عدلیہ، فوج یا سیاست دان: ملکی تباہی کا کون ذمہ دار ہے؟


وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی طرف سے پی ٹی آئی کی لیڈر شیریں مزاری کو فوری رہا کرنے کے حکم کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ نے نصف شب کو اس معاملہ کی سماعت کی۔ گزشتہ روز منی لانڈرنگ کے ایک فرسودہ اور بے بنیاد کیس میں ملک کے وزیر اعظم شہباز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو دو گھنٹے تک لاہور کی ایک عدالت میں پیش ہونا پڑا لیکن یہ معاملہ بدستور مؤخر رہا۔ آج پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ارکان کو داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اس دوران اسپیکر پرویز الہیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تکنیکی بنیاد پر خارج کردی گئی۔

اگر یہ چند واقعات ملکی صورت حال کو سمجھنے کے لئے کافی نہ ہوں تو صدر مملکت عارف علوی کے اس مراسلہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھیجا ہے اور جس میں اصرار کیا گیا ہے کہ کسی صوبے کا گورنر صدر کی صوابدید سے ہی مقرر ہو سکتا ہے۔ ان کی رائے میں عمر سرفراز چیمہ بدستور پنجاب کے گورنر ہیں کیوں کہ صدر سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں انہیں ہی گورنر رہنا چاہیے۔ صدر عارف علوی اس وقت ریاست پاکستان کے صدر کی بجائے تحریک انصاف اور عمران خان کے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ وہ آئین کا نام لیتے ہیں لیکن کسی آئینی طریقہ کو اپنانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عارف علوی نے جب گورنر پنجاب کے لئے وزیر اعظم کی درخواست پر عمل نہیں کیا تو مقررہ آئینی مدت گزرنے کے بعد 10 مئی کو انہیں ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا تھا۔ لیکن صدر مملکت بدستور اصرار کر رہے ہیں کہ سرفراز چیمہ ہی پنجاب کے ’آئینی گورنر‘ ہیں اور وزیر اعظم کا تجویز کردہ نیا گورنر نامزد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

آئین کے ساتھ یہی کھلواڑ پنجاب اسمبلی میں کھیلا جا رہا ہے۔ پرویز الہیٰ ایک طرف خود کو وزارت اعلیٰ کا امید وار قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف وہ اسپیکر کے طور پر پنجاب اسمبلی کے معاملات کسی ذاتی جاگیر کی طرح طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے آج پنجاب اسمبلی کی تالہ بندی کے ذریعے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی سیکورٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کو اسمبلی اجلاس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے ارکان کو اسمبلی بلوا کر ایک نام نہاد اجلاس منعقد کیا گیا جہاں اپنے ہی خلاف آئی ہوئی عدم اعتماد تحریک کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کروا دیا گیا کہ یہ تحریک پیش کرنے والے ارکان ہی اجلاس میں موجود نہیں ہیں۔ حیرت ہے کہ پرویز الہیٰ کے حامی ارکان تو اجلاس میں آ گئے لیکن ان پر عدم اعتماد ظاہر کرنے والے ارکان ’غیر حاضر‘ رہے۔ قانون اور پارلیمانی امور کے طالب علموں کے لئے یہ صورت حال قابل غور ہونی چاہیے کہ ایک ایسا اسپیکر جس کے خلاف عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے، وہ اسمبلی کو قلعہ بنانے اور مخالف ارکان کو اسمبلی میں داخلے سے روکنے کے لئے اسپیکر کے اختیارات استعمال کر رہا ہے اور اس پر کسی شرمندگی بھی نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن نے گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے ان 25 ارکان کو ڈی سیٹ کر دیا تھا جنہوں نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اس طرح اس وقت کسی بھی گروپ کو پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اگر آج کا اجلاس معمول کے مطابق ہوتا تو ووٹنگ کے باوجود شاید اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہ ہو سکتی کیوں کہ پنجاب اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 371 ہے۔ موجودہ حالت میں عدم اعتماد کے لئے 186 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ پرویز الہیٰ اور ان کے حامی اگر اجلاس میں رکاوٹ نہ ڈالتے پھر بھی ان کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہی رہتی لیکن تحریک انصاف کے ساتھ مل کر انہوں نے آئین کا نام لیتے ہوئے آئینی طریقہ سے کھلواڑ کرنا ضروری سمجھا۔ پرویز الہیٰ اینڈ کمپنی اب مخصوص سیٹوں پر ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی جگہ نئے حامی ارکان کو نامزد کر کے پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ بتایا جا سکے کہ حمزہ شہباز کو اس وقت باقاعدہ ارکان میں اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ آئینی طریقہ کے مطابق کوئی پارٹی اس وقت تک مخصوص سیٹوں پر نئی نامزدگی نہیں کر سکتی جب تک ڈی سیٹ ہونے والے باقی بیس حلقوں میں انتخاب کے ذریعے نئے ارکان اسمبلی کا حصہ نہ بن جائیں۔ پرویز الہیٰ اسی مقصد کے لئے اسپیکر کی حیثیت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی بھی طرح ایک بار وہ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوجائیں۔ بعد میں یہ معاملہ عدالتوں اور الیکشن کمیشن کے پاس جاتا رہے۔

دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصاف کی اعلیٰ روایت قائم کرتے ہوئے عدالتی اوقات کار کے بعد شیریں مزاری کی اچانک گرفتاری کا نوٹس لیا اور رات گئے انہیں پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس سے پہلے ہی حمزہ شہباز چیف منسٹر کے طور پر شیریں مزاری کی رہائی کو غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے انہیں فوراً رہا کرنے کا حکم دے چکے تھے۔ اس صورت میں جس ’بنیادی انسانی حق‘ کی حفاظت کے لئے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رات گئے عدالت لگانا پڑی، اس پر تو پہلے ہی فیصلہ ہو چکا تھا، پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کو آدھی رات کو کھولنے کا کیا جواز تھا؟ سماعت میں بھی چیف جسٹس نے صرف یہی ایک نکتہ اٹھایا کہ شیریں مزاری چونکہ قومی اسمبلی کی رکن ہیں، اس لئے انہیں اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ شیریں مزاری پارٹی فیصلہ کے مطابق اپنی رکنیت سے استعفیٰ دے چکی ہیں۔ تحریک انصاف موجودہ اسمبلی کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ لیکن استعفے دینے کے باوجود اس کے ارکان طریقہ کار کے مطابق اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفوں کی تصدیق کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ کل رات اسلام آباد ہائی کورٹ میں شیریں مزاری کیس میں ثابت ہو گیا کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے رکن کے طور پر کوئی قانونی رعایت لینے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس تصویر کا یہ پہلو اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ گزشتہ چار برس کے دوران کتنے ارکان اسمبلی کو اسپیکرز کی اجازت سے گرفتار کیا گیا اور طویل عرصہ تک قید میں رکھا گیا تھا۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے عمران خان کے الزامات کے بعد سو موٹو نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو سرکاری افسروں کے تبادلوں سے روک دیا تھا۔ اس کے علاوہ صدارتی ریفرنس کے جواب میں اکثریت رائے سے منحرف ارکان کے ووٹ ناکارہ قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ عدالتی بنچ کے دو ارکان کے علاوہ متعدد آئینی ماہرین اس فیصلہ کو دو ٹوک آئینی طریقہ کار سے گریز قرار دے رہے ہیں۔ اس قسم کے فیصلے جوڈیشل ایکٹو ازم شمار ہوتے ہیں جس سے قانون کی بالادستی کا اصول تو سرخرو نہیں ہوتا لیکن ملکی سیاست میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی مرضی ضرور حالات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ فیصلے یہ واضح کرتے ہیں کہ عدلیہ کے جج بھی تحریک انصاف کی موجودہ عوامی رابطہ مہم کا دباؤ محسوس کر رہے ہیں اور کسی بھی طرح عمران خان کے الزامات کے جواب میں نرم رویہ اختیار کر کے یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملکی عدلیہ غیر جانبدار ہے۔ تاہم غیر روایتی اور غیر آئینی فیصلے کر کے کوئی عدالت غیر جانبدار نہیں کہلا سکتی۔ دباؤ میں دیے گئے ناجائز اور غلط فیصلوں سے ملکی تاریخ بھری پڑی ہیں۔ قومی سیاست اور معاملات پر ان فیصلوں کے مہلک اثرات کے باوجود ہماری اعلیٰ عدالتوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ نام نہاد نظریہ ضرورت کسی نہ کسی صورت میں اب بھی زندہ ہے بلکہ اسے بروئے کار بھی لایا جا رہا ہے۔

اب یہ خبر سامنے آ گئی ہے کہ ملک کی تازہ بہ تازہ ’غیرجانبدار‘ ہونے والی اسٹبلشمنٹ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط مان کر اس سے معاہدہ کر لے تاکہ ملک کو فوری معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔ اس معاہدہ کے تحت ملک میں پیٹرولیم کی قیمت میں پچاس ساٹھ روپے لیٹر کا اضافہ ہو گا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا سیاسی ملبہ زیادہ تر مسلم لیگ (ن) پر گرے گا۔ اب یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کچھ ضمانتوں کے بغیر یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق آئی ایم ایف سے معاہدہ کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کے اس مطالبہ سے بھی ہے کہ موجودہ حکومت جون کا بجٹ بھی پیش کرے یعنی اس کا سیاسی بوجھ خود قبول کرے اور اس کے فوری بعد عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے تاکہ اکتوبر تک نئے انتخابات کے تحت اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی حکومت بنا لے۔ یہ شرائط اتحادی پارٹیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ مریم نواز کے بعد وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ اگر ہمارے ہاتھ پاؤں باندھے گئے تو ہمارے پاس عوام کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

فوجی قیادت عمران خان کے خلاف عدم اعتماد میں ’غیر جانبدار‘ کا کردار ادا کرنے کے بعد اپنے ہی سابقہ ساتھیوں کی طرف سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ عمران خان کی اشتعال انگیز مہم جوئی سے بھی ’خوفزدہ‘ ہے۔ اب کسی بھی طرح جلد انتخاب کروا کے اس معاملہ کو حل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم کیا اس بات پر بھی غور کر لیا گیا ہے کہ عمران خان نے ہر اس انتخاب کو ماننے سے انکار کیا ہے جس میں ان کی پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے جلسوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت صرف انہیں ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اس لئے ان کی مرضی کے برعکس کوئی انتخابی نتیجہ قبول نہیں ہو گا۔

اگر عدالتوں کے جج اور فوجی قیادت اس دعوے کو سچ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر انتخابات کا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت ہے۔ فوج کہے اور چیف جسٹس کسی آئینی شق کی کوئی نئی صراحت کرتے ہوئے عمران خان کو تاحیات حکمران مقرر کرنے کا ’حکم‘ جاری کر دیں۔ یا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ سب سیاسی پارٹیوں کو ملک دشمنی کے الزام میں کالعدم کر دیا دیا جائے۔ عمران خان تو پہلے ہی اتحادی حکومت کے سب لیڈروں کو ’چور، منافق اور غدار‘ قرار دے چکے ہیں۔ عمران خان کو خوش کرنا ہی اصل ایجنڈا ہے تو عوام کی مرضی اور نمائندگی کا ڈھونگ ختم کیا جائے۔

الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس 8 سال سے التوا کا شکار ہے۔ کسی بھی فعال قانونی انتظام میں اس سنگین معاملہ پر پریشانی و حیرت کا اظہار ہونا چاہیے تھا۔ لیکن کوئی تو ہے جو اداروں کو خود مختاری سے فیصلے کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اگر عوام کے ووٹ کو دھاندلی کے ذریعے ناکارہ ہی بنانا ہے اور سپریم کورٹ اور فوج ایک بار پھر عمران خان کو ہی ملک کی واحد ’امید‘ قرار دینا چاہتی ہے تو ایک حکم اس کیس کو ختم کرنے کے لئے بھی جاری کر دیا جائے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ’تاحیات دیانت‘ کا ایک حکم نامہ بھی درپردہ خواہشات کی تکمیل کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔ پہلے بھی ایمانداری کا واحد ثبوت سپریم کورٹ کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ ہی ہے۔

ایک نئی سیاسی انجینئرنگ کے لئے میدان ہموار بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ یہ نوشتہ دیوار بھی پڑھ لیا جائے : عوام کی تقدیر سے کھیلنے کے نتیجہ میں اس ملک کا مستقبل بھی داؤ پر لگے گا۔ موجودہ ملکی سیاسی صورت حال میں کوئی بھی عالمی فورم کسی پاکستانی حکومت پر اعتبار نہیں کرے گا۔ معاشی بوجھ تلے دبے، انتہائی مشکلات کا شکار ملک کو اپنی ساکھ بحال کر کے ہی عالمی اداروں و ممالک سے مالی تعاون حاصل ہو سکتا ہے۔ اس لئے رانا ثنا اللہ کی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے تو وہ نہ ہی مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ اٹھائے گی اور نہ ہی اس کی سیاسی قیمت ادا کرے گی۔ انتخاب ہی پھر اس مسئلہ سے نکلنے کا واحد راستہ ہیں۔

لیکن معاشی بحران زدہ ملک اگر اس وقت ایک خاص گروہ کی خوشنودی کے لئے انتخابات کا راستہ اختیار کرتا ہے تو آئینہ چند ماہ پاکستان میں کوئی حکومت موجود نہیں ہوگی۔ کیا ڈرائینگ بورڈ پر ملکی تقدیر کا نقشہ بنانے والے اس تعطل و ناکامی کی ذمہ داری قبول کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments