انڈین جیل میں برسوں سے رہائی کا منتظر پاکستانی قیدی: ’میرے پاپا نے بہت مشکلات دیکھی ہیں‘

محمد زبیر خان - صحافی


محمد وارث
’میرے پاپا کو جب انڈیا میں قید کیا گیا اس وقت میں ساڑھے چار سال کی تھی۔ اب میرے اپنے بچے ہیں۔ میرے پاپا نے بہت مشکلات دیکھ لی ہیں، انسانیت کے نام پر میں حکومت پاکستان اور انڈیا سے اپیل کرتی ہوں کہ اب اُن کو ہمارے پاس بھیج دیں تاکہ عمر کے اس حصے میں ان کا خیال رکھ سکوں۔‘

یہ الفاظ فریحہ وارث کے ہیں، جن کے والد محمد وارث سنہ 1999 سے انڈیا کی ایک جیل میں قید تھے۔ محمد وارث کو سنہ 2019 میں بے گناہ قرار دیا گیا مگر اس کے باوجود اب تک اُن کی پاکستان واپسی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔

فریحہ کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر وزیر آباد سے ہے۔

محمد وارث انڈیا کی جیل تک کیسے پہنچے؟

محمد وارث کے بڑے بیٹے محمد گلزار وارث کا کہنا ہے کہ ’جب میرے والد گرفتار ہوئے تھے تو اس وقت میری عمر 17 سال تھی۔‘

’مجھے تو یہ ہی پتا ہے کہ وہ انڈیا میں اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔ انڈیا جانے کے چند دن بعد ان کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ کوئی دو، تین سال بعد ہمیں ان کی گرفتاری کی اطلاع پاکستان کی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے ملی تھی۔‘

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق محمد وارث عرف رضا کو انڈیا میں سنہ 2000 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اُن پر دہشت گردی اور جیش محمد سے تعلق کا الزام تھا۔

محمد گلزار وارث کہتے ہیں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد والد کے جیل سے خطوط آنا شروع ہوئے، جس میں بس وہ یہی لکھتے تھے کہ ’میں خیریت سے ہوں، یہ کوئی اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ سارے مسائل حل ہو جائیں گے، پریشان نہیں ہونا۔‘

تاہم ان کے مطابق اس کے بعد ایک انڈین عدالت نے ان کو عمر قید کی سزا سُنا دی تھی۔

محمد گلزار وارث کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے کئی سال بعد ان کا مقدمہ ہائی کورٹ کے سامنے گیا تو عدالت نے انھیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔

تاہم اس دوران وہ وہ اپنی قید کی سزا بھی پوری کر چکے تھے۔

محمد گلزار وارث کے مطابق اس کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اور گذشتہ تین، چار سال سے ہمارا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’میں نے دو مرتبہ انڈیا کے ویزے کے لیے درخواست دی مگر یہ کہہ کر ویزہ درخواست مسترد کر دی گئی کہ آپ کا کوئی سپانسر نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دو سال قبل مقامی وزیر آباد کے ایک تھانے میں کچھ کاغذات آئے تھے، ’جن کی میں نے تصدیق کی تھی کہ یہ میرے والد اور پاکستانی شہری ہیں۔‘

اس وقت توقع پیدا ہوئی کہ شاید ان کی رہائی کا کوئی سبب پیدا ہوا ہے اور یہ کہ وہ جلد ہمارے درمیان ہوں گے۔ مگر ابھی تک یہ سب ممکن نہیں ہو سکا۔

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق محمد وارث عرف رضا کو دہشت گردی اور جیش محمد سے تعلق کے الزام میں انڈیا کی ایک ماتحت عدالت نے عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ وہ اترپردیش کی جیل میں قید رہے۔ تاہم الہٰ آباد ہائی کورٹ نے ان کو سنہ 2019 میں بری کر دیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق محمد وارث کی قسمت پھر نہیں جاگی اور وہ جیل سے رہائی کے باوجود اب بھی اترپردیش کے ایک تھانے میں قید ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ محمد وارث کی پاکستانی شہریت انڈین حکام کو سنہ 2005 میں تصدیق کر دی گئی تھی اور پاکستانی مشن انڈیا کی وزارت خارجہ کو متعدد مرتبہ ان کی ملک واپسی کی بابت لکھ چکا ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔

فریحہ وارث کہتی ہیں کہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک بے گناہ نے اتنے برس جیل کاٹی۔ ان کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا اور وہ ابھی تک اپنے گھر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ان کے نو بچے ان کے انتظار میں ہیں۔ خود پاپا کے دل پر کیا گزرتی ہو گی، یہ وہ ہی جانتے ہیں۔

عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ندا علی ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ وہ پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں سے باضابطہ درخواست کے ذریعے پوچھیں گی کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد محمد وارث کہاں ہیں، اب تک کیوں اپنے ملک اور گھر نہیں پہنچے ہیں۔

اگر وہ جیل رہائی کے بعد کسی تھانے میں بند ہیں تو اس کی وجہ بتائی جائے اور ان کی رہائی میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کو بھی متعدد درخواستیں دیں

محمد وارث گلزار کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کی وزارت خارجہ کو بھی متعدد درخواستیں دی ہیں۔

’انھوں نے ہم سے اچھا برتاؤ کیا اور ہمیں کہا کہ وہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ مگر ہمیں والد کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل رہا ماسوائے انڈیا کی ایک اخبار میں خبر چلی ہے کہ وہ اب ایک تھانے میں ہیں۔‘

ان کے مطابق ’میرے والد کی عمر 70 سال ہو چکی ہے۔ جب وہ جدا ہوئے تو میں سب سے بڑا اور 17 سال کا تھا اور میری سب چھوٹی بہن چار سال کی تھی۔ اب ہم سب بال بچے دار ہو چکے ہیں مگر والد کے بغیر ہم نے زندگی کا یہ عرصہ بہت مشکل حالات میں گزارا ہے۔‘

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔ دلی میں پاکستان کے ہائی کمیشن سے بھی رابطہ کیا گیا مگر ابھی تک اس حوالے سے کمیشن نے تفصیلات شیئر نہیں کیں۔

معاشی مشکلات کا سامنا رہا

محمد گلزار وارث کہتے ہیں کہ ’جب میرے والد انڈیا گئے تو اس وقت ہماری وزیر آباد میں ایک دکان تھی۔ ان کے انڈیا جانے اور پھر جیل چلے جانے کے بعد دکان چلانے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم بہن بھائی چھوٹے تھے، اتنی سمجھ نہیں تھی مگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر سیکھنا شروع کر دیا تھا۔‘

ان کے مطابق ’والد کی غیرموجودگی میں سارا بوجھ اور ذمہ داریاں میرے سر پر آگئی تھیں۔ میں نے ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کی ہے۔ میں سب سے بڑا تھا مگر ان ہی ذمہ داریوں کی بنا پر میں نے خود پہلے اپنے پانچ بہن بھائیوں کی شادیاں کیں اور اس کے بعد اپنی شادی کی۔‘

محمد وارث گلزار کہتے ہیں کہ جب بہن بھائیوں کی شادیاں ہوتیں تو اس وقت بھی ہم لوگ والد کو یاد کر کے روتے تھے یعنی پہلے ہمارے گھر میں غم ہوتا اور پھر خوشی ہوتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

جوانی سے بڑھاپے تک کا جیل کا سفر

انڈیا میں چار سال قید کاٹنے والی سمیرا اپنی بیٹی سمیت پاکستان پہنچ گئیں

انڈیا کے لیے امریکی شہریت ترک کرنے والی خاتون جنھیں ممبئی اب ایک ’جیل‘ لگتی ہے

ان کے مطابق زندگی کے کئی مراحل جہاں پر والد کی موجودگی ضروری ہوتی ہے ان میں ہم نے وہ مراحل والد کے بغیر طے کیے تھے۔

اب تو ان کو بری کردیا گیا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر کچھ پتا نہیں ہے وہ کہاں ہیں مگر پاکستان اور انڈیا کی حکومتیں تو جانتی ہوں گی کہ وہ کہاں ہیں۔ انھیں ہمارے پاس واپس بھیج دیا جائے تاکہ ہم اب تو ان کی خدمت کر سکیں۔

اب ہم سب کی نظریں گھر کے دروازے پر جمی رہتی ہیں کہ کسی وقت ہمارے والد اندر داخل ہونے کے لیے دستک دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments