عمران خان، فلمی سیاست اور نیو میڈیا


خان صاحب چھا گئے ہیں بھئی، کیا جلسہ تھا، کھڑکی توڑ رش تھا۔ جلسہ گاہ سے باہر بھی لوگ بڑی سکرینوں پہ عمران خان کو دیکھنے آتے ہیں۔ بیس سال سے ایک ہی تقریر، مگر اسٹیڈیم میں موجود لوگ جذباتی بھی ہوتے ہیں۔ روتے بھی ہیں، نعرے بھی لگاتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ سیلفی لینے کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ”اسٹیٹس“ لگاتے ہیں۔ فلائنگ کسز پھینک رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ عمران خان فلمی انداز میں گورے گورے مکھڑے پہ کالا کالا چشمہ لگائے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلاتے ہوئے اسٹیج پہ نمودار ہوتے ہیں۔

بیک گراؤنڈ میں ”جب آئے گا کپتان، سب کی جان“ چل رہا ہوتا ہے۔ میوزک کا بھی برصغیر کے لوگوں پہ نفسیاتی اثر ہے۔ ہم نے قوالی، قصیدہ، نعت، ترانہ سب میوزیکل کر لیا ہوا ہے۔ خان نے عوام کے اس موسیقائی ذوق کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ عطاء اللہ اور ابرار تو باقاعدہ گلوکار تھے۔ لوگوں کو عمران اسماعیل بھی پسند آ گیا۔ جنہیں سن کے یقین آیا کہ بھئی سیاست بہت بے سری ہوتی ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی خان صاحب کے جلسوں کی، بھئی کیا ششکے ہیں، بالی وڈ خانز ہمارے خان کا پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ اچا لما قد، چوڑی چھاتی، سکرین بیوٹی، متناسب جسم، گرجدار آواز، عمران اس خطے کے تمام فلمی ہیروز کو مات دیتا ہے۔

لیجنڈ محمد علی سے لے کر سلطان راہی تک، امیتابھ بچن سے شاہ رخ خان تک، ہم فلمی ہیروز کے ڈائیلاگز اور سٹائلز سے متاثر تھے اور ہیں۔ محمد علی عدالت میں کھڑے جج کے ضمیر کے ساتھ ساتھ کٹہرے کی چولیں بھی ہلا دیتے تھے۔ ”مجھے انصاف چاہیے جج صاحب، مجھے میری زندگی کے بارہ سال واپس کر دیں“ اور سینما ہال تالیوں سے گونج اٹھتا تھا۔ خان صاحب بھی قریب قریب اسی انداز میں کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ”میں نے بائیس سال جد و جہد کی، پاکستان کے لیے، جب کہ میرے پاس تو سب کچھ تھا، مجھے تو ضرورت ہی نہیں تھی“ اور جلسہ گاہ میں موجود ہر شخص اپنے لیڈر کی اس عظیم قربانی پہ پگھل جاتا ہے۔ عمران خان کا یہ ڈائلاگ نہ صرف عوام کو زبانی یاد ہے بلکہ وہ ایسا سمجھتے بھی ہیں کہ خان صاحب ان کے لیے ہی سیاست میں آئے تھے۔ یہ بالکل وہ ہی کیفیت ہے جو محمد علی کے ڈائیلاگز سنتے طاری ہوئی تھی اور پھر طویل ہوتی گئی کیوں کہ یہاں سین کا دورانیہ دو منٹ نہیں بائیس سال تھا۔

سلطان راہی ہاتھ میں گنڈاسا لیے ہر وقت دشمن کا گاٹا اتارنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پہ پورا کا پورا پنڈ مار دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ڈی آئی جی پولیس کو بھی ”اوئے ڈپٹی“ کہتے تھے۔ اکثر پولیس فورس سلطان راہی کی ایک بھڑک سے میدان چھوڑتی نظر آئی اور فلم کے ناظرین کے لیے قانون ایک مذاق بن کے رہ گیا اور قانون توڑنے والا پنجاب کا ہیرو۔

عمران خان نے بھی ایسا ہی انداز اپنایا ”اوئے آئی جی، میں تجھے گریبان سے پکڑوں گا“ سے لے کر ”میں ان کو رلاؤں گا“ تک خان صاحب فلمی ڈائیلاگز بولتے نظر آئے۔

جارحانہ لہجے میں بولے گئے ان ڈائیلاگز پہ خان صاحب کی سولہ سترہ سیکنڈ کی ویڈیوز بنتی ہیں۔ جو بڑی تعداد میں ان کے فالورز اپنے سوشل میڈیا سٹیٹس پہ لگاتے ہیں۔ کسی ایک صارف کا سٹیٹس اس کے سینکڑوں دوست یا فالورز دیکھتے ہیں۔ اور خان صاحب کا پیغام فردا فردا ہر موبائل استعمال کرنے والے کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

ہماری سکرین لائف شارٹ ویڈیوز یا مختصر دورانیے کی ویڈیوز کے گرد گھومتی ہے۔ تقریبا تمام ویب سائٹس مختصر دورانیے کی ویڈیوز مہیا کرتی ہیں۔ جن ویڈیوز کا دورانیہ ایک منٹ سے کم ہو وہ سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔

پھر ہمیں ٹک ٹاکرز، راک سٹارز اور فلمی ہیروز کی طرح بتایا جاتا ہے کہ خان صاحب کے اتنے لاکھ فالورز ہیں۔ جیسے خان صاحب ایک سیاستدان سے زیادہ کمرشل سیلبریٹی ہوں اور عوام ووٹر سے زیادہ فالورز یا فینز ہوں۔ عمران خان کے یہ فالورز ایکٹو سوشل میڈیا صارفین ہیں۔ خود سے کوئی پوسٹ یا سٹیٹس لکھنے کی بجائے بنا بنایا مواد شیئر کرنے پہ زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ صارفین اگر ایک جگہ مجمع کی صورت میں جمع نہ بھی ہوں یو اپنے اپنے اکاؤنٹس سے ایکٹو ہو کر ہیجان پیدا کر سکتے ہیں۔

اسی فین فالوونگ اور سیلبریٹی گیم کے چکر میں پاکستان کے بڑے بڑے سپورٹس اور شو بز سٹارز خان صاحب کے پرستار ہیں اور انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ اب ان کے فینز بھی خان صاحب کے فینز ہیں۔ اس کی وجہ سیاسی سوجھ نہیں بلکہ خان صاحب کا سیلبریٹی سٹیٹس ہے۔

آپ نے ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں دیکھا ہو گا کہ کچھ برانڈز کے اشتہاری جملے زبان زد عام ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ”داغ تو اچھے ہوتے ہیں“ کے لیے کوئی دلیل درکار نہیں اسی طرح ”امپورٹڈ حکومت، نا منظور“ ، ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے“ ، ”اوے ہم کوئی غلام ہیں“ اور ”Absoluetly Not“ جیسے مشہور زمانہ ڈائیلاگز کے لیے بھی کوئی مضبوط سیاسی منطق یا نظریہ نہیں چاہیے۔ چاہیے تو صرف یہ کہ آپ کے ووٹر آپ کو کارکردگی کے اعتبار سے پرکھنے کی بجائے آپ کے فینز ہوں۔

پاکستان ذرائع ابلاغ کی نا خواندگی کا شکار ملک ہے۔ یہاں سکرین کی پوجا کی جاتی ہے۔ اور کمرشل سیاست کو حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست جیسے سنجیدہ معاملے میں بھی کسی کا ہینڈسم، خوبصورت اور جاذب نظر ہونا کامیابی کی ضمانت ٹھہرتا ہے۔ اسی لیے ہمارے عمران خان بھی فلمی ہیروز اور راک سٹارز کی طرح کا لائف سٹائل اپنائے ہوئے ہیں کیوں کہ بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments