بندھے ہاتھ پاؤں نہ کھولے تو حکومت کارکردگی نہیں دکھا سکتی


عمران خان اپنی طبع میں ایک ایسے فرد ہے جو اپنے سوا کسی فرد یا ادارے کے احترام کے قائل نہیں ہے۔ اگر آپ ان کو اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان کردے تو آپ کی واہ واہ ورنہ ان کی جانب سے میر جعفر کا خطاب کسی کو بھی مل سکتا ہے۔ مگر کیا انہوں نے جو زبان مریم نواز کے لئے استعمال کی ہے وہ صرف ان کی عادت ہے یا یہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے؟ میری رائے میں اس قسم کا لوفر پن ایک گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے کہ جب نواز شریف کے خلاف سازش عروج پر پہنچ چکی تھی تو اس وقت مریم نواز ایک توانا شخصیت کے طور پر سامنے آئی کہ جنہوں نے ببانگ دہل مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو مصری صدر مرسی نہیں بننے دیں گی۔

پھر انہوں نے اپنی شخصیت کا سحر ایسے قائم کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی عوام سے مخاطب ہونے کے لئے پہنچتی ہے تو وہاں پر ایک جم غفیر ان کے استقبال اور خیالات سے آگاہی کے لیے موجود ہوتا ہے۔ اور اب سونے پر سہاگہ یہ بھی ہو گیا ہے کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار آ گئے ہیں کہ جن کی شہباز سپیڈ ایک اصطلاح کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اس لیے منصوبہ سازوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف کی قیادت اور ان افراد کی موجودگی کے بعد معاشی کامیابی، سیاسی کامیابی یا پھر اگلے انتخابات میں فتح، ان کو روکنا ناممکن ہو جائے گا اور ان کا بنا بنایا کھیل مکمل طور پر ہی بگڑ جائے گا۔

اس لیے مریم نواز کے حوالے سے اس طرح کی رکیک زبان استعمال کی جائے جو نواز شریف کے لئے ذہنی طور پر شدید تکلیف کا باعث ہو جبکہ مریم نواز بھی اس دباؤ میں آ جائے۔ حالانکہ ماضی قریب میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جب مریم نواز کو ہدف بنایا گیا تا کہ نواز شریف کو کمزور کیا جا سکے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیٹی باپ کی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بن کر سامنے آئے اور جدوجہد کا استعارہ بن گئی۔ مگر اس وقت دوبارہ سے مریم نواز کے حوالے سے بازاری سے بھی بڑھ کر زبان استعمال کرنا اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے کہ جس میں یہ ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ نون کو بڑے جلسوں کے انعقاد سے کیسے روکا جائے۔

مگر معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون دوبارہ بڑے اتحادی کے طور پر برسر اقتدار ہے اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نون اس منصوبہ بندی کو شکست دینے کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اس بات کا برملا اظہار کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں وفاق اور صوبوں میں کرپشن اور لوٹ مار بہت بڑھ گئی تھی مالم جبہ، ہیلی کاپٹر، توشہ خانہ، ادویات میں چور بازاری سمیت متعدد کیسز ملزمان کی گرفتاریوں کے منتظر ہیں۔ مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ حکومت قائم تو ہو گئی ہے مگر اس کے ہاتھ پاؤں روز اول سے ہی باندھ دیے گئے ہیں۔ جب ہاتھ پاؤں بندھے ہوں تو دیگر حوالوں سے بھی ہاتھ پاؤں چلانا ممکن نہیں رہتا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے اس کا برملا اظہار بھی کر دیا ہے کہ ہم اس نازک معاشی صورتحال میں ملک کی خاطر باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار ہو گئے مگر منصوبہ ساز ہے کہ ان کی نت نئی پلاننگ رک ہی نہیں رہی ہے۔

ویسے اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتا چلوں کہ بھکر کے ایک رکن اسمبلی جن کے خاندان کے افراد بھی اسمبلیوں کے رکن ہوتے ہیں نے مجھے 2018 کے انتخابی فراڈ سے قبل یہ بتایا کہ وہ مسلم لیگ نون کو چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ضلع کے تمام قابل ذکر افراد کو مسلم لیگ نون چھوڑنے پر اس حد تک مجبور کر دیا گیا تھا کہ بیان سے باہر ہے جب سب کو شامل کر لیا گیا تو میں نے ایک مقتدر ادارے کے افسر سے کہا کہ مجھے بخش دے مگر وہ نہ مانے یہاں تک کہ مجھے آزاد تک نہیں رہنے دیا۔

میں نے سوال کیا کہ آپ مشکلات کا مقابلہ کرتے، وہ بولے کہ مہدی صاحب کیسے؟ نواز شریف کے خلاف سازش کامیاب ہونے کے بعد حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ جب وہ جی ٹی روڈ مارچ کر رہے تھے تو اس وقت کیبل آپریٹروں کو براہ راست فون آ گئے فلاں چینل بند کر دو، فلاں کی آواز میوٹ کردو اور اگر ایسا نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں ہے۔ جب حکومت اتنی کمزور پڑ چکی تھی کہ وہ کیبل آپریٹر پر بھی ریاستی رٹ قائم نہیں کر سکتے تھے تو ہم جیسے لوگوں میں ان کا مقابلہ کرنے کی سکت کہاں سے آتی۔

یہ واقعہ اس سبب سے یاد آیا کہ ابھی بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں ایسی صورت میں یا تو ہاتھ پاؤں کسی طرح سے کھول لئے جائے اور جن کو گرفتار ہونا چاہیے ان کو گرفتار کر لیا جائے اور اگر ہاتھ پاؤں بندھے ہی رہیں گے تو پھر تو معاشی میدان میں بھی بندھے ہی ہوں گے اور معاشی میدان میں بھی کارکردگی دکھانا ممکن نہیں رہے گی۔ خیال رہے کہ جہاں عمران خان کے جلسوں کا مقصد یہ ہے کہ رکیک حملے کیے جائیں وہاں پر وہ اپنے دور کا ملبہ جس کا ذکر شیخ رشید نے بھی کیا ہے دوسروں کو صاف تک کرنے نہیں دینا چاہتے۔ اس لئے موجودہ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کا ملبہ صاف کرنے کے لئے اپنے ہاتھ کھلوا لے اور کھل کر اقدامات کریں کیوں کہ اگر انتشار ایسے ہی رہا تو پاکستان سری لنکا جیسے حالات کی طرف جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments