے ہٹا دیا گیا۔ اس پر عوامی ردعمل آیا اور اسی ردعمل نے بظاہر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے پر مجبور کر دیا۔ حکومتی زعماء کے خلاف مقدمات کو بے اثر کیے جانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے علاوہ لوٹا کریسی کے خلاف آنے والے دو عدالتی فیصلوں نے حکومت کو مزید مشکلات میں ڈال دیا گیا ہے۔

عمران حکومت گرنے کے بعد دوسرا ہدف عمران خان کو سبق سکھانا تھا۔ کچھ ثابت ہو یا نہ ہو، کچھ دن کے لئے ان کو جیل میں ڈالنا ضروری تھا۔ اس خواہش کا اظہار سر عام کسی اور نے نہیں، خود مریم نواز نے بار بار کیا۔ اگر تو سازش کے نتائج عین توقعات کے مطابق نکلتے تو عمران خان اور ان کے حامی آج ضرور جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہوتے۔ تاہم متوقع عوامی رد عمل کے خوف نے حکومتی اتحاد کو اب تک ایسی کسی بھی کوشش سے باز رکھا ہوا ہے۔

ایک اندازہ ہے کہ امریکی ایما ء پر کیے جانے والے ’رجیم چینج آپریشن‘ کا تیسرا ہدف کلیدی تقرریوں پر کنٹرول اور انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی کو محدود کرنے سے متعلق قانون سازی کے ذریعے ’سویلین بالادستی‘ کے اس خواب کی تعبیر تھا جو حسین حقانی جیسے ننگ وطن مہروں کے ذریعے مشرف کی رخصتی سے لے کر آج تک دیکھا جا رہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے تمام تر گلے شکوؤں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر معاندانہ پوزیشن نہ لینے کی بناء پر یہ خواب بھی فی الحال تو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

دوسری طرف سندھ کی حکمران جماعت اب بھی پر امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر اسٹیبلشمنٹ ان کا ساتھ دے تو امریکی امداد کے بل بوتے پر ایک ڈیڑھ سال کے اندر عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ خیال یہی ہے کہ امریکی کہ جنہوں نے افغانستان میں اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے اربوں ڈالرز لٹائے، ہمارے ہاں بھی من پسند حکومتوں کو برقرار رکھنے کی خاطر کچھ فنڈز مختص کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ سوال مگر پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ سات عشروں میں جہاں امریکی فنڈنگ نے کئی فوجی اور غیر فوجی حکمرانوں کو عوام پر مسلط رکھے جانے میں ضرور کلیدی کردار ادا کیا، کیا محض بیرونی امداد کے بل بوتے پر معاشی استحکام حاصل کیے جانے کی کوئی مثال قوموں کی تاریخ میں ڈھونڈے سے ملتی ہے؟

اندریں حالات دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ ’یونیٹی حکومت‘ کی کوشش ہو گی کہ آنے والے چند ہفتوں کے اندر قومی اسمبلی سے جلد از جلد نیب قوانین میں ترمیم کے علاوہ انتخابی اصلاحات کے بل منظور کروا لئے جائیں۔ جلد انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں، تاہم نومبر کے مہینے کو بھی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ مجوزہ انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں، اندرونی اور بیرونی محاذوں پر سازشوں میں گھری اسٹیبلشمنٹ کے لئے اطمینان کا سانس بھرنے کے دن ابھی دور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments