دکن کی مسلمان ریاستیں


دکن کی مسلمان ریاستیں : جن کا طرز حکومت مغلوں سے کہیں بہتر تھا۔ جس کی سب ہی قدر کرتے ہیں۔
1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

بھارت کے جنوب میں ایک بہت بڑا علاقہ ہے جسے دکن کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اصل لفظ دکھن، جس کا مطلب جنوب ہوتا ہے اور اتر کا مطلب شمال ہے، جیسے اتر پردیش۔ اسی طرح سے پورب مشرق کے لیے بولا جاتا ہے جبکہ مغرب کے لیے پچھم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن سب لوگ اسے دکن ہی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ دو بڑے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ شمال میں اس کی اونچائی تین سو فٹ جبکہ جنوب تک جاتے جاتے اس کی اونچائی تین ہزار فٹ تک ہو جاتی ہے۔ یہ سارا علاقہ اونچے نیچے ٹیلوں اور چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ اس کا رقبہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر ہے جو ہمارے کے پی کے رقبہ سے بھی پچاس فیصد زیادہ بنتا ہے۔

جب میں نے اس علاقے سے متعلق پڑھنا شروع کیا تو اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ چودہویں صدی میں اس علاقے میں کئی مسلمان ریاستیں قائم ہوئیں اور تین سو سال سے بھی زیادہ عرصہ تک قائم رہیں۔ ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ تو زیادہ تر شمالی ہندوستان تک ہی محدود ہے۔

جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی پہلی ریاست علا الدین رحمان شاہ نے 1358 ء میں قائم کی اور اسے بہمنی سلطنت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے علا الدین رحمان شاہ سلاطین دہلی کے ساتھ منسلک تھے۔ کسی وجہ سے انھوں نے تغلق خاندان سے اپنا رشتہ ختم کیا اور اس علاقے میں آ کر اپنی ریاست قائم کی۔ بعد ازاں یہ ریاست پانچ حصوں میں تقسیم ہو گئی لیکن ان سب نے اپنی وحدت کو قائم رکھا۔ انھیں سلاطین دکن کہا جاتا تھا۔ اس علاقے میں مسلمانوں کی پانچ ریاستوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں، احمد نگر، بیجاپور، بیدار، بیرار اور گولکنڈا۔ اس ریاست کے حکمران اپنا رشتہ ایران سے جوڑتے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے اس علاقے میں فارسی زبان اور ایرانی کلچر کو فروغ دیا۔ یاد رہے کہ یہ سلطنت مغلوں کی سلطنت سے بھی دو سو سال پہلے قائم ہو چکی تھی۔

اب تک جو میں نے پڑھا ہے اس کے مطابق وسطی اور جنوبی ہندوستان میں قائم مسلمان ریاستوں کے متعلق ہندوؤں کی رائے شمالی ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ سلاطین گجرات، دکن اور اس علاقے میں جو مسلمان ریاستیں تھیں وہ عدل اور انصاف کے لیے بھی جانی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے لوگوں کی بھلائی کے لیے کافی کام کیے ہیں۔ ان کے ریاستی مظالم کی داستانیں بہت کم سننے کو ملتی ہیں۔ جب میں نے اس علاقے میں قائم مسلمان ریاستوں کے متعلق پڑھا تو مجھے اس بات کا افسوس ہوا کہ پاکستان میں تاریخ کی کتابیں صرف شمالی ہندوستان کی تاریخ ہی کے متعلق ہی کیوں ہیں؟

ان ریاستوں کی تاریخ مسلمانوں کے عوام دوست، عدل و انصاف، تعلیم میں دلچسپی، لوگوں کی فلاح و بہبود اور مذہبی رواداری کی ان گنت داستانوں سے بھری پڑی ہے جو مسلمانوں لیے ایک سرمایہ افتخار ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ دکن میں مسلمان ریاستوں کے بارے میں ضرور مطالعہ کریں۔ اس کام کے لیے درج ذیل تین کتابیں بے حد مفید ہیں۔

حمید اختر صدیقی کی کتاب
HISTORY OF BAHMANIS OF DECCAN
a Gulbarga Saltanate of India
اور
Mediaeval Deccan History: Commemoration Volume in Honour of Purshottam Mahadeo Joshi
اور
فاروق سلمان احمد کی کتاب
A Comprehensive History of Medieval India: Twelfth to the Mid-eighteenth Century

میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دکن اور گجرات کے مسلمان حکمرانوں کا طرز حکمرانی سلاطین دلی اور مغل حکمرانوں نے بہت ہی بہتر تھا۔ وہ جنگجو تھے جب کہ یہ صلح پسند اور خیر خواہ تھے۔

میری بات سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو کوئی دلیل لانا پڑے گی جس کا ملنا مشکل ہے۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ جب مغل ریاست کو اس علاقے میں آنے کا موقع ملا تو انھوں نے یہاں بھی وہی طرز حکمرانی اختیار کیا جو اب تک مسلمانوں کی شرمندگی کا باعث ہے۔ جس میں مندروں کی بے حرمتی سر فہرست ہے جس کا سہرا اورنگزیب کے سر ہے۔ کاش وہ ایسا نہ کرتے۔

میں اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ ان کے اس جنگی اور جور و جبر کے انداز حکمرانی سے یہاں کے لوگوں اور اسلام کے درمیان ایک تعصب کی آہنی دیوار کھڑی کر دی تھی جس کی وجہ سے کسی بھی مسلمان بادشاہ کی وجہ سے کوئی اپنا دھرم چھوڑ کر مسلمان نہیں ہوا۔ جو بھی لوگ مسلمان ہوئے وہ مسلمان صوفیاؤں کے پیار اور محبت سے بھرے اخلاق کی وجہ سے ہوئے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ شمالی ہندوستان کے اکثر مسلمان بادشاہ اسلام کی بدنامی کا باعث بنے ہیں جبکہ جنوبی، وسطی اور جنوب مغربی ہندوستان میں ایسا بہت کم ہوا ہے۔

یہ میری رائے ہے، اختلاف آپ کا حق ہے۔
نفرت نہیں۔
نفرت صحیح بات کو بھی تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے میرے دوستو!

جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست حیدرآباد تھی۔ مسلمان صرف شمالی ہندوستان تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے جنوبی ہندوستان کے علاقے بھی فتح کیے اور وہاں بھی عرصہ دراز حکومت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں قائم آخری دو ریاستوں، بیجا پور اور گول کنڈا کو اورنگ زیب نے اپنی دکن کی مہم کے دوران 1687 ء میں فتح کیا یوں اس علاقے میں پہلی مسلمان ریاست جو 1358 ء میں ایرانی نژاد لوگوں نے قائم کی جو سوا تین سو سال تک قائم رہی۔

اس سلطنت کو مقامی ہندو تو ختم نہ کر سکے لیکن وہ ایک مسلمان جسے ہم سب نیک دل اور ٹوپیاں سی کر گزارا کرنے والا حکمران کہتے ہیں، کے ہاتھوں ہی انجام کو پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments