ہم گمراہ تھے اور استعمال ہوئے: ڈاکٹر معید پیرزادہ کا اعتراف


2014 کے عمران خان کے دھرنے کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کرنے والا اور سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کی ڈس کوالیفکیشن کا فیصلہ آنے کے بعد کورٹ کے باہر وکٹری کا سائن بنانے والا کردار ڈاکٹر معید پیرزادہ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ پیشی کے بعد مطیع اللہ جان کے ہتھے چڑھ گیا۔ معید پیرزادہ اینکر پرسن ہیں اور صحافیوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو دل و جان سے مشرف با عمران ہو گئے تھے اور اس میڈیا کمپین کا حصہ تھے جنہوں نے عمران خان کو سچا، دیانتدار، اعلی درجے کا صادق و امین اور مسیحا پینٹ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی تک کا زور لگایا تھا۔

روزانہ اپنے ٹی وی پروگرامز کے ذریعے سے عدالت لگا کر مخالفین عمران کو میر جعفر و صادق اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹا کرتے تھے۔ یہ لوگ صحافی کی بجائے جوتشی زیادہ لگنے لگے تھے اور خان صاحب کے متعلق ایسی ایسی مضحکہ خیز قسم کی پیشگوئیاں کرتے تھے کہ بعض اوقات ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا تھا اور شاید خان صاحب بھی اپنی ذات سے متعلق اتنا باخبر نہیں ہوں گے جتنے یہ فدائین تھے۔ خیر مطیع اللہ جان نے نواز شریف کی ڈس کوالی فکیشن کے حوالہ سے کچھ تیکھے سوال پوچھے تو موصوف کا فرمانا تھا۔

”نواز شریف والے معاملہ پر ہم گمراہ تھے اور استعمال ہو گئے تھے، مجھے نواز شریف کی نا اہلی مشکوک لگتی ہے اس بات کا ادراک مجھے جے آئی ٹی کی جناتی رپورٹ پڑھنے کے بعد ہوا۔ اتنے جناتی حقائق کے باوجود نا اہلی جس بنیاد پر ہوئی اس نے سوالیہ نشان چھوڑ دیا، کیا وہ جناتی حقائق ٹریش تھے؟ وکٹری سائن کے متعلق کہا کہ وہ ان کا غلط رویہ تھا اور میں چند مہینوں سے اس گمراہی جال سے باہر نکلا ہوں اور انہیں اب سمجھ آ رہی ہے کہ انہیں گمراہ کیا گیا تھا“

صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے مگر اتنا بھی کیا، کسی شخص یا اس کے فلسفے کو اس حد تک خود پر سوار کر لینا کہ عقل ہی ماؤف ہو جائے اور آپ جوتشی کے اس طوطے کی مانند ہو جائیں جس کا کام فقط سامنے پڑی درجنوں فالوں میں سے چونچ کے ذریعے ایک فال اٹھانا ہوتا ہے جسے پڑھ کر جوتشی اپنے مخاطب سے کچھ پیسے ہتھیا لیتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ طوطا جوتشی کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے جب کہ آپ دیدہ و نادیدہ طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں اور انہی کا لکھا ہوا سکرپٹ ٹی وی اسکرین پر پرفارم کر کے چلتے بنتے ہیں۔

دراصل آپ ”کیمرہ ایتھکس“ سے بے نیاز ہو کر چند انچ کی اسکرین کو کسی فرقے کے مولوی کا منبر سمجھتے ہوئے خود کا ایک شخصی فرقہ بنا لیتے ہو۔ اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی آپ نے اپنی عقل و دانش کو کسی لیڈر کے ہاں گروی ہی رکھنا ہے اور ٹی وی پر بیٹھ کر مخصوص فکر کی طوطا فال نکالنی ہے تو آپ کو اینکر بننے کی بجائے تھڑے کا جوتشی بن جانا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ ابھی ذہنی پختگی اور شعور کی ان بلندیوں کو نہیں چھو پایا یا قوم کے وسیع تر مفاد میں چھونے نہیں دیا گیا، کچھ بھی کہہ لیں مگر اس حقیقت پر کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ملک کی اکثریت چند انچ کی ٹی وی اسکرین کو ہر مسئلے کے حل کا ایکسپرٹ پلیٹ فارم یا ہاؤس آف وزڈم سمجھتے ہیں اور ٹی وی پر بولنے والے بندے کی ذاتی رائے کو ماہرانہ رائے تصور کرتے ہیں۔

بطور استاد میں اپنے سٹوڈنٹس سے گفتگو کرتا رہتا ہوں اور طلبہ کی غالب اکثریت کا یہی ماننا ہے کہ انہوں نے فلاں بات ٹی وی پر سنی تھی بھلا ٹی وی پر نشر ہونے والی بات غلط کیسے ہو سکتی ہے۔ اسی اسکرین کے سہارے عامر لیاقت جیسا رنگین مزاج مداری عالم آن لائن کے نام سے سالوں شعبدے بازی کر کے اچھا خاصا نام کمانے میں کامیاب ہو گیا۔ خاص طور پر رمضان ٹرانسمیشن کے دوران 27 مئی کی شب عامر لیاقت کی اجتماعی دعا میں شمولیت کے لیے لاکھوں لوگ منتظر رہتے تھے۔

دعاؤں سے بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ اگر کچھ ہونا ہوتا تو تبلیغی جماعت والے لاکھوں کے اجتماع میں نجانے کب سے رو رو کر دعائیں کروا رہے ہیں مگر ہماری حالت ذرا سی بھی نہیں بدلی البتہ دعا منگوانے والے کوٹھیوں، ملوں اور بزنس امپائر کے مالک ضرور بنے ہیں مگر ان کی معیت میں دعا مانگنے والے جوں کے توں اور آج بھی دعاؤں کے سہارے جی رہے ہیں۔ مبلغین ہمارا چہرہ آسمانوں کی طرف کر کے، اینکرز پروپیگنڈا کا شکار بنا کر اور طاقتور مزید طاقتور ہو کر اپنی شاہی زندگی اسی سرزمین پر جشن کی صورت منا رہے ہیں۔

بطور اینکر آپ کو تجزیہ اور تبلیغ کے فرق کو جاننا چاہیے۔ معید پیرزادہ کا یہ اعتراف کرنا کہ نواز شریف اور کئی دوسرے معاملات پر ہم استعمال ہو گئے تھے کیا آپ کا بڑی آسانی سے یہ چند جملے بول دینا کافی ہے؟ ایک طویل عرصہ تک آپ ٹی وی پروگرامز کے ذریعے جو میر جعفر و صادق یا غدار غدار کھیلتے رہے ان کا مداوا کرنے کے لئے یہ چند جملے کافی ہیں؟ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ پوری زندگی رنگینیاں انجوائے کرنے کے بعد آ خری عمر میں گناہوں کے کفارہ کے نعم البدل کے طور پر حج کی سعادت حاصل کر کے اپنی بلیک لائف کو وائٹ یا برائٹ بنا لیا جائے۔

آپ تو معاشرے کے وہ سیانے ہیں جو سسٹم میں گھس کر اپنا شیئر وصول کرنے کے فن سے آشنا ہیں مگر عوام کا کیا جنہیں آپ وقتاً فوقتاً ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر گمراہ کرتے رہتے ہیں؟ ایسے معاشرے کی ذہنی سطح پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جہاں اینکر مبلغ کا کردار نبھانے لگے اور ڈائیلاگ کی بجائے مونو لاگ کو ترجیح دینے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments