حارث خلیق کی تخلیقی ثروت مندی


حارث خلیق ایک ایسے منفرد و ممتاز دانشور ہیں جن کا تخلیقی جوہر تین زبانوں۔ اردو، انگریزی اور پنجابی۔ کی شاعری میں عکس ریز ہے۔ خیال انگیز نثری تحریریں اس پر مستزاد ہیں۔ مجھ پر حارث خلیق کے سوز و ساز اور جستجو و آرزو کی پہچان ان کے والدین کے فیضان تربیت سے طلوع ہوئی تھی۔ ان کی والدہ مکرمہ کی خود نوشت ”کہاں کہاں سے گزر گئے“ میں حارث خلیق کا بچپن اور لڑکپن اپنے مستقبل کے بیش از بیش امکانات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔

اگر ہم ان کے مرحوم و مغفور والد خلیق ابراہیم خلیق کے فقط وہ تین خطوط ہی پڑھ لیں جو خلیق صاحب نے انگلستان میں زیرتعلیم حارث کو لکھے تھے تو ہم خلیق صاحب کے فیضان کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ (1) باقی رہی شاعری تو خلیق صاحب کے مجموعۂ کلام ”اجالوں کے خواب“ کی طویل نظم ’غریب شہر‘ کا آخری بند اگر مجھے آج تک نہیں بھول سکا تو خود حارث کیونکر فراموش کر سکتے ہیں؟ :

اب گرچہ اندھیرا چھٹ رہا ہے
محکم ہے مگر فصیل زنداں
خود بخیہ گروں کی سازشوں سے
جمہور کا چاک ہے گریباں
میں پھر بھی نہیں ہوا ہوں مایوس
”لاتقنطو“ پر ہے میرا ایماں

یہ ایمان حارث خلیق کو ورثے میں ملا ہے اور وہ اس ورثے کو مزید ثروت مند بنانے میں منہمک چلے آ رہے ہیں۔ آج جب ”اہل حکم کی یاوری اور جبر کی مجاوری“ ہمارے ہاں سکۂ رائج الوقت ہے حارث خلیق نازاں ہے کہ اس کا انقلابی مسلک بے بس اور لاچار خلق خدا کے مصائب و آلام پر دلسوزی سے عبارت ہے۔ حارث خلیق آج کی پاکستانی زندگی کے حقیقی خد و خال کی مصوری اور افتادگان خاک کے غیر مختتم مصائب و آلام کی عکاسی اور ترجمانی کا حق ادا کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنے تازہ ترین مجموعۂ کلام ”حیراں سربازار“ کی منزل تک رسائی سے پیشتر ہی وہ عشق مجازی کے مختلف و متنوع مرحلوں سے گزرتے ہوئے عشق حقیقی کی راہ پر آ نکلے تھے مگر یہ ترک دنیا کی بجائے ترک ترک کی راہ ہے۔ یہاں مجھے حارث کی نظم بعنوان ”ہمہ اوست“ یاد آئی ہے۔ اس نظم کا پہلا بند ہے :

ہر ایک ذرہ ہے حشر ساماں
ہر ایک قطرے میں ہے تلاطم
ہر ایک جوہر میں زندگی ہے
ہر ایک جوہر ہے اس کا جوہر
اس آغاز کے ساتھ یہ نظم درج ذیل بند پر اپنے اختتام کو پہنچتی ہے :
یہ روشنی ہے ثبوت اس کا
یہ زندگی ہے وجود اس کا
یہ ساری فطرت نمود اس کا
اسی کا اظہار سب نظارے

جب حارث خلیق ہمہ اوست کی اس روشنی میں اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر دوڑاتے ہیں تو اپنے اور کائنات کے خالق اکبر کے حضور شکوہ سنج ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی نظم ”تجھ سے شکوہ ہے ایک بندے کا“ یوں ختم کرتے ہیں :

تو کہ حاذق ہے اور رازق ہے
تجھ سے شکوہ ہے ایک بندے کا
بند پتھر میں ایک کیڑے کو
رزق تو نے دیا اگر مالک
یہ جو دنیا میں بے شمار انساں
روز فاقہ کشی سے مرتے ہیں
ان کو انسان کیوں بنایا تھا
کوئی کیڑا بنا دیا ہوتا

اپنے اسی مجموعۂ کلام بعنوان ”عشق کی تقویم میں۔“ کیڑوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور چند انسانوں۔ سعادت خان بلوچ، رکشے والا، رضیہ سلطانہ، مزمل گھڑی ساز اور علی محسن جیسے انسانوں کے رنج و الم پر کرداری نظمیں بھی موجود ہیں۔ ان کے ایک اور مجموعۂ کلام ”میلے میں“ ۔ غلام احمد مصلی، نذیر عالم گویا، رشیدہ ڈومنی کے ساتھ ساتھ سندھی ہوٹل لالو کھیت اور جلیاں والا باغ سے واپسی پر۔ کی سی نظموں میں اپنے مجبور و مقہور ہموطنوں کو پنجۂ استبداد میں سسکتے ہوئے دکھایا ہے۔ جب میں ان نظموں کو پڑھتا ہوں تو مجھے بے اختیار حارث خلیق ہی کی نظم ”ورلڈ بینک“ یاد آتی ہے جو یوں شروع ہوتی ہے :

چلو آؤ
ہم اپنے بینک کے
بڑھتے اثاثوں کے تناسب سے
نئی بلڈنگ بنائیں
اور اس تعمیر میں
ہم وہ وسائل کام میں لائیں
جو پس ماندہ ممالک کے
سبھی نادار جسموں میں
ذخیرہ ہیں
چلو آؤ
ہم ان جسموں کی ساری ہڈیوں کو
خوب کوٹیں
پھر ان کو پیس کے گارا بنائیں
ہم ان کے گوشت کے ٹکڑے جلا کر
پلستر بھی بنائیں اور ڈامر بھی
مگر سارے عمل میں
وہ تعفن کم سے کم ہو جو
کسی بھی چیز کے جلنے سے چوطرفہ
فضا میں پھوٹ پرتا ہے

یہ تعفن حارث خلیق کے تازہ ترین مجموعۂ کلام ”حیراں سربازار“ میں ہمارے وطن عزیز کی فضاؤں میں دور دور تک پھیلتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ سچی انقلابی شاعری کی راہ ہے۔ اس میں کھوکھلے انقلابی نعروں کی گونج کہیں سنائی نہیں دیتی۔ مظلوم اور لاچار خلق خدا۔ رشیدہ ڈومنی، سلامت ماشکی، خمیسو اور عثمان مسیح کے سے کردار ظلم کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں۔ الخلق عیال اللہ کے مصداق یہ گرے پڑے لوگ اللہ کا کنبہ ہے جن پر ہماری اس مملکت خداداد میں ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آتا۔ وجہ یہ کہ بقول حارث :

روح کی دھند کو چھانٹنے
روشنی ہم نے سینچی نہیں
سخت عجلت میں باہر سے
جب بھی اجالے لیے مستعار
ان سے سب بال و پر جل گئے۔ (دھند)

کاش اس مستعار اختیار کا مالک ہمارا حکمران طبقہ بھی ہماری قومی زندگی کی اس حقیقت الحقائق کو سمجھے اور سامراجی غلامی سے نجات پا کر سچی قومی آزادی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔ جب تک ہماری نجات کی یہ گھڑی نہیں آتی تب تک حارث خلیق ہمارے اس حکمران طبقے کو للکارتا رہے گا:

نشاط و کیف و کرم کی تاریخ تم لکھو گے
ملال و حزن و الم کی تاریخ میں لکھوں گا
ہے لوح محفوظ میں عبارت مرا مقدر
کہ حکم حاکم پہ حرف تنسیخ میں لکھوں گا۔ (مقدر)

طویل نظم ”سلاطین“ میں ہماری رواں تاریخ کے ایک تاریک ترین دور کے سفاک حقائق عکس ریز ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہمارے ہاں خونخوار آمریت اور اس کی ثناخواں ملائیت یک جان اور یک قالب ہو کر رہ گئی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ:

وہ نائب رب بحر و بر تھا
وہ زاہد خشک و خود نگر تھا
وہ از سرنو نفاذ دیں کا پیامبر تھا
سپہ گری اور ملک گیری میں کون تھا
جو بلند تر تھا۔
ہر ایک چوک اور ہر گلی میں
شبیہ سلطان کی پرستش
وظیفۂ خاص و عام ٹھہری!

نظم ”رات“ بھی اسی اندھیر نگری کی عکاس ہے۔ یہ نظم ہماری عصری زندگی کے جہنم زار کو جنت کی راہ پر لا ڈالنے کی تمنا کی صورت گر ہے :

یہی ہے وہ رات
جو اٹل ہے
اٹل ہے جب تک
ہم آسمانوں سے اٹھتے طوفاں کی آس میں ہیں
ہمارے قدموں تلے جو لاوا ابل رہا ہے
اسے خود اپنے بنائے سانچے میں ڈھالنا ہے
زمین کی کوکھ سے ہی سورج نکالنا ہے!

ہماری قومی تاریخ میں ملا یا نہ آمریت کی اس تاریک رات کے تہ در تہ اندھیروں سے نبرد آزما حارث خلیق کا سرچشمۂ فیضان معرکۂ کربلا ہے :

حریم جاں میں گندھی کربلا کی تپتی ریت
بہار، سایۂ اشجار کیا، ارم کیا ہے

اپنی نظم ’دمشق 680ء‘ میں حارث خلیق کو یزید کا دربار رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ یزید معرکۂ کربلا میں اپنی فتح کا جشن منا رہا ہے مگر بی بی زینب ؑاپنی شعلہ بیانی سے اس جشن کو ماتم میں بدل کر رکھ دیتی ہیں :

اسیر بی بی اسیروں کی قافلہ سالار
غریب شہر مگر ٹوٹنے نہ دیں پندار
بپھر کے بولیں سیاہ بخت بد نہاد ہو تم
سگان بغض ہو، ناشاد نامراد ہو تم
یہ جانتے ہو کہ کس سیپ کا گہر ہے یہ
حسینؑ ابن علیؑ کا بریدہ سر ہے یہ
یہ ایک کاسۂ سر ہے جو تم پہ بھاری ہے
امیر شہر پہ تا حشر خوف طاری ہے

حارث خلیق کے ہاں سانحۂ کربلا نوحہ و ماتم نہیں، جشن حریت ہے۔ وہ یزیدان عصر سے گریز نہیں ستیز کے مسلک پر قائم ہیں۔ ہماری عصری زندگی کے مصائب و آلام سے پنجہ آزما ہوتے وقت حارث خلیق کا سرچشمۂ فیضان شہدائے کربلا کی استقامت ہے۔ سب سے بڑے محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انسانی تاریخ میں سب سے پہلے لاقیصرولاکسریٰکی صدائے انقلاب بلند فرمائی تھی۔ جب جمہوری نظام بزور شمشیر ترک اور ملوکیت کا فرسودہ نظام ازسرنو اختیار کر لیا گیا تب حسینؑ ابن علیؑ اسلام کے انقلابی جمہوری نظام کے تحفظ اور بقا کی خاطر سربکف میدان کربلا میں اترے۔

نتیجہ یہ کہ باطل جیت کر بھی ہار گیا۔ یزیدان عصر زماں در زماں، نت نئے روپ میں خلق خدا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے چلے آ رہے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ حریت پسندی کی روش پر گامزن حسینیت کے پرستار ان کے خلاف سربکف ہیں۔ یہ حریت فکر و عمل حارث کی شخصیت اور شاعری کی پہچان ہے۔ جس طرح حارث نے اپنی کرداری نظموں میں خاک نشینوں کے رنج و الم پر داد سخن دی ہے اسی طرح ہماری قومی تاریخ کے ’صوفی مومن اور اشتراکی مسلم‘ مولانا حسرت موہانی سے لے کر شیخ ایاز اور ملالہ یوسف زئی تک متعدد شخصیات کی تحسین کا حق بھی ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے خاندان کے ان مشفق و مہربان افراد کو بھی رہ رہ کر یاد کرتے ہیں جوان کی اخلاقی اور ادبی تربیت میں فعال رہے ہیں۔ کردار کے یہی محاسن وہ اپنی نئی پود کو وراثت میں سپرد کرتے ہیں۔ اپنی نظم ”ولیؔ کے نام“ میں تمنائی ہیں کہ:

کشادہ دلی کو جبلت بنانا
بہت عشق کرنا
غم دو جہاں کو سمیٹے ہوئے
علم سے لو لگانا
ہنر سیکھنا، فن کو ہستی کا حصہ بنانا
کبھی شہر یاروں کو سجدہ نہ کرنا
نہ تم کوتوالوں سے ڈرنا
وہ جو بھی کہیں سب ہنسی میں اڑانا
اور اپنی لیاقت
شکستہ دلوں کی حمایت میں ہی آزمانا

یہ میری، آپ کی، ہم سب کی تمنا ہے حارث خلیق جس کے صورت گر ہیں۔ یہی تمنا خود ان کی شخصیت اور شاعری کی سرسبزی و شادابی کی ضامن ہے۔ اللہ کرے ذوق سخن اور زیادہ!

٭٭٭
حوالہ جات
(1) خلیق ابراہیم خلیق: چند تحریریں، مرتب:راحت سعید، ارتقا مطبوعات، کراچی، یکم فروری 2001ء۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).