سیاست کی فتنہ گری


پچھلے ستر سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور سیاسی فقدان ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آج بھی جب اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو واقعی ایسا لگتا ہے اور یوں لگ رہا ہے جیسے سوچ اور حب الوطنی کا قحط پڑ چکا ہے اور ہرطرف نظریات کی موت دکھائی دے رہی ہے۔ اخلاقیات سے لے کر معاشیات تک اندھیرا ہی اندھیر دکھائی دے رہا ہے اقتدار کا بھوکا شیر ہمارے بازاروں میں دھاڑ رہا ہے اور دنیا ہماری بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہے ہمارا یعنی دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت کا تماشا زبان زد عام ہے اور جہاں گلیوں میں بھوک ناچ رہی ہے اور کھیتوں میں اسلحہ اگ رہا ہے۔

عوام دن رات سیاست کے دیے گئے سکرپٹ پر میڈیا پر جھوٹ کی سرکس دیکھ دیکھ کر کر نفسیاتی مریض بن رہے ہیں۔ آج سوشل میڈیا پر ایک خبر دیکھی جس میں ایک شخص صرف اس لیے معدہ کی درد کا شکار ہو گیا کہ اسے دن رات یہ فکر کھائی جا رہی کہہ عمران خان نیازی کو کچھ ہو نہ جائے۔ ڈاکٹر بیچارا اسے سمجھا رہا ہے بھائی یہ سیاست ہے اور آپ کے عمران خان کو کچھ نہیں ہوتا۔ دیکھ لیں یعنی بات اب یہاں تک آ پہنچی ہے۔

سیاست، سماجی شعور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات اور مضمرات کے عمل کو کہتے ہیں جس میں جمہور اپنے مسائل کے حل کو جمہوریت کے فریم میں رکھ کر فیصلہ دیتے ہیں تاکہ اپنے ملک، وطن اور علاقہ کے تعمیر و ترقی کر سکیں۔ لیکن ہمارے ہاں سیاست کو طاقت کے حصول اور اثر و رسوخ کے لیے استعمال کیا جار ہا ہے بلکہ اب تو پچھلے کچھ ادوار سے سیاست کو ایک عقیدہ بنا کر لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ ہو رہی اور شخصیت پرستی اپنے عروج پر نظر آ رہی ہے اور عوام اپنے سیاسی نظریات اور شعور سے مبرا ہو کر اپنے قائدین کے فرمان کو عقیدوں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

سیاست دان اقتدار کے حصول کے لیے عوام کو ہر طرح کی انتہاپسندی میں گھسیٹنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ پچھلی جماعتوں نے جتنا زہر ہمارے سماج کی فصلوں میں بویا تھا تحریک انصاف نے ان کے بھی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اب پولیٹکل چوائس اتنی سادہ نہیں رہی عام ووٹر اب سیاسی شعور کی بنیاد پر سیاسی جماعت کو پسند نہیں کر رہا بلکہ خوف اور نفسیاتی مرض کی بنیاد پر پسند کر رہا ہے اور اگر یہ مشق ایسے ہی جا رہی ہے تو ملک خدانخواستہ خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے۔

آج جو بیانیہ تحریک انصاف دے رہی ہے جس میں کہیں نہ کہیں یہ ثابت کرنے کے کوشش کی جا رہی کے ہمارے علاوہ سب چور اور کافر ہے اور دلیل کے بجائے جذبات سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس کے ناقابل تلافی نقصان کے اندیشے واضح ہیں۔ ہو سکتا ہے ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہو لیکن اگر ہم سب سے اچھا ہونے کے دعوے دار تو اچھے نظر بھی آنے چاہئیں۔ اداروں کو گالیاں دینے اور بلیم گیم سے اچھے ثابت نہیں ہو سکتے۔

اب ہماری جو اٹھارہ سے بیس سال کی نسل کی آبیاری جس پانی سے ہو رہی اس کے بہتر نتائج کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ آپ اگر چاہتے ہیں کہ ہمیں امریکہ سے آزادی ملے تو قومی مفاد میں سوچیں اور ویسے بھی امریکہ نے آپ کو زنجیریں نہیں پہن رکھیں۔ کس نے آپ کو اپنی بہتر معاشی پالیسی بنانے سے روکا ہے۔ کس نے آپ کو تعلیم اور ہنر کے ادارے بنانے سے روکا ہے، کس نے آپ کو ملک و قوم میں رنگ نسل، مذہب کی تفریق سے سب کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنے سے روکا ہے۔ خدارا ملک پر ترس کھائیں اور اداروں کا احترام کریں اور قانون کی پاسداری پر یقین رکھیں۔ ایسا نہیں جو فیصلہ آپ کے حق میں نہیں تو وہ ادارے کرپٹ ہیں اور جب فیصلہ آپ کے حق میں ہو تو ادارے ٹھیک۔

سیاست کو پولیٹکل کلٹ بنانے کی کوشش نہ کریں اور سیاست کوئی عقیدہ نہیں جہاں لوگوں کو اپنے پسند نا پسند پر جان کے لالے پڑ جائیں۔ جن کو آپ دن رات گالیاں دیتے ہیں وہ امریکہ اپنے ٹرن کے بعد دوسروں کو موقع فراہم کرتے ہیں اور مجال عمر بھر کرسی سے چپکے رہنے کا لالچ کہیں پا یا جاتا ہو۔ لہذا ساری عمر کرسی جے جڑے رہنے کی رسم اب ختم ہونی چاہیے اگر آپ ملک میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں تو جمہوری بنیادی پر سوچیں جس کی اب امید کرنا مشکل ہے اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ملک عالم برزخ کی طرح ہم وطنوں کے لیے عذاب کدہ سے کم نہیں ہو گا۔ بقول ساحر لدھیانوی

بہت دنوں سے یہ مشغلہ ہے سیاست کا کہ جواں ہوں بچے تو قتل ہو جائیں۔
بہت دنوں یہ خبط ہے حکمرانوں کو کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments