صدارتی ریفرنس کس کی جیت کس کی ہار؟


سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمنٹ کے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسیوں سے انحراف بارے میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں پر تین دو کی اکثریت سے فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت عظمی نے قرار دیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کے مرتکب رکن پارلیمنٹ کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ صدر مملکت نے ریفرنس میں آئینی شق 63 اے کے حوالے سے 4 سوالات بھجوائے تھے جن میں سپریم کورٹ سے استفسار کیا گیا تھا کہ کیا شق 63 اے کو محدود طریقے سے سمجھا جائے یا اس کی وسیع تر معانی میں تفہیم ضروری ہو گی۔ کیا انحراف کرنے والے ارکان کو نا اہل قرار دیا جائے۔ پارٹی لائن سے انحراف کرنے، فلور کراسنگ اور ووٹوں کی خریداری میں ملوث ہونے کے مسائل سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کیے جائیں۔ سپریم کورٹ نے ایسے ارکان کے ووٹ شمار نہ کرنے کا حکم دیا ہے جنہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے منحرف ارکان کی سزا تجویز نہیں کی بلکہ یہ سوال صدر کو کسی جواب کے بغیر واپس بھجوا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے منحرف ارکان پارلیمنٹ کی تا حیات نا اہلی کی درخواست مسترد کر دی ہے اور کہا کہ اس بارے میں پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔

اس طرح پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے تاحیات نا اہلی بچ گئے ہیں چونکہ وفاق میں پی ٹی آئی کے 25 ارکان نے بغاوت کی تھی لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کو ان کی جانب سے ووٹ دینے کی ضرورت پیش نہ آئی اس طرح شہباز شریف اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کے 174 ارکان کی ووٹوں سے وزیر اعظم منتخب ہو گئے لیکن پنجاب میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس فیصلے کے بعد پنجاب جو پہلے ہی صدر مملکت اور گورنر کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے میں آئینی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

سیاسی حلقوں میں سوال بھی زیر بحث ہے کہ کیا حکومت سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے کو من و عن قبول کر لے گی جس اس ایشو پر فل کورٹ قائم کرنے کے لئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے گی۔ بظاہر منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے کے فیصلے سے ان جماعتوں کی اخلاقی فتح ہوئی ہے جو منحرف ارکان کے مخالفانہ ووٹ کو شمار نہ کرنے اور تاحیات نا اہلی کا مطالبہ کر رہی تھیں یہی وجہ ہے۔

عمران خان نے ”لوٹوں“ کے خلاف فیصلہ دے کر اخلاقیات کو گرنے سے بچانے پر سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی حکومت ”بیک فٹ“ پر چلی گئی ہے۔ شہباز شریف کو 174 ارکان کی حمایت حاصل ہوئی جب کہ انحراف کرنے والے ارکان کے ووٹ ڈلوانے کی ضرورت پیش نہ آئی پنجاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے 25 ارکان صوبائی اسمبلی کو ڈی سیٹ کر دیا ہے جس کے بعد بظاہر حمزہ شہباز شریف ختم ہو گئی ہے۔

آئینی امور کے ماہرین سپریم کورٹ کے فیصلے کی اپنی اپنی تشریحات کر رہے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے بارے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ نہیں رائے دی ہے۔ تین ججوں نے آئین کے خلاف جب کہ دو نے آئین کے مطابق رائے دی ہے۔ حکومت وقت پر منحصر ہے کہ وہ اس رائے کو مانتی ہے کہ نہیں۔ کچھ آئینی ماہرین کی رائے ہے کہ 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد حمزہ شہباز کو دوبارہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا الیکشن لڑنا پڑے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس جنہیں حمزہ شہباز حکومت نے ہٹا دیا ہے، نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ نہیں رہے جب کہ پارلیمانی امور کے ماہرین کا موقف ہے کہ جس طرح قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی آئینی و سیاسی حیثیت متاثر نہیں ہو گی اسی طرح پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے جن باغی ارکان نے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ دیا ان کو ڈی سیٹ کر کے دوبارہ وزیر اعلی کا انتخاب کرانے سے پی ٹی آئی کو نقصان ہو گا۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ پر اثر انداز ہو گا اور نہ ہی وہ مستعفی ہوں گے۔ انہیں کوئی وزارت اعلیٰ کے منصب سے نہیں ہٹا سکتا سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے منصب کا دوبارہ انتخاب ہوا تو بھی دوسری بار پھر مسلم لیگ (ن) کا ہی وزیر اعلیٰ بنے گا۔ الیکشن کمیشن پنجاب اسمبلی کی جانب سے 25 ارکان کو ڈی سیٹ کرنے سے نئی گنتی کے مطابق حمزہ شہباز ہی وزیر بنیں گے۔

آئین کے آرٹیکل 130 کی ذیلی شق 4 کے تحت وزیر اعلیٰ کو صوبائی کے ارکان کی تعداد کی اکثریت کی رائے دہی کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ اگر کوئی رکن پہلی رائے شماری میں مذکورہ اکثریت حاصل نہ کر سکے تو پہلی رائے شماری میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے پہلے دو ارکان کے درمیان رائے شماری کا اہتمام کیا جائے گا۔ موجودہ ارکان کی اکثریت حاصل کرنے والا رکن وزیر اعلیٰ منتخب ہو جائے گا۔

حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے قائدین کا غیر معمولی اجلاس وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا ہے جس میں قبل از وقت انتخابات کی تجویز کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے اور طے پایا ہے کہ حکومت اگست 2023 تک اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ انتخابی اصلاحات کے بعد ہی عام انتخابات ہوں گے۔ جہاں تک ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے سخت فیصلوں کا تعلق ہے۔ اتحاد میں شامل جماعتوں نے ”طاقت ور قوتوں“ کی سپورٹ کی یقین دہانی سے حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے سے مشروط کر دیا ہے۔

اس کے لئے اسٹیبلشمنٹ قبل از وقت انتخابات کرانے کے لئے دباؤ میں موجودہ حکومت کی پشت پر کھڑی ہو گی۔ اگر وزیراعظم کو قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے دو ٹوک الفاظ میں یقین دہانی نہ کرائی گئی تو حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں عوام کی ناراضی مول لینے کی بجائے انتخابات کو ترجیح دیں گی۔ حکومت کی ”بے بسی“ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ تاحال وفاقی حکومت اپنا گورنر پنجاب نہیں لگا سکی جب کہ گورنر پنجاب نہ ہونے سے وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز اپنی کابینہ کے ارکان کا حلف نہیں اٹھوا سکے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے قائم مقام گورنر پنجاب بننے سے انکار کر دیا تاحال پنجاب میں آئینی و سیاسی بحران ختم نہیں ہوا سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کو شمار کرنے سے نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف موجودہ صورتحال میں وزرات عظمیٰ سے الگ ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تو آصف علی زرداری نے انہیں یہ کہہ کر ”میاں صاحب! آپ کو بڑی محنت سے وزیر اعظم بنایا ہے“ استعفاٰ دینے سے روک دیا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار اوپن مارکیٹ میں ڈالر ڈبل سنچری عبور کر گیا ہے۔ روپیہ شدید دباؤ میں آ گیا ہے۔ حکومت نے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے ”پر تعیش اشیا ء کی درآمد پر پابندی“ کا پہلا قدم اٹھا یا ہے جس سے ماہانہ ایک ارب ڈالر بچت ہو گی۔ اگر ایک دو روز ”طاقتور قوتوں“ کی آشیر باد حاصل ہو گئی تو پھر وزیر اعظم شہباز شریف کھل کر کھیلیں گے۔ بصورت دیگر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف لندن ”مقیم“ نواز شریف پاکستان واپس آنے کی پوری تیاری کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments