پاکستان کے لانگ مارچ: کامیابی اور ناکامی کے پس پشت متحرک عوامل اور قوتیں

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


پاکستان
قیام پاکستان کے بعد ملک میں پہلی ہڑتال ہوئی اور لاہور سے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے وفاقی دارالحکومت کراچی پر جا کر چڑھائی کی (فائل فوٹو)
سابق وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محرومی کے بعد قبل از وقت انتخابات کے لیے اِن دنوں حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں اور اتوار کی شام انھوں نے ’پوری قوم‘ کو 25 مئی کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے کی کال دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ (عمران خان) بذات خود خیبرپختونخوا سے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی سرینگر (کشمیر) ہائی وے پہنچیں گے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے کارکن جتنی بھی دیر اسلام آباد میں رہنا پڑے گا، رہیں گے اور اُن کا صرف یہ مطالبہ ہو گا کہ نئے عام انتخابات کی تاریخ دی جائے اور اسمبلیاں تحلیل کی جائیں۔

اس موقع پر سابق وزیر اعظم نے بیوروکریسی اور پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُنھوں نے اس ’پُرامن احتجاج‘ کے خلاف کوئی کارروائی کی تو یہ غیر قانونی ہو گا جبکہ فوج کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ نیوٹرل ہیں تو اس میں بھی نیوٹرل رہیں۔‘

یاد رہے کہ عمران خان متعدد مرتبہ عوامی جلسوں سے خطاب کے دوران دعوے کر چکے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے 20 لاکھ کارکنوں کو اسلام آباد لائیں گے اور تب تک وہاں موجود رہیں گے جب تک الیکشن کا اعلان نہیں ہو جاتا۔

عمران خان کا یہ لانگ مارچ اُن کے مقصد کے حصول میں کتنا معاون ثابت ہو گا؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں کیونکہ پاکستان میں اس قسم کی سیاسی مہم جوئی کا انجام نہ کبھی یکساں رہا ہے اور نہ اس کی کامیابی اور ناکامی کے پیمانے کبھی ایک سے رہے ہیں۔

آئیے ماضی کی چند مثالوں سے اس نوعیت کے احتجاجوں کی تاریخ اور ان کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

’جب حکومتی عمائدین کے گھروں پر توپیں نصب ہوئیں‘

قیام پاکستان کے بعد اس قسم کی پہلی سیاسی یلغار سنہ 1953 میں ہوئی تھی۔ یہ تحریک ختم نبوت تھی۔ یہی تحریک تھی جس کے دوران قیام پاکستان کے بعد ملک میں پہلی ہڑتال ہوئی اور لاہور سے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس وقت کے وفاقی دارالحکومت کراچی پر جا کر چڑھائی کی۔

یہ ہنگامہ آرائی اتنی شدید تھی کہ روزنامہ ’زمیندار‘ کے مطابق عمائدین حکومت کے تحفظ کے لیے اُن کے گھروں پر توپیں نصب کرنی پڑیں۔

یکم مارچ 1953 کے ’زمیندار‘ کے شمارے کے مطابق حکومت نے تحریک ختم نبوت کی راست اقدام کمیٹی کے تمام ارکان کو گرفتار کر لیا اور اخبار کے مطابق گرفتاریوں کی کل تعداد 721 تھی۔

پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں اس صورتحال کے خلاف شدید ردعمل ہوا اور ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ان ہنگاموں میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔

اخبار کے مطابق صورتحال پر قابو پانے کے لیے پہلے کرفیو نافذ کیا گیا لیکن کرفیو ناکافی ثابت ہوا چنانچہ لاہور میں مارشل لا کے نفاذ کی نوبت آ گئی۔ یہ پاکستان کا پہلا مارشل لا تھا۔ یہ مارشل لا وہی تھا جس کے بارے میں بریگیڈیئر اے آر صدیقی نے لکھا ہے کہ ’یہ بعد میں آنے والی فوجی حکومتوں کی ریہرسل ثابت ہوا۔‘

’تحریک ختم نبوت‘ پاکستان کی پہلی بڑی اور خون ریز تحریک تھی۔ یہ تحریک اس وقت اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ منصوبہ سازوں کے پیش نظر وہ مقاصد ہی نہ تھے جو اس تحریک سے وابستہ لوگوں کے ذہن میں تھے۔

اس واقعے کے ٹھیک پانچ برس کے بعد ایوب خان نے پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لا نافذ کیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ اس مارشل لا کے نفاذ میں دوسری وجوہات کے علاوہ ایک جلوس بھی اس کی بھی بڑی وجہ بنا۔

پاکستان

کیا یہ محض اتفاق تھا کہ اس مارشل لا کے نفاذ میں دوسری وجوہات کے علاوہ ایک جلوس بھی اس کی بھی بڑی وجہ بنا (فائل فوٹو)

وہ جلوس جو پاکستان میں پہلے باقاعدہ مارشل لا کی وجہ بنا

ڈاکٹر سید جعفر احمد پاکستان کی سیاسی تاریخ کے شناوروں میں بہت ممتاز ہیں۔ اُن کے مطابق اس جلوس کا پس منظر یہ تھا کہ ’سنہ 1956 میں پاکستان کے پہلے آئین بننے کے بعد ایک نئی منتخب حکومت کی ضرورت تھی اور اس کے لیے انتخابات کے لیے فروری 1959 کی تاریخ دی لیکن یہ انتخابات منعقد نہ ہو سکے جس کا سبب وہ خوف تھا جو اس وقت کے حکمرانوں کے ذہن پر سوار تھا۔‘

صدر اسکندر مرزا اور ان کے ساتھی اس لیے خوفزدہ تھے کہ اس زمانے میں سیاسی عمل بہت تیز ہو چکا تھا اور ملک میں کچھ نئی سیاسی قوتیں وجود میں آ چکی تھیں جو اس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ اور نوکر شاہی کی محلاتی سازشوں کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل تھیں۔

انھی قوتوں میں سے ایک وہ تھی جو کچھ عرصہ پہلے ہی سیاسی اونچ نیچ اور بحرانوں سے نکل کر خان عبدالقیوم خان کی قیادت میں ایک بار پھر منظم ہو چکی تھی اور حکمرانوں کو انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ اس جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل اُن کی قیادت میں نکلنے والا ایک طویل جلوس تھا۔

اس زمانے میں اس قسم کے جلوسوں کو لانگ مارچ کا نام تو نہیں دیا گیا تھا لیکن اپنی طوالت کے اعتبار سے یہ لانگ مارچ ہی تھا۔ راولپنڈی سے شروع ہو کر گجرات تک پہنچ کر ختم ہونے والا یہی جلوس تھا جسے جواز بنا کر مارشل لا نافذ کیا گیا۔

ایوب خان

نصیر احمد سلیمی روزنامہ ’پاکستان‘ کراچی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہے ہیں۔ اپنے ہم عصر صحافیوں میں ان کی انفرادیت یہ ہے، بانیان پاکستان اور بعد کے زمانوں کی مرکزی قیادت سے ذاتی سطح پر ان کے نہ صرف نہایت قریبی تعلقات تھے بلکہ اس زمانے کے واقعات کی تفصیل بھی ان کے ذہن میں تازہ ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’اٹھارہ میل طویل اس جلوس نے حکمرانوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ اُن کے سامنے اب ایک ہی راستہ تھا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے کی جانے والی مزاحمت کو کچل دیا جائے۔ یہی راستہ اختیار کیا گیا۔ خان عبدالقیوم خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہی گرفتاری تھی جس نے مزاحمت کی کمر توڑی اور نیز اس زمانے کے ’مرد آہن‘ یعنی خان قیوم کی شہرت کو زک پہنچائی۔ خان صاحب معافی نامہ دے کر رہا ہوئے۔‘

سخت گیری اور ڈٹ جانے کی شہرت رکھنے والے رہنما نے معافی نامہ کیوں دیا؟ نصیر احمد سلیمی کہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب خان قیوم نے اپنے ایک انٹرویو میں دیا۔ ایک انٹرویو میں ان سے سوال کیا گیا: ‘جتنا طویل آپ کا جلوس تھا، اتنا ہی طویل آپ کا معافی نامہ تھا، آپ نے اتنی کم ہمتی کیوں دکھائی؟‘

خان صاحب نے جواب دیا کہ ’جیسا بدترین تشدد اس قید میں؛ میں نے برداشت کیا، اس تشدد کا سامنا کوئی کر کے دکھائے تو میں مانوں۔‘

ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف ملک کے دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا لیکن لانگ مارچ جیسے جلوسوں کی نوبت نہیں آئی۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل انتخابات اور ان کے بعد بھی بڑے جلوسوں کے واقعات ریکارڈ پر نہیں ہیں۔

خان عبدالقیوم خان کے جلوس کے بعد سنہ 1977 تک کسی بڑے احتجاجی مارچ کا سراغ نہیں ملتا لیکن ایوب خان کے زمانے بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت صدارتی انتخابات کے تحت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے دوران میں بڑے پیمانے پر سیاسی تحرک پیدا ہوا۔

پاکستان قومی اتحاد نے 10 اپریل 1977 کو لانگ مارچ کی اپیل کی۔ رانا نذر الرحمٰن کے مطابق پیر پگارا کی وجہ سے یہ لانگ مارچ نہ ہو سکا۔

لانگ مارچ جیسی بھرپور مرکزی سرگرمی نہ ہونے کے باوجود احتجاجی سرگرمیاں پورے ملک میں پھیل چکی تھیں۔ اتحاد کی اپیل پر سول نافرمانی کی اپیل کامیاب ہو چکی تھی۔ لوگ لازمی سروسز کے بل جمع نہیں کرا رہے تھے اور ٹرینوں پر بلا ٹکٹ سفر کرنے لگے تھے۔ اس ہنگامہ خیزی کا دائرہ کتنا وسیع تھا، اس کا اندازہ اس تحریک میں ہونے والے جانی نقصان سے ہوتا ہے۔

رانا نذر الرحمٰن نے لکھا: ’آٹھ مارچ 1977 سے پانچ جولائی 1977 تک پورے ملک میں تقریباً 425 افراد ہلاک ہوئے اور بعض اس بری طرح زخمی ہوئے کہ زندگی ان کے لیے وبال جان بن گئی۔‘

اتنی ہمہ گیری کے باوجود یہ تحریک اپنے مقاصد یعنی نئے عام انتخابات کے انعقاد میں ناکام رہی اور مارشل لا کے نفاذ کا ذریعہ بن گئی۔

پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ کی اصطلاح کا استعمال اور بینظیر کا پولیس سے چھپ کر راولپنڈی پہنچنا

بھٹو

پاکستان کی تاریخ کے پہلے سیاسی لانگ مارچ کے دوران بینظیر بھٹو پولیس کی جانب سے فائر کی گئی آنسو گیس شیلنگ سے بچنے کے لیے منھ پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں

پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ کی اصطلاح بے نظیر بھٹو نے متعارف کرائی۔ نواز شریف کی حکومت کے خلاف انھوں نے سنہ 1992 میں ’لانگ مارچ‘ کیا جو لاہور سے شروع ہوا تھا۔

پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب ’نواز شریف کا پہلا دور حکومت‘ میں لکھا ہے کہ بینظیر نے اعلان کیا کہ 18 نومبر کو ایوان صدر اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا جائے گا۔ انھوں نے توقع ظاہر کی کہ وفاقی دارالحکومت میں چار لاکھ افراد جمع ہو گئے تو یہ حکومت نہیں رہے گی۔ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے غیر معمولی اقدامات کیے، پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں اور اسلام آباد کو فوج کی تحویل میں دے دیا گیا۔

اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کر لیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ راولپنڈی پہنچنے میں کامیاب رہیں۔

پولیس کو جل دے گاڑی میں سوار ہونے کا ڈرامائی منظر بی بی سی پاکستان کے ایڈیٹر آصف فاروقی نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’بینظیر کی رہائش گاہ گھیرے میں تھی۔ وہ گاڑی میں سوار ہونے کے لیے جیسے ہی گھر سے نکلتیں، تو انھیں گرفتار کر لیا جاتا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ زمین پر اکڑوں بیٹھ گئیں اور اسی طرح ایک ایک قدم آگے بڑھاتی ہوئی گاڑی تک پہنچ گئیں۔ گاڑی میں وہ بیٹھ تو گئیں لیکن اب اندیشہ تھا کہ گاڑی کو آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔‘

’اس موقع پر ایک صحافی نے اپنی خدمات پیش کیں اور منتظمین کو بتایا کہ وہ ایک ایسا راستہ جانتے ہیں جو پولیس سے محفوظ ہے۔ صحافی کی پیشکش قبول کر لی گئی۔ صحافی نے موٹر سائیکل کو کک لگائی اور بے نظیر کی گاڑی کا بہت سے ان جانے راستوں سے گزار کر بخیریت انھیں راولپنڈٰی پہنچا دیا۔‘

بینظیر بھٹو کی سربراہی میں ہونے والے لانگ مارچ کے شرکا کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کے لیے ہونے والے پولیس آپریشن کا ایک منظر

بینظیر بھٹو کی سربراہی میں ہونے والے لانگ مارچ کے شرکا کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کے لیے ہونے والے پولیس آپریشن کا ایک منظر

کالم نگار ایاز امیر نے بتایا: ’یہ لانگ مارچ ناکام رہا۔ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ پہنچیں تو ان کے ساتھ ایک دو ہی گاڑیاں تھیں۔ باوجود اس کے کہ لانگ مارچ ناکام ہو گیا لیکن اصل بات یہ ہے حکومت اس کے باوجود گھبراہٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ اسلام آباد کے تحفظ کے لیے فوج کو دعوت دینے سے اس کی کمزوری عیاں ہو گئی۔ یہی اس لانگ مارچ کا منفرد پہلو تھا۔‘

بے نظیر بھٹو نے دوسرے لانگ مارچ کی منصوبہ بندی اگلے ہی برس یعنی سنہ 1993 میں کی۔ یہ مارچ ہوئے بغیر ہی نتیجہ خیز رہا، کچھ دنوں کے بعد نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے 12 اگست 2014 کو ’نوائے وقت‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں پہلے مارچ کی ناکامی اور دوسرے لانگ مارچ کے نہ ہونے کے باوجود کامیابی کی وجہ کچھ بیان کی ہے:

’محترمہ کے اس (پہلے) لانگ مارچ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اسے کامیاب بنانے کے لیے مناسب ’ہوم ورک‘ نہیں کیا تھا۔ اگلے سال یعنی 1993 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک اور لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کی جو شروع ہوا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسلام آباد پہنچتیں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ان کے لیے راہ ہموار کروا دی تھی اور مداخلت کر کے اس شرط پر صدر اور وزیر اعظم کو اقتدار سے علیحدہ ہونے پر راضی کرلیا تھا کہ وہ نوے دنوں کے اندر انتخابات کرادیں گے۔‘

’اس طرح بے نظیر بھٹو نے لانگ مارچ ختم کر دیا اور 1993 کے آخر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ بلا شبہ اس لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے مناسب ’ہوم ورک‘ کیا تھا۔‘

قاضی حسین کا دھرنا

قاضی حسین احمد

نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اپنی دوسری حکومت بنائی۔ بے نظیر بھٹو کی اس حکومت کے خلاف قاضی حسین احمد نے دھرنا دیا جو نتیجہ خیز ثابت ہوا اور اس حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

اس دھرنے کی کامیابی کا راز بھی اس کا مناسب ہوم ورک تھا لیکن اس ’ہوم ورک‘ کی نوعیت جنرل مرزا اسلم بیگ کے بتائے ہوئے ہوم ورک سے کسی مختلف تھی۔

جماعت اسلامی کی تاریخ کے ماہر اور مولانا مودودی کے جاری کردہ جماعت کے نظریاتی ترجمان ’ترجمان القرآن‘ کے مدیر پروفیسر سلیم منصور خالد نے بتایا: ’جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامی فرنٹ بنا کر 1993 کے انتخابات میں حصہ لیا تو اس سے پیپلز پارٹی مخالف ووٹ تقسیم ہوگئے۔ یوں بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آ گئیں۔ اب پیپلز پارٹی مخالف پریس کا جماعت پر یہ مسلسل دباؤ تھا کہ ‘تم ہی نے درد دیا ہے، تم ہی دوا دو گے۔ دوسری طرف ملک میں بدانتظامی اور بدعنوانی کے قصے زبان زد عام تھے اور ہر مبینہ قصے کا آغاز اور انتہا جناب آصف زرداری پر جا کر ٹوٹتی۔‘

’اس پر ستم یہ ہوا کہ ستمبر 1996 میں میر مرتضیٰ بھٹو قتل کر دیے گئے۔ اس سے قبل جون میں جماعت اسلامی راولپنڈی میں بے نظیر حکومت کے خلاف زوردار احتجاج کر کے اپنے کارکنوں کو یکسو کر چکی تھی۔‘

’ستمبر اکتوبر کے آتے آتے پاکستان پیپلز پارٹی کے ناراض عناصر اور ترقی پسند لیڈروں کا ایک مؤثر دھڑا بھی اس حکومت کے خاتمے پر یکسو ہو گیا۔ اس طرح جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے ترقی پسند عناصر کے درمیان، بے نظیر حکومت خاتمے کے لیے ایک غیر علانیہ تعاون کا سلسلہ قائم ہو گیا جسے صدر فاروق احمد خان لغاری اور ان کے بعض دیگر دوستوں ڈاکٹر مبشر حسن اور ملک معراج خالد کی تائید حاصل تھی۔‘

’البتہ نواز شریف کی مسلم لیگ منظر سے الگ تھلگ تھی۔ پھر جنرل ضیا الحق کے دور میں وجود میں آنے والی سول سوسائٹی بھی اس تال میل کا حصہ بن گئی۔‘

’اس دھرنے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں صدر لغاری نے بے نظیر حکومت کو معزول کر بھٹو صاحب کے دست راست اور پیپلز پارٹی کے ترقی پسند عنصر کی قابل احترام شخصیت ملک معراج خالد کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کردی۔ انتخابات ہوئے جماعت اسلامی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور نواز شریف دو تہائی اکٹریت کے ساتھ بر سراقتدار آ گئے۔‘

بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنے دوسرے دور اقتدار میں وہ کئی قسم بحرانوں کا شکار رہے لیکن ان کے دور میں لانگ مارچ جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں۔ یہ صورتحال پھر جنرل مشرف کے زمانے میں پیدا ہوئی۔

عدلیہ بحالی تحریک اور ملک گیر لانگ مارچ

نواز شریف

جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول کر دیا تو اس کے خلاف وکلا نے جسٹس افتخار محمد چودہری کی قیادت میں ملک بھر کا مارچ کیا۔ اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ایک اور ملک گیر لانگ مارچ ہوا، اسلام آباد میں جس کا اختتام ایک جلسے پر ہوا۔ عدلیہ بحالی تحریک کی یہ دونوں مہمات ناکام رہیں۔

عدلیہ بحالی تحریک ہی کے سلسلے میں تیسری کوشش لانگ مارچ ہی کے عنوان سے ہوئی۔ یہ لانگ مارچ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر قیادت ہوا۔

سلمان غنی کا شمار پاکستان کے ان صحافیوں میں ہوتا ہے جنھیں مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کے سیاسی مد و جزر کی جزیات تک سے آگاہی ہے۔ وہ اس مارچ کی ابتدا سے میاں نواز شریف کے قریب رہے اور اس سرگرمی کے مختلف زایوں اور لمحہ بہ لمح رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔ انھوں نے بتایا: ’دن کی ابتدا بظاہر یہ بتاتی تھی کہ آج کی سیاسی سرگرمی کا کریڈیٹ کسی کو مل سکتا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے یا پاکستان تحریک انصاف۔ مسلم لیگ کہیں دکھائی نہ دیتی تھی لیکن یہ تاثر اس وقت تک برقرار رہا جب تک مسلم لیگ کا سیلاب سڑکوں پر نکل نہیں آیا۔ لیگی جلوس کے شرکا ماڈل ٹاؤن سے نکلے۔ اس کے بعد سب چراغ بجھ گئے۔ لاہور شہر میں مسلم لیگ کے سوا کچھ نہ تھا۔‘

نواز شریف

سلمان غنی کے مطابق یہ لانگ مارچ ابھی کامونکی تک ہی پہنچا ہو گیا کہ میاں نواز شریف سے فوج کے سربراہ نے رابطہ کر کے انھیں یقین دلایا کہ ججوں کو بحال کیا جا رہا ہے۔ اس لیے آپ مارچ کو وہیں روک دیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس لانگ مارچ کو ایک عہد کا اختتام اور ایک نئے دور کی ابتدا سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

علامہ طاہر القادری کی انٹری اور تحریک انصاف کا طویل دھرنا

قادری

اس کامیاب سیاسی سرگرمی کے بعد 2013 میں ایک بڑی سیاسی سرگرمی علامہ طاہر القادری کی طرف سے ہوئی۔ ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے 2013 میں عین عام انتخابات کے اعلان سے قبل اسلام آباد میں ایک دھرنا اس اعلان کے ساتھ دیا کہ اس میں 50 لاکھ افراد شرکت کر رہے ہیں۔ عظیم چودہری کہتے ہیں کہ چند ہزار افراد پر مشتمل یہ دھرنا کسی کامیابی کے بغیر ختم ہو گیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے علامہ صاحب کو فیس سیونگ دینے کے لیے مسلم ق کی قیادت کے ذریعے اس سے مذاکرات کیے۔ طاہر القادری اس دھرنے کے لیے 2013 کے انتخابات کو رکوانا چاہتے تھے لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔

اس کوشش کی ناکامی کے بعد طاہر القادری ایک برس کے بعد یعنی اگست 2014 میں دوبارہ ماضی جیسے ہی ایک جلوس کے ساتھ جسے لانگ مارچ کا نام دیا گیا تھا، اس بار پاکستان تحریک انصاف بھی ان کے شانہ بشانہ اسلام آباد پہنچی۔

طاہر القادری نے اپنی تقریروں میں نظام کو لپیٹ دینے کے مطالبات کیے۔ ان کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے مطالبات کی نوعیت زیادہ سیاسی تھی۔

وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ نصف صدی سے سیاسی رپورٹنگ کرنے والے صحافی محمد نواز رضا کہتے ہیں: اگست کے اختتام تک یہ دونوں دھرنے علیحدہ علیحدہ رہے لیکن 30 اگست کو اکٹھے ہو گئے اور انھوں نے ان عمارتوں پر حملہ کر دیا جو ریاست پاکستان کے اقتدار کی علامت ہیں، سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندے کپڑے پہلے ہی لٹکائے جا چکے تھے۔

عمران خان

تحریک انصاف کا اسلام آباد کے ڈی چوک میں 2014 کے طویل دھرنے کا ایک منظر

پارلیمنٹ ہاؤس کی حفاظتی دیواروں پر حملہ کر کے انھیں بھی نقصان پہنچایا جا چکا تھا۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے کارکنان نے مشترکہ طور پر وزیر اعظم ہاؤس پر حملہ کیا۔ اس حملے میں کرین بھی شامل تھی تاکہ حفاظتی انتظامات کو تباہ کیا جا سکے۔

حملہ آور ایک طرف وزیر اعظم ہاؤس پر حملہ آور ہوئے تو دوسری طرف ایوان صدر کے اہم ترین گیٹ تک بھی جا پہنچے۔ پولیس نے ان کارروائیوں کو روکنے کی کوشش کی تو اس پر بھی حملہ کیا گیا۔ اسی حملے میں اسلام آباد پولیس کے ایک اعلیٰ افسر عصمت اللہ جونیجو شدید زخمی ہوئے۔

عظیم چودھری کے مطابق پی ٹی وی کا قبضہ چھڑا لینے کے بعد دھرنوں کا زور ٹوٹ گیا۔ علامہ طاہر القادری نے ستر روز کے بعد یہ کہہ کر دھرنا ختم کر دیا کہ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ اس دھرنے کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کا دھرنا مزید کمزور پڑ گیا۔

ادھر عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا یہ دھرنا 126 دن تک جاری رہا۔ یہ دھرنا اس اعتبار سے تاریخی ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت نے اتنا طویل دھرنا نہیں دیا۔

دھرنے کی قوت اور حاضری میں اونچ نیچ یقیناً آتی رہی لیکن چار ماہ سے بھی زائد عرصے تک اسے برقرار رکھنا سیاسی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے لیکن اس کے باوجود دھرنے کی قیادت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ آخر اس اتنے طویل احتجاج سے اس جماعت نے حاصل کیا کیا؟

عمران خان کا لانگ مارچ مطلوبہ نتائج حاصل کر پائے گا؟

اسی سوال سے ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا عوامل ہوتے ہیں جو اس سطح کی کسی سیاسی تحریک کی کامیابی کو یقینی بناتے ہیں؟

مؤرخ پروفیسر سلیم منصور خالد نے اس سوال کا جواب نسبتاً مختلف انداز میں دیا۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم یہ تجزیہ کر سکیں کہ مستقبل قریب میں عمران خان کی سیاسی مہم جوئی کتنی کامیاب رہے گی جس کے تحت وہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو اسلام آباد میں جمع کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں تو پاکستان کی تمام تر سیاسی حرکیات سمجھ میں آجائیں گی نیز اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔

’کوئی سیاسی مہم جوئی محض اس لیے کامیاب نہیں ہو جاتی کہ اس نے کتنے افراد جمع کر لیے اور کتنا بڑا دھرنا دے لیا۔ پس منظر میں متحرک بعض عوامل بھی اس میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس گتھی کو ہم یوں سلجھا سکتے ہیں کہ عمران خان کو ایک نجات دہندہ کی صورت لایا گیا لیکن یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ اس ناکام گروہ کو اقتدار کے ایوانوں سے نکالنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑی۔‘

’پاکستان کی مخصوص سیاسی ثقافت میں یہ ممکن نہیں کہ ایسے کسی گروہ کو واپسی کی اجازت دی جائے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ تازہ مہم جوئی کے نتیجے میں افرا تفری تو ضرور پیدا ہو گی لیکن کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی۔‘

پرو فیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد جو انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے سربراہ بھی ہیں، معاملات کو زیادہ بڑے تناظر میں دیکھتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بڑے منفرد تجربے سے گزر رہا ہے۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اب تک اس ملک میں بڑے پیمانے پر جو سیاسی تحرک ہوتے آئے ہیں، ان کی کامیابی کے پس پشت صرف سیاسی عوامل نہیں رہے، اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ موجودہ صورتحال کو غیر معمولی قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اداروں پر شخصیت کو ترجیح دینے کے رویے اور ماضی کی جرمنی جیسی قوم پرستی، بعض اہم فیصلوں پر اداروں کا یکسو نہ ہونا، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو کسی بڑے ہیجان اور اس کے نتیجے میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن یہ سب تباہ کن ہو گا۔

پاکستان ڈیویلپمنٹ فورم کے سینیئر فیلو ناصر الدین محمود اس صورتحال میں روشنی کی ایک کرن دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چار، پونے چار سال کے تجربے نے ملک کو اقتصادی اور سیاسی طور پر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

’اب اگر اسی خرابی کو دوبارہ راہ مل جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست اپنے پاؤں پر کبھی کھڑی نہ ہو پائے گی۔ اس لیے چند بنیادی اور سخت گیر فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں تاکہ آئین، جمہوریت اور معاشی استحکام کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ریاست کسی دوسرے انتخاب کا خطرہ مول لے ہی نہیں سکتی۔‘

اس پس منظر میں وہ کسی بھی مہم جوئی کو بے نتیجہ دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments