سیاست کی چند ایمان لیوا بیماریاں (مزاح)۔


کرپشن۔ سیاست و معاشرت کی سب سے بڑی ایمان لیوا بیماری کرپشن ہے جس کی گود میں ہزاروں مہلک بیماریاں پرورش پاتی ہیں۔ کرپشن در اصل ”ام الامراض“ ہے ا ور انتہائی زرخیز کوکھ کی حامل ہے۔ ہمارے ہان کرپشن ہر بالغ شہری کا بنیادی حق ہے اور ہر صاحب اختیار، سرکاری ملازمین، صنعتکاروں اور چند خاص لوگوں پر فرض ہے۔ سیاسی اصطلاحات کی مایہ ناز لغت ”فرہنگ انصافیہ“ کے مطابق ایسے تمام افعال و اعمال جو ان کے حریفوں سے سر زد ہوں، کرپشن شمار کیے جائیں گے۔ اک اور مشہور لغت، نون اللغویات ”میں انصرام حکومت کے لئے اٹھائے گئے تمام اقدامات اور اخراجات کو کرپشن کے دائرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔

رشوت کی شوگر : اس بیماری جراثیم کسی ناجائز کام کی خواہش اور تگ و دو کرنے سے پھیلتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا افراد کے ضمیر، دیانت اور ایمان میں انسولین خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے۔ اہل دانش و حکمت اس بیماری کا علاج بھی رشوت سے ہی تجویز کرتے ہیں۔ اس بیماری میں کسی قسم کی پرہیز کی حاجت نہیں ہوتی اور مریض نقد اشیاء کے ہمراہ ہر قسم کا خام مال کھانے کا روا رہتا ہے۔

ذخیرہ اندوزی کا سرطان : ہر بڑا کاروباری گروہ مجموعی طور پر ذخیرہ اندوزی کے سرطان میں مبتلا ہے۔ چھاپوں سے وقتی افاقہ ممکن ہے مگر حتمی علاج کا تصور نہیں ہے۔ اس مرض کے وائرسس بڑے بڑے گوداموں میں پنپتے ہیں اور موقع دیکھ کر عوام الناس کو ذلیل و خوار کرتے ہیں۔

خوشامد کی ٹی بی : اس با ضرر بیماری نے پورے معاشرے کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہر سطح کے لوگ اس عارضے سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں بچھ بچھ جانا، چاپلوسی کرنا، صدقے واری جانا، جی حضوری کرنا، کھوتے کو گھوڑا کہنا عام ہوتا ہے۔ سب سے بڑی علامت پاپوش برداری ہے۔ ان مریضوں کے ہاں مکھن اور روغن قاز کثرت سے پایا جاتا ہے۔ پرانے دور میں اس مرض کے مریض، بھاگ لگے رہن، کی آوازیں لگایا کرتے تھے۔ یہ بھی ایک موروثی مرض ہے۔ مریضوں کی ہسٹری سے ظاہر ہے کہ اکثر کے باپ دادا بھی اسی عارضے سے جہاں سے گزر گئے۔

نرگسی عارضے : ریاست میں لا تعداد افراد نرگسیت کے عوارض میں بری طرح مبتلا ہیں جن کا علاج نا ہونے کے برابر ہے۔ ہر طبقے، گروہ، سیاسی و مذہبی جماعت کے بہت سے سر کردہ لوگوں کو اس بیماری نے گھیر رکھا ہے۔ ایسے مریضوں کے پاؤں زمین پہ نہیں ٹک سکتے۔ گویا وہ اپنا وزن نہ اٹھانے کے باعث ہر وقت فضا میں لٹکے رہتے ہیں۔

وعدہ خلافی کا ڈمینشیا : یہ مرض پورے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے۔ اس میں کسی بھی شخص کو کسی سے کئیے ہوئے ء وعدے بھول جاتے ہیں۔ مرض کی شدت میں لوگ اپنی اپنی اوقات بھی بھلا بیٹھتے ہیں۔

گالی گلوچ کا جذام : ویسے تو یہ مرض کافی پرانا ہے مگر چند برس سے اس کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس بیہودہ بیماری میں گھرے مریض ”کوڑھ“ کا شکار ہو کر نہ صرف نزدیک بلکہ دور سے بھی بد صورت لگتے ہیں۔ ان کے دماغ اور خون میں دشنام اور طعن و تشنیع کے جراثیم خوفناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ گالی ہی تکیہ کلام اور گالی ہی تہذیب بن جاتی ہے۔ اس مرض کے شکار مریضوں کا ہر جملہ ناں، اوئے، میری بات سنو سے شروع ہوتا ہے۔

بہت سے محکموں میں اور وزارتوں میں بہت سے لوگ پاگل بیس پر بھرتی یا سلیکٹ کر لئے جاتے ہیں۔ انہیں نہار منہ ہی منہ مارنے کی خوئے بد لگ جاتی ہے۔ اگرچہ لا علاج مرض ہے پر منہ کی کھا کر منہ بسورنے پہ کچھ افاقے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ اب شبہ باقی نہیں کہ اس بیماری میں مبتلا مریض اس مقام پہ فائز ہو چکا ہے جسے لوگ، شرم کا مقام، کہتے ہیں۔

حکمرانی کی رے بیز :

سلطنت خداداد میں ہر ”بڑے“ کو اقتدار اور حکمرانی حاصل کرنے کی جان لیوا بیماری لا حق ہو جاتی ہے جو بالا آخر جان لے کر ہی جان چھوڑتی ہے۔ یہ مرض لا علاج ہے اور اس میں مبتلا افراد ہر حال میں اور ہر قیمت پر اقتدار حاصل کر کے دم لیتے ہیں۔ یہ بیماری ہوس اقتدار کی ”سگ گزیدگی“ کے موجب ہوتی ہے اور متاثرہ شخصیت قتل ہو کر، پھانسی پا کر یا دیار غیر میں عبرت ناک موت پا کر اس بیماری سے مکتی پاتا ہے۔

پرو ٹو کول کا نمونیا : یہ بیماری تقریباً ہر صاحب اختیار کو چمٹ جاتی ہے۔ کچھ اس بیماری کو قطعاً معیوب نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم اور دیگر وزیر ہیلی کاپٹر پر نا جائیں تو کیا ”کھوتوں“ پہ جائیں۔ مزید یہ کہ اتنا پروٹوکول تو پنجاب کا ایک ”گجر“ بھی لے لیتا ہے۔ وہ یوں کہ دس بھینسیں آگے تو دس پیچھے اور ساری ٹریفک جام۔

نا اہلی کا فالج : اس مرض میں مبتلا افراد تہمت اقتدار کے متحمل نہ ہونے کے باوجود انصرام میں جکڑے رہتے ہیں مگر اقتدار کا کمبل نہ چھوڑتا ہے نہ چھٹتا ہے۔ اس صورت حال میں قدرو قیمت کا پیمانہ مناصب اور عہدے رہ جاتے ہیں نہ کہ کام کی صلاحیت، اس مرض کے مریض افسر اور حکمران اپنی گاڑی کا دروازہ تک نہیں کھول سکتے۔

امراض بل : مملکت خداداد میں بل کی بیاریاں نہایت خطرناک اور خون آشام بنتی جا رہی ہیں۔ یہ وبائی امراض ہیں اور لگ بھگ ہر شہری و دیہاتی ان امراض کا شکار ہے۔ ان میں بجلی، گیس پانی اور فون وغیرہ کے بلوں کی بیماریاں شامل ہیں۔ ان کے بل اپنی اپنی بلوں سے نکل کر عام آدمی کو یوں ڈستے ہیں کہ وہ بلبلاتا رہ جاتا ہے۔ ان کے متاثرہ افراد ہر وقت چکرائے رہتے ہیں۔ خون پیدا کم اور جلتا زیادہ ہے۔ ایسے مریض یا تو چپ سادھ لیتے ہیں یا اول فول بکنے لگتے ہیں۔

ٹرین ہیمبرج : اگرچہ بادی النظر ریل کی ریل پیل دیدنی ہے مگر حیرت ہے کہ سات عشروں سے پٹڑی پہ چلنے کے باوجود پٹڑی پہ چلنے کے لائق نہیں ہوئی۔ گویا یہ محکمہ ٹرین ہیمبرج کے عارضے کا شکار رہا جس کی وجہ عدم توجہی اور مناسب علاج کا نہ ہونا ہے۔ اتنی بے رخی برتی گئی کہ صحت و کردار بگڑ گئے۔ ریلوے حادثات اور آتش زدگیاں کے معمول دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ٹرینیں کئی بار ”ستی“ ہوئیں۔ تاہم ریلوے غریب غرباء اور زندگی سے بیزار افراد کے لئے نجات دہندہ بھی رہی ہے اور سینکڑوں مایوس لوگ ریلوے کے طفیل اپنی مدد آپ کے تحت قید حیات سے آزاد ہوئے۔

سرخ فیتے کا ٹائیفائیڈ : یہ عوام الناس کے لئے بڑی مہلک بیماری ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کی غرض سے جانے والے اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انگریزی میں اسے Red Tapism کہتے ہیں۔ اس نامراد مرض میں پھنسنے والا شخص نہایت قابل رحم ہوتا ہے۔ اس کو سرکاری محکموں کے دفاتر کے پھیروں کی عادت پڑ جاتی ہے اور وہ گھر کا رہتا ہے نہ سسرال کا : چھوٹے چھوٹے کاموں میں شب و روز اور ماہ و سال بیت جاتے ہیں مگر کام بنتا نظر نہیں آتا۔

بعض اوقات تو یہ بیماری متاثرہ شخص سے اس کی اولاد میں بھی منتقل ہوجاتی ہے اور وہ باپ کے انتقال پر ملال کے بعد انہیں کاموں کی تکمیل میں عمر گزارتا ہے۔ یہ بیماری بھی چھوت کی بیماری ہے جو ، سائل بہ سائل، کلرک بہ کلرک اور دفتر بہ دفتر پھیلتی ہے۔ ایک دن کے کام کو مہینوں پر محیط کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بقول انور مسعود

کلرکوں سے آگے بھی افسر ہیں کتنے جو بے انتہا صاحب غور بھی ہیں
ابھی چند میزوں سے گزری ہے فائل مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
لہٰذا سائلین کو چاہیے کہ سرکاری دفاتر میں میں داخل ہونے کی مجرب دعائیں اور دوائیں اپنے پاس رکھیں۔
بیرونی دوروں کی مرگی

ہر حکومت حاضرہ اور اس کے اراکین کو اپنے دور حکومت میں غیر ممالک جانے کی مرگی کے شدید دورے پڑتے ہیں۔ اس مرض کا ملک میں کوئی علاج نہیں ہے اور شفا کے لئے ہر حال میں بیرونی دوروں پہ جانا ناگزیر ہوتا ہے۔ اکثر حکومتی وزراء کو پورے خاندان سمیت یہ امراض چمٹ جاتے ہیں۔ اس مرض کے شکار حکمران کے لئے ایک دن بھی ملک میں چین سے بیٹھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ حکومت ختم ہونے پہ مرگی کے بیرونی دوروں کا زور یک دم ٹوٹ جاتا ہے۔

بیڈ گورننس کا موتیا

خوش فہمی اور ڈھٹائی کے وائرس اس بیماری کے موجب ہیں۔ اس میں مبتلا مریض اپنے ہر عمل کو درست اور قابل فخر سمجھنے لگتا ہے اور باقی معاشرے کو بد فہم، بد چلن، بد خو اور بد سخن گردانتا ہے۔ اس کور چشمی کے لئے درکار نظر کا چشمہ نمبر کے لحاظ سے دو نمبر اور نوعیت کے لحاظ سے ہمیشہ تعصب کا ہوتا ہے۔

امراض دھرنا۔ ان امراض میں مبتلا افراد سڑکوں، چوکوں اور قومی اداروں کے سامنے عجیب و غریب حرکتیں اور گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مرض کا وائرس صرف حکومت سے باہر بیٹھے افراد کو چمٹتا ہے جبکہ اہل اقتدار اس بیماری سے یکسر محفوظ رہتے ہیں۔ دھرنوں کا مریض اپنے گھر میں نہیں ٹکتا اور اسے بسوں، ٹرکوں اور کنٹینروں پر لپکنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ علاج کے طور پر حکومتی عہدیداروں سے مذاکرات اور عہدوں کا لالچ موثر رہتے ہیں۔ اگر مرض کی شدت غیر معمولی ہو تو جن نکالنے والے عاملین کی خدمات لی جاتی ہیں۔ اس مرض کی اچھی بات یہ ہے کی دھرنے کی بیماری ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں لگا کرتی۔

پر اسرار امراض۔ سیاست کے کچھ امراض اس نوعیت کے بھی ہیں جن کی تشخیص جوئے شیر لانے سے بھی سوا ہے۔ بڑے بڑے ارسطو اور افلاطون سر پکڑ کر بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں مگر بیماری کا اتا پتا معما ہی رہتا ہے۔ ان عوارض کے جرثوموں، وائرسسز یا بیکٹیریا کا سراغ بھی تا حال سیاسی طب میں ممکن نہیں ہے۔ ان امراض کا شکار افراد بستر علالت کے سہارے بہت سی سزاؤں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

انا کی جلن۔ ریاست میں انا اور حسد کی جلن کافی تکلیف دہ عارضہ ہے۔ کچھ جلنے والوں کے جسم سوکھ کر تیلا ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی مرض ہے جو انسان کو باقی تمام مہلک امراض میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ البتہ جلنے والوں کو سردیوں میں سردی بھی کم لگتی ہے۔

گیس ٹربل : ریاست میں گیس ٹربل کے عوارض روز بروز تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں۔ خصوصاً جاڑے میں سرد ناک سردی سے پالا پڑتے ہی اس بیماری میں شدت آجاتی ہے۔ کھپت میں اضافے اور نظم میں کمی کے باعث گیس کا خواب ”شرمندہ تبخیر“ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ریاستی حکماء کے مطب میں گیس ٹربل کا تاحال کوئی شافعی علاج نہ ہے۔

بیانیوں کا ڈائریا۔ سلطنت سیاست کے ہر بڑے کا اپنا بیانیہ لازم ہے۔ سیاسی نظام انہضام میں گڑ بڑ کے باعث قائدین سیاست کو بیانیوں کے ڈائریا کا مرض لا حق ہو جاتا ہے۔ راہ نماؤں کے ہاں بیانیوں کی زیادتی اس قدر ہوجاتی ہے کہ کتھارسس کے لئے ڈائریے کے سوا کوئی مداوا کار گر نہیں رہتا۔ تاہم خاکی اطباء کے خصوصی علاج کے باعث اس مرض میں حیرت انگیز کمی دیکھی جا رہی ہے۔ بہت سی بیماریوں پر قابو پایا جا چکا ہے۔ مگر تا حال انسانی سرشت، خود غرضی، بے حیائی، نافرمانی اور کرپشن وغیرہ کی پیمائش، وجوہات اور علاج کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments