تیرا لیڈر، میرا قائد


شعور سے کوسوں دور ہو کر خود کو عقل کل سمجھنا نری بے وقوفی ہے اور ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو آگاہی نہیں رکھتے مگر نہایت ڈھٹائی سے خود کو عقلمند اور باشعور گنواتے ہیں تاہم قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ پاگل خود کو کبھی ایب نارمل نہیں سمجھتا بلکہ وہ اوروں کو ہی بے وقوف گردانتا ہے۔

ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو ان کے لیے دوسروں سے جھگڑتے ہیں جو ان کے نام تو دور شکل تک سے بھی آشنا نہیں ہوتے، اور یہ لڑائی کی اہم وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ میرا لیڈر ہے۔

یہاں پھر اک اور عجب نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اپنے قائد کا دفاع شد و مد سے کیا جاتا ہے بلکہ غلط بیانات کو بھی مقدس لبادے میں لپیٹ کر ایسے شو کروایا جاتا ہے کہ میرا لیڈر تو غلطی سے مبرا ہے، بندہ پوچھے کہ کیا وہ انسان نہیں یا فرشتہ ہے؟

اور اپنے مخالفین پر ایسے تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ، مخالف پارٹی کے لئے زبان ایسے گولہ باری کرتی ہے کہ باتوں ہی باتوں میں سب کچھ تہس نہس کر دے اور لعن طعن کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو نسل در نسل چلتا ہے۔

شروع میں صرف یہی لگتا تھا کہ یہ لڑائیاں، جھگڑے اور اپنے رہنما کو افضل ترین ثابت کرنا صرف سیاست تک ہی محیط ہے تاہم وقت گزرا اور مشاہدے کی آنکھ کو جو نظر آیا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہمیں یہ بیماری ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔

اپنے مخالفین کو ملامت کرنا، انہیں نیچا دکھانا، لعن طعن کرنا اور برے القابات سے پکارنا صرف اہل سیاست کا کام نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں اس بیماری نے ایسا زور پکڑا ہے کہ کوئی میدان بھی اس سے محفوظ نہیں، چاہے وہ مذہب کا ہو تو وہاں پر بھی تفرقہ بازی کی انتہا ہے، خود کو چھوڑ کر باقی فرقوں کو دائرہ ء اسلام سے خارج کرنا ہمارے یہاں کا معمول ہے۔

اہل سیاست کا حال بھی ابتر ہے کہ وہاں بھی اپنے لیڈر کو افضل ترین اور مخالفین کو بدترین ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے۔

اور اسی طرح حب الوطنی کی بات ہو تو خود کو ایسے ڈکلیئر کروایا جاتا ہے کہ دیس بنایا بھی ہم نے اور بچا بھی ہم رہے ہیں باقی یا مخالف تو صرف لٹیرے ہیں۔

حضرت انسان کو اللہ نے شعور دیا اور کہہ دیا کہ عقل والوں کے لیے اس جہاں میں نشانیاں ہیں مگر یہاں ہم آگاہی سے دور صرف نفرتوں کو فروغ دے رہے ہیں، محبتوں کا گلا کاٹ رہے ہیں اور باہمی محبت کا خون کر رہے ہیں اور انہی نفرت کی انتہاؤں پہ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کے خلاف نعرہ زن ہیں جو کہ المیہ ہے اور یہ دکھ اس وقت تک موجود رہیں گے جب ہم اپنا محاسبہ نہیں کر لیتے اور عقل و دانش سے کام نہیں لے لیتے۔

شعور کی کمی تو ہمارے یہاں بدرجہ اتم موجود ہے ہی سہی اور اوپر سے سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی میں جدت کا ایسا سیلاب آیا کہ عقل محو حیرت کہ کیا ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے اور اس سیلاب میں ہمیں ایک تحفہ سوشل میڈیا کی صورت میں بھی میسر آیا اور اس کا استعمال بھی ہم نے اپنی روایات کے مطابق کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہاں سے بھی ہماری پوسٹس زہر اگل رہی ہیں، نفرت کے ترانے شیئر کیے جا رہے ہیں، اپنے لیڈر یا قائد کے سوا سبھی کو واجب النفرت ٹھہرایا ہوا ہے جو کہ اپنے ساتھ ساتھ معاشرے پہ بھی ظلم ہے کیونکہ یہاں محبت کی کمی ہے، رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے اور ہم نیرو کی طرح بانسری بجا کر چین لکھتے ہوئے اپنے لیڈر کو عظیم ترین اور اپنے مخالف کو غلیظ ترین ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں اور اس بات سے باخبر بھی ہیں کہ جس کی ہم حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت میں اندھے ہو چکے ہیں وہ ہم سے بے خبر اور اپنی دنیا میں مست ہے۔

محبت کیجئے، اپنے لیڈر یا رہنما کی حمایت بھی کیجئے اور اس کے جائز کاموں کا دفاع بھی کریں مگر اس کے غلط بیانات یا غلط اقدامات کو پہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر اختلافات کریں اور جہاں مذمت کی ضرورت ہو تو وہ بھی حسب ضرورت ضرور کیجئے کیونکہ آپ غلام نہیں بلکہ آزاد قوم کے ایک فرد ہیں۔

نفرت سے گریز کیجئے، اختلافات ہوتے ہیں وہ ڈٹ کر کیجئے اور ڈنکے کی چوٹ پہ کیجئے، تاہم مخالفین سے بھی جب پیش آئیں، خدارا تہذیب کا دامن نہ چھوڑیں کیونکہ مہذب معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ تکرار اب پرے رکھ دیجئے کہ تیرا لیڈر غلط سے غلیظ ترین اور میرا قائد پاک ہے اور عظیم ترین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments