بابا، بچہ اور ڈرائیونگ لائسنس


ممتحنہ پھر کمرے میں داخل ہوئی اور تحریری ٹیسٹ کی خوش خبری سنائی۔ کمپیوٹر آن ہوا اور اس پر ایک گول بڑے دیواری کلاک کا فوٹو ابھر آیا۔ اسے غور سے دیکھنے کے لئے دو منٹ کا وقت دیا گیا۔ سوائے اس کے کہ دس بج کر دس منٹ کا وقت دکھا رہا تھا اور کوئی خصوصیت پلؔے نہ پڑ سکی۔ اب وہ ہر میز پر امتحانی پرچہ الٹا رکھ کر امید وار کو پرچہ کی پشت پر اپنا نام لکھنے کا کہہ رہی تھیں تین امیدواروں کو ان کی ترجیح کے مطابق چینی زبانوں اور ایک کو گورمکھی پنجابی میں پرچہ دیا گیا۔ ایک دو تین، شروع، کی آواز کے ساتھ پانچ منٹ میں پرچہ مکمل کرنا تھا۔ حسب عادت پرچہ سیدھا کرتے ہی پہلے سوال پڑھے اور دوبارہ پڑھ کے حل کرنا شروع کرتے وقت یہ بیاسی سالہ بابا جی ٹاٹ پر بیٹھے تختی پر رکھ پرچہ حل کرتے بچے کا روپ دھار چکے تھے۔

پہلا سوال تھا کہ پنسل سے گول کلاک کی طرح دائرہ بنائیں۔ دوسرے میں وقت کے اعداد ایک سے بارہ تک ترتیب اور وقفہ سے لکھنے تھے۔ تیسرا سوال واقعی مشکل اور گنجلک تھا۔ گھڑی کی سوئیاں اس طرح بنائیں کہ گیارہ بجنے کے بعد دس منٹ گزر جانے کا وقت نظر آئے ( ٹین منٹس پاسٹ الیون۔ گیارہ بج کے دس منٹ نہیں ) کا وقت نظر آئے۔ ہماری پنسل پرچے کے نیچے خالی جگہ پہ چل رہی تھی اور دماغ چوہتر برس قبل دوسری جماعت کے سالانہ امتحان دیتا تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں کنویں کے پاس بڑ کے گھنے درخت کے نیچے شفیق استاد کے سامنے حساب کے زبانی سوالوں میں سے ایک ”لاکھ ٹکے کی سیر۔ دو پیسے کی کتنی آوے؟“ کا جواب دے رہا تھا۔ ( آج کا کوئی حساب دان زبانی حل کر لے تو کمنٹ میں جواب لکھ دے ) ۔ تین منٹ بعد پرچہ واپس دے چکا تھا۔ اور ممتحنہ جو اس سے قبل کمپیوٹر پر نگاہوں کے رخ اور گھورنے کی صلاحیت، دائیں کیا ہے بائیں کس رنگ کا دھبہ ہے اور اوپر کون سا اور سامنے لکھی چوتھی سطر کی اے بی سی پڑھوا ہمیں پر فیکٹ کے اعزاز سے نواز چکی تھی۔ ( یہاں بھی ہمیں بچپن کے ہم جولی آنکھیں باندھ دائیں کون بائیں کون، چونڈی کس نے کاٹی دھپہ کس نے مارا کا کھیل کھیلتے مل گئے ) ۔

کوئی دس منٹ بعد اسؔی سال عمر کے بعد ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے لئے نظر اور دماغی چستی کا یہ لازمی امتحان دینے والے تیس بوڑھوں میں انتیس کو پاس کر دیا گیا تھا اور ایک ڈاکٹر کو ریفر کیا جا چکا تھا۔ ان تیس میں سے پانچ افریقن ویسٹ انڈین ایک سردار جی خاکسار واحد پاکستانی اور باقی سب یورپ امریکہ کی نسلوں سے تھے۔ اب ہر دو سال بعد ڈرائیونگ لائسنس تجدید کے لئے یہ امتحان جس میں ڈیڑھ گھنٹہ لیکچر اور شاید ٹریفک قوانین کی دہرائی بھی کرائی جاتی ہے دینا ہو گا بشرطیکہ دینے والا ابھی اس قابل ہو۔ کورونا کی نوازش کہ دو سال قبل یہ امتحان ہوا ہی نہیں اور اس سال لیکچر ویکچر سے نجات رہی۔ یاد رہے یہی ڈرائیونگ لائسنس یہاں شناختی کارڈ بھی ہے اور ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے والے کو صوبائی شناختی کارڈ بنوانا پڑتا ہے

انیس سو تریسٹھ میں موٹر سائیکل خریدا تو پولیس لائنز فیصل آباد میں ڈرائیونگ لرننگ لائسنس پہلی حاضری پہ فوراً بن گیا پکؔے لائسنس کے لئے حاضری پہ حاضری دیتے سال گزر گیا مگر ڈرائیونگ ٹیسٹ لینے والے افسر نے ناراض محبوب کی طرح جائے ملاقات پہ دنوں گھنٹوں انتظار کروا کے بھی دیدار سے محروم ہی رکھا۔ ایک ٹرانسپورٹر دوست سے ذکر ہوا تو ”کچھ چپ رہے کچھ ہنس دیے کہ پردہ مقصود تھا“ لرننگ لائسنس لے گئے اور اگلے روز نیا جاری شدہ پورا لائسنس پکڑاتے بس یہ کہہ گئے بیٹا حاضری جیب میں ہوتی ہے ممتحن کے انتظار میں نہیں۔

چھیاسٹھ میں کار لی تو ایک ٹریفک سارجنٹ کام آ گئے۔ جب تک ڈرائیونگ، ریڈیو، ٹی وی لائسنس فیس بجلی بل ڈاک خانہ میں جمع ہوتی رہی کام آسان رہا کہ دکان کے ملازم جمع کرا آتے۔ مگر اب ساتھ پراپرٹی ٹیکس انکم ٹیکس کے بعد شناختی کارڈ اور پاسپورٹ قسم کے کام میں ہفتوں دھکے کون کھاتا۔ پاسپورٹ کلرک کی نوازش کہ ہنستے ہوئے باہر تخت پوش لگائے فارم بھرنے والے غلام حسین سے ملوا دیا۔ بس تب سے معمول یہ ہو گیا کہ پورے خاندان کے پاسپورٹ بنوانا ہوتے تو ملازم غلام حسین کو پیغام دے آتا۔

سارے فارم وغیرہ بھرنے بھرانے اور دفتری کارروائی اپنے ذمہ لیتا فیس بنک میں جمع اور فارم تصدیق ہم خود کراتے اور صرف پاسپورٹ وصولی کے لئے بڑے صاحب کے سامنے مقررہ وقت پہ پیشی ہو جاتی۔ شناختی کارڈ کے لئے سلیم کا نام یاد ہے جس دن کوئی بچہ اٹھارہ سال کا ہوتا سلیم فارم لے کے دکان پہ آ جاتا یہی کارروائی ہوتی اور شناختی کارڈ بن جانے کے اگلے روز ڈرائیونگ لائسنس والے کی باری آجاتی۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ فیصل آباد میں یہ دفتر تھا کہاں۔ ہاں اتنی احتیاط ہمیشہ رکھی کہ کوئی دستاویز جعلی کبھی نہ بنے۔ اب سنا ہے کہ کمپیوٹرائزڈ ڈرائیونگ لائسنس بنتے ہیں اور ڈرائیونگ ٹیسٹ بھی ہوتا ہے مگر یہ سن منہ سے یہی نکلا ”لگدا تے نہیں پر شاید“ ۔

دو ہزار ایک میں کینیڈا پہنچے تو دنیا بدل چکی تھی۔ کسی دستاویز بنوانے میں نہ کوئی رکاوٹ نہ وقت کا ضیاع۔ مستقل رہائشی اجازت نامہ، ہیلتھ کارڈ، مدت پوری ہونے پہ شہریت کی سند اور کارڈ۔ کہ عمر کی حد میں ہم اس امتحان کے بغیر اہل ہو چکے تھے۔ بس آپ کے کاغذات پورے ہوں۔ ڈرائیونگ کا تحریری ٹیسٹ فوری اور عملی عام اور ہائی وے کا ایک ایک مرتبہ فیل ہونے کا ذائقہ چکھ کے ڈرائیونگ لائسنس ہاتھ میں آیا۔ ہائے یہ سب کچھ بلکہ ہر کچھ بس قطار میں لگ بغیر دھکے کھائے غلام حسین اور سلیم وغیرہ سے ملے بغیر ہو گیا تو پاکستان والے چسکے بہت یاد آئے۔

ظلم یہ کہ پاکستانی سفارت خانہ میں بھی بلا تاخیر ہر کام اور ہر کام میں باقاعدگی۔ شناختی کارڈ کے کاغذات جمع کرا گھر پہنچا ہی تھا کہ فون پہ سفارت خانہ کے افسر کی آواز تھی۔ آپ نے ایک فارم پر فون نمبر کے خانہ میں شناختی کارڈ نمبر لکھ دیا ہے اور شناختی کارڈ والے میں فون نمبر۔ میں درست کر رہا ہوں اپنے تصدیقی دستخط کر دیے ہیں۔ صرف اطلاع دے رہا ہوں آنے کی ضرورت نہیں۔ اور میرا منہ کھلا رہ گیا۔ یعنی پاکستانی سفارت خانہ بھی۔ ۔ ۔ یعنی یہ بھی کافر ہو چکا۔

انیس سو ننانوے میں لندن سے لاہور کے لئے پی آئی اے کی پرواز میں سوار ہوئے تو تمام مسافر بہت اطمینان سکون سے جہاز میں داخل ہو رہے تھے۔ تحمل سے اپنی باری آنے پہ اپنا دستی سامان مقررہ جگہ رکھ رہے تھے عملہ چھوڑ مسافر بھی مجھ جیسے معمر افراد کی مدد کر رہے تھے تھے۔

اسی جہاز کے لاہور ائر پورٹ پہ رن وے کو چھونے کے جھٹکے کے ساتھ ہی مسافروں کے سیٹ بیلٹ کھولنے کی ٹک ٹک سنائی دینے لگی اور وہی مہذب مسافر اب ایک دوسرے کو دھکے دیتے اپنا سامان نکالتے دروازے کی طرف بھاگ رہے تھے۔ کسی کو فضائی میزبان کی ہدایات یا تحمل سے کام لینے کی درخواست کی پرواہ نہ تھی۔ سیڑھی لگ دروازہ کھلتے ہی کچھ فاصلے پہ کھڑی بسوں کی طرف یہ ولایت پلٹ مہذب مسافر اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے پیچھے فائرنگ ہو رہی ہو۔ ایک منٹ بعد بسوں میں داخل ہونے کے لئے وہ ہڑبونگ مچ چکا تھا جو کبھی جوانی میں دلیپ کمار کی فلم آن کی ریلیز کے دن اوڈین سنیما فیصل آباد میں ٹکٹ گھر کے پاس دیکھا تھا۔

ہم میاں بیوی دستی سامان لئے باہر دوسری بس کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ساتھ ایک شخص اور ان کے ساتھ لڑکا جو شاید پہلی بار پاکستان آیا تھا آ کھڑے ہوئے۔ وہ باپ سے پوچھ رہا تھا کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ بس کی طرف چلتے ہوئے میرے کانوں میں باپ کی افسردہ آواز پڑ رہی تھی ”بیٹا شاید یہ یہاں کی مٹی کا قصور ہے۔ شاید مٹی ہی ایسی ہے“ میرا سر بھی جھک چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments