ارشد شریف اور دیگر صحافیوں کے خلاف مقدمات: ’دھمکیاں مل رہی ہیں کہ جب تم بلوچستان میں پیشی بھگتنے جاؤ گے تو اغوا کر لیا جائے گا‘

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے سربراہ اور ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ملک کے مختلف صوبوں میں درج ہونے والے مقدمات میں ان صحافیوں کو عدالت کی اجازت کے بغیر مقامی پولیس کے حوالے نہ کیا جائے۔

عدالت نے یہ حکم صحافی ارشد شریف، سمیع ابراہیم اور اینکر پرسن معید پیرزادہ کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں پر دیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن خلاف آئین ہے اور عدالت کسی بھی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جب ارشد شریف کی طرف سے دائر ہونے والی اس حفاظتی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کا اپنے مؤکل کے ساتھ رابطہ نہیں ہو رہا اس لیے وہ عدالت نہیں پہنچ سکے، تاہم بعد میں ارشد شریف عدالت میں پیش ہو گئے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل کے خلاف مزید مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘صحافیوں کو تو پچھلے تین سال سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔’

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ دیگر صحافیوں سمیع ابراہیم اور عمران ریاض کے خلاف بھی مقدمات درج ہوئے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’جب ادارے قانون کے مطابق اپنا کام کریں گے تو چیزیں خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔’

وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ تمام مقدمات وزیرِ خارجہ کے حکم پر ہو رہے ہیں تو پھر اس کے کیا اثرات ہوں گے، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اس طرح کے مقدمات درج ہوتے رہے ہیں۔

‘دھمکیاں مل رہی ہیں کہ جب تم بلوچستان میں پیشی بھگتنے جاؤ گے تو اغوا کر لیا جائے گا’

درخواست گزار ارشد شریف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق ان کے خلاف اب تک سات مقدمات درج ہو چکے ہیں اور یہ تمام مقدمات سندھ اور بلوچستان میں درج کیے گئے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ٹیلی فون پر دھمکیاں مل رہی ہیں کہ تم ملک بھر میں مقدمات کے سلسلے میں عدالتوں میں پیشیاں بھگتو گے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب تم بلوچستان کے علاقے پشین وغیرہ میں پیشی بھگتنے کے لیے جاؤ گے تو تمیں راستے میں سے ہی اغوا کر لیا جائے گا۔‘

رانا

ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ 75 سالوں سے ایک مائنڈ سیٹ کوارڈینیٹڈ کوششوں سے صحافیوں کی زبان بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

انطوں نے کہا ’ماضی میں ابصار عالم اور دیگر صحافیوں کے خلاف بھی اسی مائنڈ سیٹ نے مقدمات درج کروائے۔‘

ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے نے جب ان کے خلاف تحقیقات شروع کیں تو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے انھیں فون کیا اور کہا کہ ان مقدمات سے ان کی جماعت اور حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انھوں نے صحافی برادری کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’صحافی تنظیمیں اپنے باہمی احتلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کے معاملے پر اکٹھے ہیں اور وہ ان صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘

’صحافیوں پر مقدمات میں ہماری حکومت کا کردار نہیں ہے‘

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف درج مقدمات میں ان کی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ان کی جماعت نے ہمیشہ اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت کی ہے تو وہ کیسے صحافیوں کے بولنے پر پابندی عائد کروانے کے لیے ایسے اوچھے ہتکھنڈے استعمال کر سکتے ہیں۔‘

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ’ان کی جماعت نے تنقید کو برداشت کیا ہے اور ان کے لیے وہ صحافی بھی قابلِ احترام ہے جو موجودہ حکومت یا ان کی جماعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اینٹی کرپشن کے ادارے کی طرف سے پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری میں بھی حکوت کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’شیریں مزاری کے خلاف مقدمہ اس وقت درج ہوا تھا جب پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت تھی۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ

عدالتی سماعت میں کیا ہوا؟

حفاظتی ضمانت سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران ارشد شریف جب کمرہ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ انھوں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں جس پر ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ’انھیں کہا جا رہا ہے کہ انھیں سبق سیکھایا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انھیں ’راستے سے ہی اغوا کر لیا جائے گا‘۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک اور صحافی مطیع اللہ جان نے بھی ’کچھ دن سیر کی تھی‘۔

یہ بھی پڑھیے

ارشد شریف کا ہراس کا دعویٰ: صحافیوں کے خلاف شکایت کی صورت میں صحافتی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کیا جائے

فواد چوہدری نے سمیع ابراہیم کو تھپڑ کیوں مارا؟

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مبشر لقمان کو تھپڑ کیوں مارا؟

ویڈیو سکینڈل: ’احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی نوکری سے برطرفی کا فیصلہ‘

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کے خلاف ملک بھر میں مقدمات درج ہو رہے ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت صرف حفاظتی ضمانت دے سکتی ہے کیونکہ جہاں پر یہ مقدمات درج ہوئے ہیں وہ اس عدالت کے دائرہ سماعت میں نہیں آتے۔

ارشد شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ دیگر شہروں میں درج مقدمات کو اسلام آباد منتقل کرنے کے احکامات دیے جائیں جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ مقدمات کو ادھر ٹراسنفر کیا جا سکے۔

عدالت کے استفسار پر اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے بتایا کہ ’ارشد شریف کو سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملک بھر میں ان کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں اور ایسے میں وہ ہر جگہ کیسے اپنے دفاع کے لیے پیش ہو سکتے ہیں۔‘

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ کم از کم ایک ہفتے کے لیے انھیں حفاظتی ضمانت دی جائے کیونکہ درخواست گزار کے وکیل کے بقول ان کے موکل کے خلاف دس مقدمات درج ہیں۔

شیریں مزاری

چند روز قبل شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق درحواست پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ان مقدمات میں بغاوت پر اکسانے کی دفعات لگائی گئی ہیں۔‘

فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک واقعے کی ایک سے زائد ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک صحافی کو جذباتی نہیں ہونا چاہیے اور اسے ذمہ داری اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

چند روز قبل شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق درحواست پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ مطیع اللہ جان اور ایس ای سی پی افسر کو دن کی روشنی میں جبری طور پر غائب کیا گیا، اور اسد علی طور اور ابصار عالم جیسے صحافیوں کے خلاف جان لیوا کارروائیاں ہوئیں۔ اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔

اس حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کر کے قانون کی حکمرانی کو کمزور کیا‘۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی مقدمے میں کوئی ادارہ بھی مدعی ہے جس پر عدالت میں بتایا گیا کہ ان مقدمات میں عام شہری درخواست گزار ہیں جس میں انھوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ انھوں نے ویڈیو دیکھی ہیں جس سے ان کی دل ازاری ہوئی ہے اس لیے مقدمات درج کیے جائیں۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف اچانک سے مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت گذشتہ ایک سال سے صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کو سن رہی ہے۔

ان درخواستوں کی سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments