تلمیحات راشد : ایک تعارفی جائزہ۔ ڈاکٹر جمیل الرحمان ملک


یہ تحریر ڈاکٹر عابد خورشید کی تصنیف کردہ کتاب تلیحات راشد کے تعارف پر مبنی ہے جس سے ن م راشد کے فکر و فن کو سمجھنے میں معاونت فراہم ہوتی ہے۔

تلمیحات راشد کے خالق ڈاکٹر عابد خورشید صاحب اس وقت غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ ذاتی طور پر میں جہاں ان کی محبت کا اسیر ہوں وہاں ان کی علمی، ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں سے متاثر بھی ہوں۔ شاید یہ ان کی مقناطیسی شخصیت اور بے پایاں خلوص کا اثر ہے کہ جو بھی ان سے ملا پھر انھیں کا ہو رہا۔

ڈاکٹر عابد خورشید ایک خوبصورت شاعر، ادیب، نکتہ رس نقاد اور ژرف نگاہ محقق ہیں، جن کا وطن مالوف شہر سرگودھا ہے۔ ان کا ایک معتبر حوالہ ڈاکٹر وزیر آغا بھی ہیں، ان کی محبت اور وابستگی کی علامت ان کی کتاب ’ذکر وزیر آغا‘ کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ کتاب الگ سے تبصرے کی متقاضی ہے۔ سر دست ان کی تحقیقی کتاب ’تلمیحات راشد‘ پیش نظر ہے۔ یہ کتاب ان کے ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انجمن ترقی اردو پاکستان، کرا چی نے سال 2019 ع میں بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ کتاب کا سرورق، کاغذ اور معیار طباعت بہت دیدہ زیب ہیں۔

کتاب کا انتساب پروفیسر ڈاکٹر سید عامر سہیل صاحب کے نام ہے جو اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں شعبہ اردو کے چیئرمین ہیں۔ فہرست مضامین پر ایک اچٹتی نظر ڈالیں تو پیش لفظ کے سامنے زاہدہ حنا کا نام لکھا ہے جب کہ پس نوشت کے عنوان سے صاحب کتاب نے زیر نظر کتاب کے در و بست پر بات کی ہے۔ کتاب چھے حصوں میں منقسم ہے :

1۔ تلمیح کیا ہے؟
2۔ ’ماورا‘ میں شامل تلمیحات کا جائزہ
3۔ ’ایران میں اجنبی‘ میں شامل تلمیحات کا جائزہ
4۔ ’لا =انسان ”میں موجود تلمیحات کا جائزہ
5۔ ’گماں کا ممکن‘ میں شامل تلمیحات کا جائزہ
6۔ ’باقیات راشد‘ میں شامل تلمیحات کا جائزہ

کتاب کے آخر میں حاصل مطالعہ اور کتابیات کو شامل کر کے اس کتاب کو وقیع بنایا گیا ہے۔ زاہدہ حنا نے ڈاکٹر صاحب کے کام کو بجا طور پر سراہا ہے ہے اور ڈاکٹر عابد خورشید کے اس خیال کی تائید کی کہ راشد کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی بھی تلمیح کو اس کے تاریخی پس منظر سے نکال کر نئے منظر نامے میں پیش کرنے کے انداز سے واقف ہیں، یہ

انفرادیت مشکل سے ہی کسی شاعر میں نظر آتی ہے۔

کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر عابد خورشید نے اس تصور کی نفی کی ہے کہ ن م راشد کو ماضی سے ایک طرح کی چڑ تھی۔ ان کا خیال ہے کہ راشد کو ماضی سے نہیں بلکہ ماضی قریب سے چڑ تھی۔ راشد اپنے ماضی سے کہیں بھاگتا ہوا نظر نہیں آتا اس حوالے سے ان کی ان نظموں یعنی حسن کوزہ گر، اسرافیل کی موت، ابو لہب کی شادی، بوئے آدم زاد اور سبا ویراں کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔

تلمیح (allusion) علم بیان کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کا استعمال شاعروں اور ادیبوں کے ہاں عام ہے جس سے نہ صرف شعر کے صوری حسن میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معنی و مفہوم اور خیال کی ترسیل میں بھی سہولت رہتی ہے۔

لغات میں تلمیح کے یہ معنی درج ہوئے ہیں :
* علم بیان کی اصطلاح میں کسی قصے وغیرہ کا کلام میں اشارہ کرنا۔ ( فرہنگ آصفیہ)

* اچٹتی نگاہ ڈالنا۔ کلام میں کسی قصے کی طرف اشارہ کرنا۔ نظم یا نثر میں ایسے الفاظ جن سے کوئی قصہ وابستہ ہو اور ان الفاظ کے لانے سے وہ قصہ قاری یا سامع کے ذہن میں تازہ ہو جائے۔ ( علمی اردو لغت)

* مختصر الفاظ میں کسی واقعے یا روایت کی طرف اشارہ کرنا اصطلاح ادب میں ایک صنعت۔ شعر یا نثر میں اشارے کے طور پر کسی قصے واقعے یا حدیث کے مضمون کا ذکر اختصار کے ساتھ اس طرح کرنا کہ اس کی تشریح کے بغیر مطلب سمجھ میں آ جائے (فرہنگ کارواں )

تلمیحات کا ایک تہذیبی پس منظر ہوتا ہے اور کسی سماج میں کسی تخلیق کا رواج پا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ سماج اس تلمیح کے بطن میں پائی جانے والی باطنی واردات پر کامل یقین رکھتا ہے۔ محمود نیازی نے اپنی کتاب کتاب ’تلمیحات غالب‘ میں لکھا ہے :

تلمیح کی بنیاد مشہورات پر ہے یعنی جو قصہ جس طرح بھی عام لوگوں میں مشہور ہے اس کو ویسا ہی سمجھا جاتا ہے اس میں نقل، عقل، تنقید اور تبصرہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان سے ہمارے ادیبوں اور شعرا کے خیالات اور قوت تخلیق کا اندازہ ہوتا ہے اور ضرورت کے وقت تشبیہ دینے میں آسانی ہوتی ہے۔

جس طرح تشبیہ اور استعارہ میں پائے جانے والے باریک امتیاز کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اسی طرح تلمیح، اصطلاح، اقتباس، ضرب المثل اور محاورہ وغیرہ میں بھی پائے جانے والے فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ ڈاکٹر عابد خورشید نے بڑی عمدگی اور صراحت سے تلمیحاتی مباحث کو اس کتاب میں سمویا ہے۔

نظری مباحث کے بعد تلمیحات کا استعمال ہمیں راشد کی شعری بنت کاری میں نظر آتا ہے۔ راشد نے مجموعی طور پر اپنا تخلیقی رشتہ اسلامی اساطیر سے جوڑے رکھا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عابد خورشید نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ راشد کے ہاں علامت، استعارہ یا تلمیحات کے ممکنہ تجربات نے ان کی شاعری پر مختلف الجہات اثرات مرتسم کیے اور ایک نئی متنی تشکیل اردو نظم کے منظر نامے پر ظہور پذیر ہوئی۔

تلمیحات راشد میں راشد کے چاروں مطبوعہ شعری مجموعوں یعنی ماورا، ایران میں اجنبی، گماں کا ممکن اور لا = انسان کے علاوہ ان کے غیر مطبوعہ کلام میں در آنے والی تمام تر تلمیحات کا خوبصورتی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ان تلمیحات کے باطن میں اترنے کے بعد ہی راشد کی نظموں کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ راشد شناسی اور راشد فہمی کے لیے ضروری ہے کہ ’تلمیحات راشد‘ سے روشنی حاصل کی جائے۔

ڈاکٹر عابد خورشید نے راشد کے کلام میں برتی جانے والی تلمیحات کی گرہوں کو کھولنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ پہلی سطر میں تلمیح کو جلی اور نمایاں انداز میں رقم کیا، پھر راشد کا وہ شعری ٹکڑا درج کیا جس میں اس تلمیح کا ذکر ہوا اور ساتھ ہی نظم کا حوالہ مع صفحہ نمبر بھی دے دیا گیا۔ اس اہتمام کے بعد عقلی، نقلی، تاریخی اور لسانی حوالے سے اس تلمیح کو کھول دیا۔ اگلا مرحلہ آتا ہے کہ اس بات کو اس بات کو سمجھا جائے کہ راشد نے تلمیح کو بعینہ اسی طرح روایتی معنوں میں اپنی شاعری میں برتا ہے یا اس میں اپنی طرف سے کچھ تخلیقی اجتہاد بھی کیا ہے یا نہیں۔ یقیناً راشد نے ان تلمیحات کو اکہری اور سطحی طور پر اپنے کلام میں استعمال نہیں کیا بلکہ وہ ان کو نئے انداز اور نئے زاویوں سے ان کی معنویت میں گہرائی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

چند نمائندہ تلمیحات راشد نمونے کے طور پر ملاحظہ ہوں :
1۔ سبا
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبار بے پایاں
گیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالی
ہوائیں تشنہ ء باراں
(نظم۔ سبا ویراں، ص 63 )

تبصرہ : ڈاکٹر عابد خورشید نے قرآن مجید کی سورہ السباکی آیت کا حوالہ پیش کرنے کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ راشد نے ملک سبا کی ویرانی کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ یہ ویرانی محض امارات کا کھنڈرات میں بدلنا نہیں ہے بلکہ ایک تہذیب اور تمدن کا خاتمہ ہے۔

2۔ رود دجلہ
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
(نظم۔ حسن کوزہ گر ص 39 )

دجلہ مغربی ایشیا کا ایک ایسا دریا ہے جو کردستان کی پہاڑیوں سے نکل کر کر عراق کے میدان کو سیراب کرتا ہوا دریائے فرات کے ساتھ آ ملتا ہے۔

تبصرہ : راشد کی مذکورہ نظم، حسن کوزہ گر، کو کچھ حوالوں سے پرکھا گیا ہے، کچھ ناقدین نے اس نظم میں خود راشد کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، کچھ اسے الف لیلہ کا کوئی کردار بتاتے ہیں اور کچھ اس کا تعلق ایران کی لوک داستانوں سے جوڑتے ہیں۔

3۔ اسد و ثور
خوابوں کے نئے دور میں نے مور و ملخ نے اسد و ثور
نے لذت تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہو جور
سب کے نئے طور!
(نظم۔ میرے بھی ہیں کچھ خواب، ص 71 )
اسد عموماً شیر ببر کا معروف عربی نام ہے۔ ثور آسمان کا دوسرا برج جو گائے کی شکل کا ہوتا ہے۔

تبصرہ : دست شناسی کا ہنر، بروج یا ستاروں کا علم اپنی قدامت اور جدت کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔ راشد کی یہ نظم یعنی، میرے بھی ہیں کچھ خواب، مستقبل کے حوالے سے اپنے اندر امید کا چراغ جلتے رہنے کا عندیہ دیتی ہے۔ مورہ ملخ کی ترکیب بھی الگ معنویت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر خورشید کا یہ ٹھوس علمی کام 274 صفحات پر پھیلا ہوا ہے اور میرا یہ خیال ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ راشد شناسی کے نئے در وا کرے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا مجموعی کام انتہائی سنجیدہ، دل چسپ اور متنوع پہلووٴں کا امین ہے کہ ان کا قاری ان کے رشحات قلم سے علم کے موتی سمیٹ کر اٹھتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments