حجاب پر پابندی: میرا چہرہ میری مرضی


دنیا میں کووڈ سے اموات کا بازار گرم ہو، یا مہنگائی سے دنیا بھر کے لوگوں کا جینا دوبھر ہو رہا ہو، یا روس اور یوکرین کی جنگ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو، یا دنیا کے سر پر خوراک کی کمی کے بادل منڈلا رہے ہوں، دنیا بھر میں دانشوروں کا ایک طبقہ ہے جسے ایک ہی فکر لاحق ہے اور وہ عورت کے سر اور چہرے کی فکر ہے۔ ایک طبقہ اس بات کے لئے سرگرم ہے کہ خواتین کو حجاب پہنایا جائے اور ایک زیادہ طاقتور طبقہ ہے جو اس فکر میں دبلا ہو رہا ہے کہ جن خواتین نے حجاب پہنا ہوا ہے اسے کسی طرح اتار دیں۔ یہ طبقہ اس وہم میں مبتلا ہے کہ اگر کچھ خواتین نے حجاب پہن لیا تو انسانیت کا دم گھٹ جائے گا اور ان کی تہذیب کا ستیاناس ہو جائے گا۔

اس ذہنی وبا کا آغاز یورپ کے ممالک سے ہوا تھا۔ جرمنی، لاتویا، کو سووو، ہالینڈ، ناروے، ہالینڈ، سویٹزرلینڈ اور روس میں کہیں نہ کہیں مسلمان خواتین پر حجاب یا برقعہ پہننے پر قانونی پابندی لگائی گئی ہے۔ اور مسلمان ممالک میں سے ترکی اور الجیریا میں بھی حجاب پر پابندیاں لگائی گئیں لیکن گزشتہ سالوں میں ترکی میں یہ پابندیاں نرم کر دی گئیں۔ اسی طرح 1979 کے بعد سے ایران میں خواتین کو حجاب پہنانے کے لئے قوانین موجود ہیں۔

یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ حال ہی میں بھارت کی ریاست کرناٹک کے کچھ سکولوں اور کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی لگانے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ تنازع ابھی تک جاری ہے اور یہ بحث بھارتی عدالتوں تک جا پہنچی ہے۔ یہ اختلاف اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جب ایک کالج میں چھ مسلمان طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس روم میں جانے سے روک دیا گیا۔ اور کرناٹک کی حکومت نے اس قدم کا اس بنا پر دفاع کیا کہ حکومت کو کلاس روم کے اندر پہنے جانے والے لباس کے متعلق قوانین بنانے کا اختیار ہے اور دوسرے مذہب سے وابستہ طلباء اور طالبات کو بھی کلاس روم میں مذہبی علامات پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد اس پابندی کے خلاف اور حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دوسرے تعلیمی اداروں نے بھی کلاس روم میں حجاب پر پابندیاں لگانی شروع کر دیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ تنازع ہائی کورٹ میں گیا۔ اور ہائی کورٹ نے یہ عبوری حکم جاری کیا کہ فیصلہ تک تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ لیکن ابھی کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا تھا کہ اس بھارتی ریاست کی حکومت کی طرف سے یہ وضاحت جاری کر دی گئی کہ عدالت کے اس عبوری حکم کا اطلاق سکھ طلباء کی پگڑیوں پر نہیں ہو گا اور وہ بدستور کلاس روم میں اپنی پگڑیاں پہن کر جا سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر یہ نظریہ قبول کیا جائے کہ چونکہ سکولوں اور کالجوں میں طلباء اور طالبات کو مذہبی علامات پہن کر یا آویزاں کر کے کلاس روم میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور حجاب بھی ایک مذہبی علامت ہے، اس لئے طالبات حجاب پہن کر تعلیمی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہو سکتیں تو پھر یہ سوال اٹھے گا کہ اس معیار کے مطابق تو سکھ احباب کی پگڑی بھی ایک مذہبی علامت ہے۔ اگر حجاب پر پابندی لگائی جائے اور پگڑی کی اجازت دی جائے تو کیا یہ دہرا معیار نہیں؟ اس بارے میں پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔

بہر حال 15 مارچ 2022 کو کرناٹک ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔ اور ان تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی برقرار رکھی۔ جب 129 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا تو اس کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گو بہت سے غیر متعلقہ حوالے درج کر کے اس فیصلہ کو معتبر بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس فیصلہ نے سوالات کا جواب دینے اور تنازع کو حل کرنے کی بجائے بہت سے نئے سوالات اور تنازعات کو جنم دیا ہے۔

سب سے پہلے یہ بات قابل توجہ ہے کہ کسی طالبہ کا حجاب لینا کوئی ایسا فعل نہیں ہے جس سے کسی اور شہری کے حقوق متاثر ہو رہے ہوں یا ریاست کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو رہا ہو۔ یہ ان کا ذاتی فعل ہے اور انہیں اس سے روکنا ان کی شخصی آزادی میں غیر ضروری دخل اندازی ہے۔ ریاست کے تمام ستونوں کا کام بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے نہ کہ ان میں بے جا کی دخل اندازی کر کے شہریوں کی شخصی آزادی کو تلف کرنا۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور ریاست کی حکومت اور عدالت کو اس معاملہ میں دخل دینے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے تھا۔

بہر حال جب کوئی ریاستی ادارہ اپنی حدود سے باہر نکل کر شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق میں دخل در معقولات کا سلسلہ شروع کرے تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو کہ دلدل میں پھنس جائے۔ وہ جتنا ہاتھ پاؤں مارتا ہے وہ اس دلدل میں اور بری طرح پھنستا جاتا ہے۔ اور یہ تفصیلی فیصلہ اس کی عمدہ مثال ہے۔

اس فیصلہ کے آغاز سے ہی عدالت اس بحث میں الجھ گئی کہ کیا حجاب لینا اسلام کی کوئی essential religious practice یعنی کوئی ”ضروری مذہبی عمل“ ہے کہ نہیں۔ اور خود ”ضروری مذہبی عمل“ کی یہ تعریف کی کہ اس سے مراد ایسا مذہبی عمل ہو گا جس کو ترک کرنے سے وہ مذہب قائم نہ رہ سکے۔ اول تو یہ تعریف ہی ایک نامعقول تعریف ہے۔ اگر ہم ایک لمحہ کے لئے حجاب پر اٹھنے والی بحث کو بھول جائیں تو بھی سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عدالت کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کسی مذہب کا کون سا حکم اس مذہب کے مطابق ضروری حکم ہے اور کون سا حکم ایسا ہے جسے غیر ضروری قرار دیا جا سکتا ہے۔

ذرا تصور فرمائیں کہ ایک عدالت میں ہندو جج صاحبان بیٹھ کر یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اسلامی احکامات میں سے کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ یا پاکستان کی عدالت کے مسلمان جج صاحبان یہ فیصلہ کرنے لگ جائیں کہ ہندو احباب کے لئے کون سے مذہبی احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور کون سے احکامات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ عقل اس طریق کو قبول نہیں کر سکتی۔

ہر مذہب میں بہت سے مختلف فرقے موجود ہیں اور وہ ان معاملات میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ اور ہر فرقہ میں مختلف افراد ایسے معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ ہندو دھرم کی مثال لے لیں۔ سناتن دھرم سے وابستہ احباب مختلف دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش کو سب سے ضروری مذہبی فرض قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف آریہ سماج سے وابستہ احباب توحید کے قائل ہیں اور وہ اس پرستش کو ہندو مذہب کی بنیاد کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ اور دونوں ہندو مت سے وابستہ ہیں۔

اس لیے ایسے امور پر ہر فرد کو خود فیصلہ کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ اور کسی ادارے کو اس میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ شہریوں کو یہ بھاشن دے کہ اس مذہبی حکم پر عمل کرو اور اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ ہر فرد خود کرے گا۔

عدالت نے بلا وجہ مذہبی آزادی کو essential religious practice کے پلے باندھ دیا۔ جیسا کہ اس فیصلہ میں ذکر ہے کہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 25 میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اور اس شق کے مطابق ہر شخص کو امن عامہ اخلاقیات اور صحت کے تقاضوں کے تابع اپنے مذہب کا اظہار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہے۔ بھارتی آئین کی اس شق میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ اگر کوئی حکم نہایت ضروری ہو گا تو اس پر عمل کی اجازت ملے گی ورنہ نہیں ملے گی۔ اگر اس عذر کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر کسی کی مذہبی اور شخصی آزادی محفوظ نہیں رہے گی۔

بظاہر یہ عدالتی فیصلہ حجاب پر پابندی کے حق میں آیا ہے اور مقصد مسلمانوں کو دق کرنا ہے لیکن اس نے بہت سے فتنوں کے دروازے کھول دیے ہیں اور اگر اس سوچ کا راستہ نہ روکا گیا تو پھر نازی جرمنی کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ جب ہٹلر نے یہودیوں پر مظالم شروع کیے تو جرمن قوم کی بڑی تعداد تالیاں پیٹ رہی تھی لیکن جب خود پورا جرمنی ان پابندیوں اور مظالم کی زد میں آیا تو وہ بے بس ہو چکے تھے۔ وہ مظالم بھی سہ رہے تھے اور تالیاں پیٹنے پر بھی مجبور تھے ورنہ خدشہ تھا کہ خفیہ پولیس ان کو اٹھا کر نہ لے جائے۔ اس لئے آئندہ کالم میں بھی اس عدالتی فیصلہ کے دوسرے پہلوؤں پر کچھ گزارشات پیش کی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments