سری لنکا۔ طویل خانہ جنگی سے معاشی دیوالیہ پن تک۔ ایک تجزیہ اور مشاہدہ


غریب، پس ماندہ اور تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کا یہ المیہ ہے کہ ان کی خستہ حال معیشت کا ڈھانچہ غیر ملکی قرضہ جات پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ قرضے عالمی مالیاتی اداروں، تیل پیدا کرنے والے امیر ممالک امریکہ چین اور دیگر یورپی ملکوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ قرضہ جات جن مقاصد کے لئے لئے جاتے ہیں ان کا بیشتر حصہ ان مقاصد پر خرچ بھی نہیں ہوتا اور خرد برد ہو جاتا ہے۔ تخفیف غربت، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے مسائل، بڑھتی ہوئی آبادی، توانائی کا بحران، مہنگائی جیسے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور قرضوں کی رقم بڑھتی رہتی ہے۔ ایک بیرونی قرض کو چکانے کے لئے کسی دوسرے مالیاتی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور قرض اور سود کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔

بسا اوقات بجٹ کی تشکیل کے وقت ( پاکستان) ایک بڑی رقم بیرونی قرضے کی مد میں پہلے ہی مختص کر دی جاتی ہے جو صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے حقیقی رقم مالیاتی اداروں سے یا تو ملتی ہی نہیں اور اگر مل بھی جائے تو ایسی کڑی شرائط پر کہ یا تو عوام بھوکی مر جائے یا پھر ملک کے بچے کھچے اثاثے گروی رکھنے پڑیں۔

یہی حال آج کل جنوبی ایشا کے ملک سری لنکا کا ہے جس کی سیاسی، اقتصادی، اور معاشی حالات آج کل تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اگر اس جزیرے کے سیاسی حالات مزید ابتر ہو گئے اور بیرونی قرضوں کا انتظام نہیں ہو سکا تو 22 ملین آبادی والے اس ملک کو باقاعدہ طور پر دیوالیہ قرار دے دیا جائے گا۔ گو کہ سری لنکن حکومت نے خود کو دیوالیہ پن کے مترادف قرار دیا ہے لیکن اب یہ سیاحتی ملک عالمی مالیاتی اداروں، ہندوستان، اور چین کے رحم و کرم پر ہے۔

اس سے قبل ہم اس چھوٹے سے جنوبی ایشیائی ملک کی اقتصادی اور معاشی بدحالی کا ایک جائزہ لیں ہم ان سیاسی محرکات پر نظر ڈالتے ہیں جس نے سری لنکا کو معاشی دیوالیہ پن تک پہنچا دیا۔

سری لنکا کی سیاسی اور معاشی تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ اس کی 26 سالہ طویل خانہ جنگی کا ہے جو 1983 سے شروع ہو کر 2009 میں ختم ہوئی۔ یہ خانہ جنگی دراصل سری لنکا کی اقلیتی آبادی یعنی تاملوں کی حقوق کی جنگ تھی جس نے آگے چل کر ایک پر تشدد خانہ کی شکل اختیار کر لی۔

سری لنکا میں اس وقت دو قومیتیں آباد ہیں۔ پہلی سنہالہ یا سنہالی قوم جو ملک کی اکثریتی آبادی ہے دوسری تامل جو اقلیت میں ہیں۔ سری لنکن تامل ملک کی کل آبادی کا تقریباً 15 فی صد کے قریب ہے۔ تاملوں کی آبادی کا 70 فی صد اس جزیرے کے شمالی اور مشرقی علاقہ جات میں آباد ہیں۔

سری لنکن خانہ جنگی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اکثریت آبادی یعنی سنہالیوں نے اقلیتوں تاملوں کے جائز حقوق غصب کرنا شروع کیے۔ محدود وسائل کا بڑا حصہ اکثریتی آبادی پر خرچ ہوتا تھا۔ تعلیم، صحت، روزگار ہر جگہ سنہالیوں کو فوقیت دی جاتی تھی۔ تمام بڑے سیاسی اور انتظامی عہدے سنہالیوں کے قبضے میں تھے۔ تاملوں کے ساتھ اس زیادتی اور حق تلفی میں ریاست اور حکومتیں برابر کی شریک تھیں۔ موروثی سیاست جو جنوبی ایشیائی ممالک کی اقتصادی اور معاشی بدحالی میں ایک خاص مقام رکھتی ہے سری لنکا بھی اس خصوصیت سے خالی نہیں تھا۔

یوں تو سری لنکا میں متعدد با اثر سیاسی خاندان ہیں جو اس ملک کی آزادی یعنی 1948 سے سیاست اور معیشت پر چھائے رہے ہیں لیک اس مختصر سے مضمون میں ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔ صرف دو خاندان ایسے ہیں جن کا سری لنکا کی حالیہ سیاسی اور معاشی بدحالی سے گہرا تعلق ہے۔ پہلا خاندان بندریکا نائکے کا ہے جو فی الوقت سیاست سے باہر ہے۔ لیکن اس سیاسی خانوادے کے تین افراد سری لنکا کے صدر اور وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ 1960 میں سری ماوو بندیکا نائکے سری لنکا کی وزیر اعظم بنیں۔ جو دنیا کی پہلی خاتون ؤزیر اعظم تھیں اور تین مرتبہ اس عہدے پر فائز رہیں۔ پھر 1970 میں ان کی صاحبزادی چندریکا کمادا ٹنگا ملک کی وزیر اعظم بنیں۔

دوسرا با اثر اور طاقت ور سیاسی خاندان راجہ پاکسے کا ہے جس کا سری لنکا کی اقتصادی اور معاشی بدحالی میں بڑا ہاتھ ہے۔ اس خاندان کا ایک فرد ابھی تک صدارت کے عہدے پر فائز ہے۔ 2005 میں یہ خاندان دیہی سیاست سے شہری سیاست میں داخل ہوا اور پھر دو دہائیوں تک طاقت اور سیاست کے ایوانوں پر چھایا رہا۔ اس خاندان کا سرخیل مہندرا راجہ پاکسے تھا جو 2005 سے 2015 تک سری لنکا کا صدر رہا پھر ایک وقفے کے بعد دوبارہ سری لنکا کا وزیر اعظم بن گیا۔ اس کا بڑا بھائی گوٹا بایا ابھی تک ملک کے صدر کے عہدے پر براجمان ہے۔ اس کے علاوہ اس کے دو اور بھائیوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے پاس ملک کی اہم وزارتیں ہیں۔ اس خاندان پر کرپشن، مخالفین پر طاقت کے بے جا استعمال، معاشی تباہی اور جنگی جرائم کے بے شمار الزامات ہیں۔

معاشی دیوالیہ پن کے بعد سری لنکا میں ہنگامے پھوٹ پڑے عوام اس خاندان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی۔ ضروریات زندگی کی ہر شے نایاب ہو گئی۔ بجلی اور پیٹرول کی قلت ہو گئی۔ عوام وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عوام کے شدید دباؤ میں آ کر راجہ پاکسا نے وزے ر اعظم کے عہدے سے استعفا دے دیا اور ایک نئے وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کا انتخاب کیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ میں 11 مئی 2022 کو ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے ایک باعزت با اثر اور طاقتور سیاسی خاندان نے طاقت اور کرپشن کے نشے میں اس چھوٹے سے سیاحتی ملک کو معاشی اور سیاسی تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔

اس سے پیشتر کہ ہم سری لنکا کی طویل خانہ جنگی اور اس کے بھیانک اثرات کی طرف آئیں۔ چند جملے اس مشاہدے کے بھی تحریر کر دیے جائیں جو راقم کو سری لنکا میں متعدد بار ہوا جس کی بنیاد پر یہ مضمون تحریر کیا گیا۔ جزیرہ سیلون حالیہ سری لنکا بحر ہند میں واقع ہندوستان سے متصل ایک خوبصورت جزیرہ ہے۔ 1948 تک یہ انگریزوں کے قبضے میں تھا اور کولونیل دور کہلاتا تھا نہایت ہی پر امن، پرسکون، طویل ساحلی پٹی، بحر ہند کا نیلگوں پانی، ناریل کے درختوں کے جھنڈ، کیلوں کے باغات، سیاحوں کے لئے پرکشش ماحول پیش کرتے تھے۔ راقم کو متعدد بار سری لنکا جانے اور مختصر قیام کا موقع ملا ہے۔ فیملی کے کچھ انتہائی قریبی عزیز دارالحکومت کولمبو سے متصل شہر نیگمبو میں رہائش پذیر تھے جن کو سری لنکن حکومت نے اپنی ایوی ایشن انڈسٹری اور ایر لائن کی ٹیکنیکل ایڈوایز کے لیے پاکستان سے بلایا تھا۔ کیونکہ ضرورت کی ہر شے مہیا تھی اس لیے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سری لنکا کے سارے سیاحتی مقامات دیکھ لئے سوائے شمالی علاقہ جات کے جہاں تاملوں کی خانہ جنگی شروع ہوئے چند ہی سال گزرے تھے یہ 1986۔ 87 کا زمانہ تھا۔ تاہم جنوبی علاقے جس میں کولمبو، نیگمبو، گال، کینڈی، نوار ایلیا اور دیگر علاقے شامل تھے اس شورش سے نسبتاً محفوظ تھے لیکن خانہ جنگی کے اثرات اور حکومت کے حفاظتی اقدامات صاف نظر آتے تھے۔ غربت اس دور میں بھی بہت زیادہ تھی لیکن تعلیم اور صحت کی سہولیات نسبتاً بہتر تھیں یہی وجہ ہے کہ آج سری لنکا میں تعلیمی شرح 93 فی صد ہے جو دوسرے غریب اور پس ماندہ جنوبی ایشیائی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

آخری مرتبہ جانے کا اتفاق 1997 میں ہوا جب خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی۔ کولمبو انٹرنیشنل ائرپورٹ چاروں طرف سے سخت حفاظتی اقدامات سے جکڑا ہوا تھا اور وہاں تک پہنچنا اور نکلنا نہایت دشوار مرحلہ تھا کیونکہ ائرپورٹ پر باغیوں کے حملے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا جو بالآخر 2001 میں ہو ہی گیا اور نصف کے قریب ایر لاینر جہاز تباہ ہو گئے جو سری لنکن ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے ایک بھاری نقصان تھا۔ اس کے باوجود تحریر نگار کو اس جزیرے کو بار بار دیکھنے اور سیاحت کا تجربہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی سیاحت سے زیادہ اچھا لگا۔

چلئے اب سری لنکا کی اس خانہ جنگی کی طرف واپس آتے ہیں جس نے اس جزیرے کی سیاحت اور معیشت دونوں کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا رہی سہی کسر بدعنوان سیاست دانوں نے پوری کر دی۔ اپنے حقوق نہ ملنے پر سری لنکن تاملوں نے 1976 میں ایک تنظیم کھڑی کری جس کو لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام عرف عام میں تامل ٹائیگرز کا نام دیا گیا۔ یہ ایک گوریلا تنظیم تھی جو سری لنکا کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں ایک آزاد تامل مملکت کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اس تنظیم کا سربراہ ایک بدنام زمانہ شخص ویلو پلای پر بھاکرن تھا۔ تامل ٹائیگرز دنیا کی سب سے خطرناک اور منظم دہشت گرد تنظیم تھی جس کے پاس جدید اسلحے کے ساتھ جنگی بحری جہاز اور لڑاکا طیارہ موجود تھا۔

اسی خطرناک تنظیم نے جدید دنیا میں خود کش حملوں کا طریقہ بھی متعارف کروایا۔ 1983 میں اس وقت کی سری لنکن حکومت اور باغیوں میں شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ 1985 تک تامل گوریلوں نے شمالی علاقے کے شہر جافنا پر قبضہ کر لیا اور اس کو اپنا مستقل ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ اپنے اسلحہ جات اور دیگر جنگی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تامل گوریلوں کو فنڈز کی سخت ضرورت تھی۔ ان مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس تنظیم نے وہی طریقہ اپنایا جو دنیا کی دیگر دہشت گرد تنظیمیں اپناتی ہیں یعنی بینکوں کو لوٹنا، منشیات کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاؤ ان وغیرہ۔ لیکن اس تنظیم کو زیادہ تر مالی امداد ان تاملوں کی طرف سے ملتی تھی جو بیرون ملک مقیم تھے۔

اسی دوران ہندوستان نے بھی اپنی امن فوج سری لنکن حکومت اور باغیوں کے درمیان اس خانہ جنگی کو ختم کرانے کے لئے بھیجی کیونکہ ایک ملین کے قریب تامل سرحد کے اس پار ہندوستانی ریاست تامل ناڈو میں رہتے ہیں۔ لیکن ان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اور بھارتی فوج 1990 میں واپس چلیں گئی۔ اس کے بعد تامل باغیوں نے سری لنکن فوج پر کئی بڑے اور کامیاب حملے کیے۔

21 مئی 1991 کو ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی ایک خود کش حملے میں مارے گئے اس حملے میں بھی تامل دہشت گردوں کا ہاتھ تھا۔ مئی 93 میں تامل ٹائیگرز نے اس وقت کے سری لنکن صدر رانا سنگھے پریمی داسا کو قتل کر دیا۔

جولائی 2001 میں کولمبو انٹر نیشنل ائرپورٹ پر باغیوں کا ایک بڑا حملہ ہوا جس میں سری لنکن ایوی ایشن انڈسٹری کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ان تمام دہشت گرد کارروائیوں کے بعد سری لنکن حکومت اور یو این او نے تامل ٹائیگرز کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ دنیا کے دیگر 33 ممالک نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ آخر کار 26 سالہ خانہ جنگی کے بعد سری لنکا کی آرمڈ فورسز نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے دی اور باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ تنظیم کا سربراہ پربھاکرن مارا گیا اور شمال اور مشرقی علاقوں جس میں جافنا اور ٹرنکو مالی کی بندرگاہ شامل ہے سری لنکن فوج کا قبضہ ہو گیا۔

یوں مئی 2009 کو سرکاری طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ 26 سالہ اس طویل خانہ جنگی کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی اثرات بھی بڑے بھیانک نکلے۔ یونائٹیڈ نیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس خانہ جنگی میں 80 ہزار سے ایک لاکھ افراد مارے گئے۔ جبکہ جنگ کے خاتمے کے آخری دنوں میں سری لنکن فوج نے چالیس ہزار تامل شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ اس دوران فوج پر عورتوں کی عصمت دری، اغوا، معصوم شہریوں پر ظلم و تشدد کے سینکڑوں الزامات اور واقعات سامنے آئے۔

حقوق انسانی کی متعدد عالمی تنظیموں اور خود یو این کی طرف سے سری لنکن حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ تاملوں کے خلاف ہونے والی ہیومن رائٹس کی ان خلاف ورزیوں کی تحقیق کے لئے کوئی کمیشن بٹھائیں تاکہ جنگی جرائم کی حقیقت سامنے آ سکے لیکن سری لنکن حکومت نے ان سارے الزامات کو مسترد کر دیا اور کسی قسم کا کوئی کمیشن بنانے سے انکار کر دیا۔

اس وقت سری لنکا اپنی 70 سالہ تاریخ کے بدترین سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ بھاری قرضوں کی واپسی اور نئے قرضوں کی عدم دستیابی نے اس چھوٹے سے جزیرائی ملک کو دیوالیہ پن کے قریب پہنچا دیا ہے۔ غذائی اجناس کی ملک بھر میں شدید قلت ہے اور غذائی انفلیشن ملک میں 30 فی صد سے بھی بڑھ چکا ہے۔ پیٹرول کے لئے لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور عوام آٹھ آٹھ گھنٹوں تک انتظار کرتے رہتے ہیں۔ یہی حال بجلی اور گیس کا ہے وہ بھی نایاب ہے۔

سری لنکا میں اس وقت دیگر غریب ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ انفلیشن ریٹ یا مہنگائی ہے اس کی وجہ کووڈ لاک ڈاؤن اور سیاحتی انڈسٹری کا خاتمہ ہے۔

اس معاشی زوال کی دوسری بڑی وجہ سری لنکا کی کرنسی یعنی روپے کی گراوٹ ہے جو آئی ایم ایف کے کہنے پر کی گئی ہے۔ سری لنکا کے وزیر خزانہ کے ایک بیان کے مطابق فروری 2022 میں زرمبادلہ کے ذخائر 2.31 بلین یو ایس ڈالر تھے جو مارچ میں گر کر 1.93 ارب ڈالر رہ گئے اور ملک کے دیوالیہ ہونے تک ایک ارب سے بھی کم رہ گئے۔

سری لنکا کا غیر ملکی قرضہ 51 بلین ڈالر تھا اور اس کو اس سال 8.6 بلین ڈالرز قرضوں کی واپسی کی مد میں ادائیگیاں کرنی تھی جو دیوالیہ ہونے کی وجہ سے روک دیں گئیں۔ اس وقت اوپن مارکیٹ میں سری لنکن کرنسی کی گراوٹ ایک یو ایس ڈالر تقریباً 400 روپے کے برابر ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سری لنکا میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور عوام سڑکوں پر آ گئی۔ وہ پورے راجہ پاکسے خاندان کو حکومت اور سیاست سے نکال باہر کرنے کی مانگ کر رہے تھے۔ جو دراصل اپنی موروثی سیاست اور بدترین کرپشن کی وجہ سے اس سیاحتی ملک کو معاشی بحران کے اس درجہ پہ لے آئے کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔

عالمی مالیاتی اداروں کے علاوہ سری لنکا نے ہندوستان، بنگلہ دیش اور چین سے بھی قرض لیا ہوا ہے۔

فروری 2022 میں ہندوستان نے سری لنکا کو 500 ملین ڈالر کی امداد دی جس سے تیل کی خریداری کرنی تھی۔ مارچ میں انڈیا نے سری لنکا کو ایک ارب ڈالر کی لائن آف کریڈٹ دی جو ضروری غذائی اشیا اور دواؤں کی خریداری کے لئے تھی۔ یہاں تک کے بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ملک نے بھی جون 2021 میں سری لنکن عوام کے لئے 200 ملین ڈالرز کی امداد دی۔

اس کے علاوہ دیوالیہ ہونے کے بعد بھارت سرکار نے سری لنکا کے لئے دو ارب ڈالرز کی مزید امداد کا وعدہ کیا ہے جو خوراک اور تیل کی خریداری پر خرچ ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت ہندوستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 600 بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ چین نے بھی سری لنکا کو قرضہ فراہم کیا ہے لیکن قرض کی واپسی کے لئے وہ کسی قسم کی شرائط نرم کرنے کو تیار نہی ہوتا اور اس قرض کی شرح سود انتہائی مہنگی ہوتی ہے۔ چین کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ راجہ پاکسا خاندان نے اپنے آبائی علاقے میں واقع ہیمن ٹوٹا کی بندر گاہ کی ترقی کے لئے چین سے قرض لیا حالانکہ یہ ایک بے سود منصوبہ تھا۔

قرض کی واپسی کی عدم ادائیگی کی صورت میں چین نے سری لنکا پر دباؤ ڈال کر نہ صرف پوری پورٹ ایک ارب ڈالر میں خرید لی بلکہ بندرگاہ کے آس پاس کی 100 ایکڑ زمین بھی حاصل کر لی۔ اس طرح سے سری لنکا چین کے قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کچھ ہماری گوادر پورٹ کی بھی ہے جو چین کے 5 ارب ڈالرز قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں پاکستان کے اثاثے چین کی گود میں جا گریں گے۔

تازہ ترین صورت حال کے مطابق سری لنکن حکومت نے 51 بلین ڈالرز کے ڈیفالٹ سے اپنے ملک کو دیوالیہ قرار دے دیا ہے۔

غصے سے بپھری ہوئی سری لنکن پبلک کو آئی ایم ایف کا لولی پاپ دے دیا گیا ہے کہ مذاکرات جاری ہیں اور جاری رہیں گے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے مصیبت کی اس گھڑی میں کسی کے کام نہی آتے۔ اور نہ ہی اس دیوالیہ ملک کے کام آئیں گے۔

پاکستان کو سری لنکا کے اس سیاسی اور معاشی بحران اور دیوالیہ پن سے سبق سیکھنا چاہیے۔ 130 ارب ڈالرز کے پہاڑ جیسے قرضے کی واپسی کے لئے صدیاں چاہیے۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک روز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments