گرین کارڈ ایک آلۂ قتل بھی ہے
ہمارے بچپن میں ہمارے والد صاحب کے پاس ایک ریوالور ہوا کرتا تھا جو انہیں ہمارے دادا سے وراثت میں ملا تھا۔ والد صاحب ہم بچوں کو کبھی بھی اسے چھونے نہیں دیتے تھے۔ ہمارے استفسار پر ہمیشہ کہتے کہ یہ ایک آلۂ قتل ہے اس کو چھونا تم بچوں کے لیے نقصان دہ ہے لیکن یہ وقت پڑنے پر چور اچکوں، ڈاکوؤں اور دشمنوں سے ہماری حفاظت کرے گا۔
کچھ عرصہ قبل جب ہمیں امریکن گرین کارڈ ملا تو والد صاحب کہنے لگے کہ امریکن گرین کارڈ اور نیشنلٹی نہ صرف ہمیں پوری دنیا میں کہیں بھی پڑھنے، گھومنے اور کریئر میں آگے بڑھنے میں مدد کریں گے بلکہ اگر کوئی ہمیں ہراس کرے یا پھر ہمارا معاشی یا جسمانی استحصال کرے تو یہ ہماری حفاظت بھی کریں گے۔ ہم کریئر کو لے کر اونچے اونچے خواب دیکھنے والے انسان اسی میں خوش ہو گئے۔
لیکن گجرات میں اسپینش ویزہ ملنے میں کچھ تاخیر ہونے پر اپنے ہی چچا کے ہاتھوں قتل ہونے والی دو اسپینش گرین کارڈ ہولڈر بہنوں کے قتل کی خبر نے ہمیں والد صاحب کے موروثی ریوالور کی یاد دلا دی۔ بڑھاپے، شوگر اور دل کی بیماری کی وجہ سے شاید ان کی یادداشت نے ان کا ساتھ نہیں دیا جو وہ ہمیں امریکن گرین کارڈ کے فوائد کے ساتھ یہ بتانا بھول گئے کہ بیٹی ذرا خیال سے یہ ایک آلہ قتل بھی ہے۔ آج ہم والد صاحب کو اپنا کارڈ یہ کہہ کر واپس دے آئے ہیں کہ ابا اس کارڈ کی تیز دھار کسی دن آپ کی اپنی بیٹی کی ہی گردن پر ہی چل جائے گی۔
مسئلہ صرف ان دو بیہمانہ قتل کی ہوئی لاشوں کا نہیں ہے مسئلہ ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والی دیسی کمیونٹی کے ہر دسویں گھرمیں موجود ایک زندہ لاش کا بھی ہے جسے گرین کارڈ کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ قتل صرف جسم نہیں ہوتے روحیں بھی قتل ہوتی ہیں۔ اور بہت سے لوگ تو معاشی طور پر بھی قتل ہوتے ہیں جن کے پارٹنرز ان کے ناموں پہ ہزاروں ڈالرز کے قرضے لے کر بھاگ جاتے۔ آئے روز ایسے کیسز بھی دیکھنے کو ملتے جہاں کچھ ماں باپ بیرون ملک میں پلی بڑھی اولاد کی مرضی کے خلاف جاکر ان کا رشتہ پاکستان میں رہنے والے اپنے بہن بھائی کے ہاں صرف اس لیے طے کر دیتے کہ وہ بھی ایک ترقی یافتہ ملک آ سکیں۔
بیرون ملک آنے والے کثیر تعداد میں سٹوڈنٹس جن کا مقصد ڈگری کی بجائے گرین کارڈ کا حصول ہے وہ ائر پورٹ اور یونیورسٹی کے راستے میں ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ جن کا یہ رویہ نئے آنے والے مستحق سٹوڈنٹس کے داخلوں میں مشکل پیدا کر رہا۔ اکثر تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے سٹوڈنٹس لینڈ کرنے سے قبل اپنی رشتہ پروفائل بیرون ملک موجود رشتے کی ویب سائٹس پر لگا دیتے ہیں۔ کیوں کہ کسی بھی گرین کارڈ یا نیشنلٹی ہولڈر سے شادی گرین کارڈ حاصل کرنے کا سب سے سہل طریقہ ہے۔ اور اس طرح کی دھوکہ دہی میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی ملوث ہیں ہاں تعداد کا فرق ضرور موجود ہے۔
اور پاکستان میں رہنے والے اکثر ماں باپ، لڑکے اور لڑکیاں بیرون ملک رشتے کے لیے کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار ہو جاتے جو وہ عام حالات میں کرنا پسند نہیں کرتے۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں اکثر اپنی والدہ سے سوال کرتے تھے کہ جب لوگ پاکستان میں شادی کرتے تو وہ یہ بتاتے کہ لڑکا یا لڑکی انجنئیر ہے ٹیچر ہے یا ڈاکٹر ہے اور اچھے کردار اور اخلاق کا ہے۔ لیکن جب بھی کوئی بیرون ملک شادی کرتا تو بس یہ کیوں کہتا کہ لڑکی انگلینڈ میں رہتی یا لڑکا امریکہ میں۔
اس کی تعلیم، کردار اور اخلاق کیوں نہیں بتایا جاتا۔ کچھ بڑے ہوئے تو سمجھ میں آیا کہ ہم جس مادیت پرستی کے دور میں رہتے ہیں وہاں ہماری بحیثیت انسان کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ہم مرد ہیں تو ہمارا معاشی استحکام اور جائیداد ہماری معاشرے میں حیثیت بتاتا اگر ایک عورت تو ہماری خوبصورتی اور عمر۔ اور اگر ہم بیرون ملک رہنے والے مرد یا عورت ہیں تو ہم صرف ایک پاسپورٹ ہیں۔ ہم کتنے تعلیم یافتہ ہیں ہمارا اخلاق اور کردار کیسا ہے ہم اپنی ذات میں کتنے مکمل ہیں اور سب سے بڑھ کے ہم انسان ہیں اس سے معاشرے کو فرق نہیں پڑتا۔
اس طرح کہ واقعات کو دیکھ کر ہمیں کبھی کبھی سمجھ نہیں آتا کہ ہماری ملکی معیشت زیادہ گری ہے یا پھر بحیثیت قوم ہماری اخلاقیات۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ نوجوان نوکریوں کے حصول اور معاشی استحکام کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کر رہے اور خواتین اپنے حقوق اور آزادی کے لیے۔ لیکن اس ساری تگ و دو میں بہت سے ایسے ہیں جو خود آگے نکلنے کے لیے کسی دوسرے کو دھکا دے کر گرا رہے ہیں اپنے مطلب کے لیے کسی اور کو سیڑھی بنا رہے ہیں اور ریاست! وہ گہری نیند سو رہی ہے۔
- ہم کس کس کا استحصال کر رہے ہیں؟ - 29/05/2022
- گرین کارڈ ایک آلۂ قتل بھی ہے - 24/05/2022
- ہم حالت غم میں ہیں - 01/08/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).