مسلمان اور نظریہ ارتقا!


جب بھی نظریہ ارتقاء کی بات آتی ہے تو ہمارے موجودہ زمانے کے اچھے خاصے عالم فاضل لوگ اس کو اسلام کے خلاف بتانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس طبقۂ فکر کے لوگ صرف مولوی حضرات ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بائیولوجی یعنی حیاتیات پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اس طبقے کے نزدیک ارتقاء ایک غیر اسلامی اور ملحدانہ نظریہ ہے۔ ترکی کے مصنف ہارون یحیی زمانہ موجود کے نظریہ ارتقاء کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔

لیکن اوائل دور کے مسلمانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے نظریہ ارتقاء کے بارے میں اور اس کے حق میں اپنی رائے قائم کیں۔ مضمون کے اختصار کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں ان مسلمان فلاسفہ اور علماء کی آراء کو سمویا جائے تو ان کے مطابق نظریہ ارتقاء یوں ہے :

”جاندار بے جان شے سے جاندار شے میں تبدیل ہوئے۔ سب سے پہلے انسان مردہ تھا۔ ایک نامیاتی زرہ تھا اس پر عرصہ بیتا تو وہ نباتات بنا اور اس کی بنیاد پانی تھی۔ پھر اس پر عرصہ بیتا تو وہ حرکت کرنے والا جاندار و حیوان بنا۔ پھر اس پر وقت بیتا تو ترقی یافتہ انسان بنا“ ۔

نظریہ ارتقاء دینے والے ان مسلمان فلسفہ علماء میں شامل ہیں :
*الجاھز (وفات 869 ء)
*الفارابی
*المسعودی
*امام راغب اصفہانی
*ابن مسکویہ
*البیرونی
*ابن سینا
*ابن باجہ
*ابن طفیل
*الخزینی
*ابن رشد
*الاخوان الصفاء
*ابن خلدون
*مولانا جلال الدین رومی

آج نظریہ ارتقاء کا بانی محض چارلس ڈارون کو سمجھا جاتا ہے۔ ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈارون کا ہم عصر جان ولیئم ڈریپر ڈارون پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظریہ ارتقاء اس کا اپنا نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ”محمڈن تھیوری آف ایوولوشن“ ہے۔ ڈارون ایک ہمہ جہت شخص تھا وہ عربی سے بخوبی واقف تھا بلکہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک عیسائی مستشرق پروفیسر سموئیل لی Samuel Lee سے مسلم تہذیب کے بارے میں استفادہ بذریعہ خط و کتابت کرتا رہتا تھا۔ اس نے پوری طرح سے مسلمانوں کے ارتقاء اور اس سے متعلقہ ادب پر مطالعاتی وقت صرف کیا۔

قرآن کو پڑھا جائے اور نظریہ ارتقاء کو دیکھا جائے تو کہیں تعارض اور تخالف نظر نہیں آتا۔ اللہ نے یہ تو بتانا ہے کہ آدم کو مٹی اور پانی سے پیدا کیا ہے تو درمیان کے لمحات ذکر نہیں کیے۔ قرآن میں ہے کہ تم بے جان تھے اور ہم نے تمام جانداروں کو پانی سے پیدا کیا۔ ان آیت کو نظریہ ارتقاء کے تناظر میں رکھ کر پڑھیں تو بات سمجھ آتی ہے۔ قرآن اور ارتقاء پر مفصل لکھ سکتا ہوں مگر طوالت کا خوف ہے۔

بڑی عجیب بات یہ بھی ہے کہ ہم قرآن میں یہ تو پڑھتے ہیں کہ انسان سور اور بندر بن گئے تھے لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ انسان ان حیوانات سے ترقی کر کے انسان بنا۔ یہ تو سراہنے کی بات ہے کہ انسان کتنے زمانے اور قرون کے بعد ترقی کرتے کرتے انسان بنا۔ نظریہ ارتقاء ہمیں خدائی طریقہ تخلیق کو سمجھنے کے لیے کارگر ہے یہ ہمیں خدا کے قریب بھی کرتا ہے اور ہمارے انسان ہونے کی اہمیت و حیثیت کو بڑھاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments