دھندا اور حکمران


کوئی خبر دے ان حکمرانوں کو کے حکومت کرنے اور دو نمبر کاروبار چلانے میں فرق ہوتا ہے۔ سیاسی جنگ اور ہوتی ہے بلیک میلنگ اور ہوتی ہے۔ جب کسی کی کرپشن نظر نہ آئے تو اس کی اور اس کے ارد گرد موجود لوگوں کی عزت اچھال کر یا ان کی سچی جھوٹی ویڈیوز بنا کر عوام کے سامنے ننگا کرنے کی دھمکیاں دے کر حکومتیں نہیں چلائی جاتی بلکہ کوئی اور کاروبار ہوتے ہیں۔ یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ کوئی اتنے میڈیا کے سامنے کھل کھل کر بولتا رہے۔

کہ میرے پاس فلاں کی بھی ننگی ویڈیوز ہیں فلاں بھی غلط ہے۔ ایجنسیوں کے کارندے پولیس اہلکاروں اور یہاں تک کے انصاف کے دائرہ کار کو بھی بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ کھل کر سب کے سامنے کہا جا رہا ہے کہ کچھ ججز کی بھی ایسی ویڈیوز میرے پاس موجود ہیں کے ان دیکھنے والا شرما جائے یعنی ان ڈائریکٹ بلیک میلنگ۔ یہ کیا چل رہا ہے؟ کسی کی اتنی جرات کیوں؟ یہ ہے عوام کے نوکر؟ جس گھر کے ملازم ایسے ہوں گے اس گھر کا شیرازہ بکھرنے میں وقت نہیں لگے گا۔

یہ کیسا راج ہے؟ جس میں چینلز کو اشتہارات تب دیے جاتے ہیں جب وہ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کی کوئی خبر نہ چلائیں۔ یعنی اس ملک میں کسی بھی شخص تک حقائق نہ پہنچیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ کوئی اتنا بہادر کیسے ہو سکتا ہے؟ اتنے میڈیا اور عوام کے سامنے کھل کر بیان کر رہا ہو کہ میرے پاس بہت سے لوگوں کی ایسی شرمناک ویڈیوز موجود ہیں۔ یعنی میڈیا ہی ان لوگوں تک یہ خبر یہ میسج پہنچا رہا ہے کے خبردار اس شخص سے پنگا لینے کی جرات نہ کرنا۔

ابھی شکر ہے کہ پاکستان میں بادشاہی نہیں حکومتی سسٹم ہے۔ کہاں سے آئے ہیں ہم پر حکومت کرنے والے یہ غلیظ لوگ کیا یہ حکومتیں چلائیں گے۔ زبان کی گندگی اور کردار کشی تو ازل سے پاکستان کے حکمرانوں کا وتیرہ رہی ہے۔ جس کو صرف اور صرف میڈیا اپنے چسکے اور ریٹنگ کے لیے زیادہ ہائی لائٹ کرتا رہا ہے۔ مگر اب حکومتی معاملات سے بڑھ کر بات اس قدر پرسنل ہو گی ہے کے کسی کے کمرے سے لے کر واش رومز تک کی ویڈیوز لیک ہو کر دو منٹ میں منظر عام پر آ جاتی ہے۔

کیوں یہ لوگ اتنا پرسنل ہو ہو کر ان کرسیوں کو سنبھالے ہوئے ہیں ان سب کی اجازت ان کو کیوں ملی ہوئی ہے یہ حکمران عوام کے ذہنوں میں کیا ڈالنا چاہتے ہیں اور ہماری نئی نسل ان سے کیا سیکھ رہی ہے؟ کچھ وقت پہلے عمران خان کے دو موبائل اسی کے سکیورٹی ایجنسی کو ملا کر کر غائب کروا دیے گئے۔ بظاہر یہ ایک چور تھی مگر یہ ایک سازش بھی ہو سکتی ہے۔ جس طرح کے حالات منظرعام پر آرہے ہیں۔ کسی بھی حد تک کوئی بھی جا سکتا ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اسی طرح جب شیریں مزاری کو جب پولیس نے حراست میں لیا تو ان سے ان کا موبائل بھی چھین کر پولیس نے اپنے قبضے میں کر لیا اور حیرت کی بات یہ ہے کے ایک بجے شیریں مزاری کو اٹھایا گیا جبکہ شیریں مزاری چار بجے تک آن لائن واٹس اپ پر شو ہوتی رہی کیا وجوہات ہو سکتی ہے؟ اس سب کے پیچھے کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا کوئی شر پسندانہ منصوبہ کیوں پرسنل چیزوں کو استعمال کر کے کسی کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش پاکستان کے حکمرانوں کا پرانا اور آخری حربہ ہے۔

مگر اب یہ عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ ایسے حکمرانوں کو ہم حکومت میں بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ اس کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے۔ غلط زبان کا استعمال سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی غلط ویڈیوز کا اشتراک کسی بھی مہذب قوم کو زیب نہیں دیتی۔ معذرت کے ساتھ یہ ہے ہماری سیاست جو سٹار پلس کے ڈراموں سے بھی آگے نکل گئی ہے اور یہ ایسی سیریز ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ان سب کا ہماری نئی نسل پر کیا اثر ہو رہا ہے۔

دنیا کے سامنے ہم اپنے آپ کو کیسے پیش کر رہے ہیں۔ سیاست کے نام پر یہ تماشا بند ہونا چاہیے۔ غلط زبان الزام تراشی اور بے ہودہ ویڈیوز کی دھمکیاں دینے والے اور شیئر کرنے والوں کو عوام بالکل حق نہ دیں کہ وہ کرسی کی خاطر اپنی اپلیکیشن بھی جمع کروا سکیں۔ یہ معاملہ ہماری آنے والی نسل کا ہے جن کو ہم اپنی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے سلیکٹ کریں گے ان کے لیے اخلاقیات کے ترازو میں اوپر رہنا لازم ہے۔ فوراً سے پہلے کوئی ایسا آئین یا قانون بنانا چاہیے جو کہ ان تمام لوگوں کو پابند کرے کہ اپنی زبانوں کو کنٹرول کریں۔ ہمیں ایسے حکمران نہیں چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments