پاکستان تصادم کے راستے پر


تحریک انصاف کے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ پر اصرار اور حکومت کی طرف سے بہر صورت اسے روکنے اور لانگ مارچ یا دھرنا دینے کی اجازت دینے سے انکار کے بعد ملک عملی طور سے براہ راست تصادم کے راستے پر گامزن ہے۔ حیرت انگیز طور پر حکومت اور تحریک انصاف دونوں اپنے اپنے خواب کی تکمیل کے لئے اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہیں حالانکہ ملک کو اس سیاسی بحران کی طرف دھکیلنے میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کوئی نہیں جانتا کہ بدھ کو جب عمران خان پشاور سے جلوس لے کر اسلام آباد پہنچنے کے ارادے سے نکلیں گے تو اٹک کے بعد پنجاب کے علاقے میں داخل ہوتے ہوئے انہیں کس قسم کی صورت حال کا سامنا ہو گا اور وہ کیوں کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ نہ ہی یہ بات واضح ہے کہ تمام تر انتباہ اور دھمکی آمیز گفتگو کے باوجود اگر عمران خان واقعی دس بیس ہزار کا مجمع لے کر خیبر پختون خوا سے پنجاب میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو حکومت ان کا راستہ روکنے کے لئے کس حد تک سخت رویہ اختیار کر سکتی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ہر قیمت پر ’شر پسندوں اور انارکی پھیلانے والوں‘ کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے پارٹی کے یوتھ ونگ سے خطاب میں نوجوان کارکنوں کو اپنی ’حملہ آور فورس‘ قرار دیا جو تمام رکاوٹوں کو دور کر کے پارٹی کے لانگ مارچ کا راستہ ہموار کرے گی۔ عمران خان نے واضح کیا ہے کہ ان کا لانگ مارچ ہر قسم کی رکاوٹیں دور کر کے اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گا اور کوئی حکومت ’عوام کے سیلاب‘ کو دارالحکومت کی طرف آنے سے نہیں روک سکے گی۔

عمران خان کی یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ اگر عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ لانگ مارچ میں شامل ہوئی تو کوئی مسلح طاقت ایسے جلوس کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تحریک انصاف کے لیڈر تو لاکھوں لوگوں کا ہجوم لے کر اسلام آباد داخل ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن درحقیقت اگر عمران خان کی قیادت میں بیس پچیس ہزار لوگ بھی اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے اور حکومت مختلف ہتھکنڈوں سے انہیں تتر بتر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو پھر شاید اس ہجوم کی پیش قدمی روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ بات اب واضح ہو رہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے بادل نخواستہ ہی سہی کسی حد تک شہباز شریف کی حکومت کے اس ’حق‘ کو تسلیم کر لیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روک لے اور امن و مان قائم کرنے کے لئے ممکنہ اقدام کرے۔ اسلام آباد میں دو ہزار فوجی جوانوں کی تعیناتی اور رینجرز و ایف سی کو تیار رہنے کے احکامات اسٹبلشمنٹ کی اس ’رعایت‘ کا اشارہ ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک روز کے اندر یہ تبدیلی قلب کیوں کر رونما ہوئی ہے اور کیا یہ حکمت عملی صرف لانگ مارچ کو روکنے یا محدود کرنے کے لئے اختیار کی گئی ہے تاکہ موجودہ حکومت کا بھرم قائم رہے اور عمران خان بھی اپنا احتجاج رجسٹر کروا لیں۔ ماضی کے تجربات اور شواہد کی روشنی میں اس امکان کو تو رد نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان نے اگر خود جلوس کی قیادت کی اور ان کے ساتھ چند ہزار لوگ شامل ہوئے تو وہ کسی طرح بھی اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے تک پہنچنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ گرفتاری یا براہ راست کسی تصادم کا حصہ بننے سے بچنے کے لئے عمران خان خود پشاور سے روانہ ہونے والے جلوس میں شامل نہ ہوں یا راستہ میں کسی مقام پر اچانک اپنی پوزیشن تبدیل کر لیں اور پھر ڈرامائی طور سے سری نگر ہائی وے پر جمع ہونے والے لوگوں میں پہنچ کر لانگ مارچ کی کامیابی کا اعلان کر دیں۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ اگر دس ہزار تک کا مجمع بھی سری نگر ہائی وے پر جمع ہو جائے گا تو شام کو جلسہ کے بعد اس کی تعداد بہت کم رہ جائے گی۔ اس طرح عملی طور سے عمران خان کی طرف سے ’لاکھوں لوگوں کا دھرنا‘ دینے کا خواب منتشر ہو جائے گا۔ البتہ اگر عمران خان تمام رکاوٹوں کے باوجود تیس چالیس ہزار لوگ بھی جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ان میں سے دس بیس ہزار نے دھرنا دینے کا ارادہ کیا تو تصادم کا امکان بڑھ جائے گا۔

حکومت کل تک امن قائم رکھنے کی شرط پر لانگ مارچ کی اجازت دینے پر راضی تھی۔ لیکن راتوں رات کچھ ایسے حالات رونما ہوئے ہیں کہ آج صبح کابینہ کے اجلاس میں لانگ مارچ روکنے کا فیصلہ کیا گیا اور باقی وزرا کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے صبح 11 بجے اس کا باقاعدہ اعلان کیا۔ البتہ پنجاب میں حکومتی فورسز کی سرگرمیوں سے گزشتہ رات کے دوران ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ حکومت تحریک انصاف کی منصوبہ بندی میں خلل ڈالنا چاہتی ہے اور لوگوں کو جمع کر کے اسلام آباد لے جانے کے منصوبوں کو ناکام بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ رات کے دوران متعدد اہم لیڈروں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور خبروں کے مطابق گرفتاریوں کے علاوہ تحریک انصاف کی قیادت کو ہراساں کیا گیا۔ تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک پٹیشن میں ریلیف لینے کی کوشش کی تھی لیکن چیف جسٹس اطہر من اللہ بھی اس سے زیادہ سہولت دینے پر تیار نہیں تھے کہ ’حکومت تحریک انصاف کے لوگوں کو ہراساں‘ نہ کرے۔ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کے ساتھ مکالمہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کوئی ایسی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتی کہ اسے کسی ناگہانی سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ ان ریمارکس کو سادہ لفظوں میں یوں بیان جا سکتا ہے کہ حکومت کو فی الوقت من مانی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ رانا ثنا اللہ اس ’حق و اختیار‘ کو پوری طرح استعمال کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بظاہر ایک آئینی طریقے سے اقتدار سنبھالنے والی حکومت ایک سیاسی احتجاج کو طاقت سے روکنے اور ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے متعدد صحافیوں کو مختلف مقدمات میں الجھانے کی کوشش بھی کی جا چکی ہے۔ اب گھروں پر چھاپے مار کر، راستے روک کر، دفعہ 144 نافذ کر کے اور ہراساں کرنے والے دھمکی آمیز بیان دے کر لوگوں کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں شریک نہ ہوں ورنہ وہ اپنی جان و مال کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس کا فیصلہ تو بدھ کی شام تک ہی ہو سکے گا کہ حکومت کس حد تک مظاہرین کو خوفزدہ کرنے یا گھروں تک محدود کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام بہر حال پر امن سیاسی احتجاج کرنے کے بنیادی جمہوری اصول کے خلاف ہے اور ملکی آئین میں اجتماع اور اظہار کی آزادی کے حق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے حکومتی طریقوں کو فسطائی ہتھکنڈے قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی احتجاج کی بجائے انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے اور کسی بھی قیمت پر تصادم کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف کے لیڈروں کے ایسے بیانات کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ لانگ مارچ کے دوران خوں ریزی بھی ہو سکتی ہے اور یہ احتجاج خونی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دھمکی نما بیانات شاید سیاسی ماحول میں شدت پیدا کرنے کے لئے دیے گئے ہوں لیکن اب حکومت انہیں تحریک انصاف کے پر امن احتجاج کے حق کو مسدود کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے اور کسی حد تک عدلیہ بھی اس سے متفق ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان عطا اللہ تارڑ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ فیصلہ خفیہ اور حساس اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکن اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے نہ صرف لاٹھیاں اور اسلحہ اکٹھا کر رہے ہیں بلکہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے شیل بھی جمع کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ اداروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ لانگ مارچ کے دوران کوئی خودکش حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ ملاقات میں بعض ایسی معلومات سامنے آئی ہیں جنہیں شیئر نہیں کیا جاسکتا۔

پنجاب حکومت کی اس دلیل کے باوجود عمران خان نے لانگ مارچ روکنے کا اعلان سامنے آنے کے بعد پشاور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومتی فیصلہ کو جمہوریت پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے فوج اور عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ اگر اس حکومتی کوشش کو نہ روکا گیا تو عدلیہ کی ساکھ ختم ہو جائے گی اور فوج متنازعہ بن جائے گی۔ انہوں نے سول بیوروکریسی کے افسروں کو بھی دھمکی آمیز انداز میں متنبہ کیا کہ ان کے نام نوٹ کیے جا رہے ہیں اور دیکھا جا رہا ہے کہ کون کون ’مجرم حکومت‘ کے غیر قانونی احکامات پر عمل کرتا ہے۔ عمران خان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ان کا لانگ مارچ احتجاج نہیں ہے بلکہ ’جہاد‘ ہے اور اس کی مخالفت کرنے والا ہر گروہ، طبقہ یا ادارہ عوام اور ملک کا دشمن ثابت ہو گا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’جہاد‘ درحقیقت اعلان جنگ کے مترادف ہے اور اس کا استحقاق بہر حال کسی باقاعدہ حکومت ہی کو حاصل ہے عمران خان سخت الفاظ استعمال کرنے اور پی ٹی آئی کے یوتھ ونگ کو ’اپنے جنگجو اور فائٹنگ فورس‘ قرار دینے سے گریز نہیں کرتے۔ عمران خان کا یہ رویہ درحقیقت حکومت کے سخت ایکشن کا جواز فراہم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ وہ اگر اپنا سیاسی بیانیہ معتدل کر سکتے اور حکومت وقت کے ساتھ مواصلت کے تمام راستے بند نہ کرتے تو صورت حال شاید اس قدر سنگین نہ ہوتی۔

ان حالات میں ملکی اسٹبلشمنٹ کا کردار دلچسپ اور حیران کن حد تک اہم ہو گیا ہے۔ ایک طرف حکومت نے اسٹبلشمنٹ سے ’اجازت‘ لے کر تحریک انصاف کے خلاف اقدام کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے تو دوسری طرف عمران خان فوج کو ہی اپنی مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ حکومت اور حکومت سے باہر سیاسی لیڈر یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ اگر وہ اسٹبلشمنٹ کی بجائے ایک دوسرے پر بھروسا کرنے اور باہم احترام اور قبولیت کا تعلق استوار کرنے کی کوشش کرتے تو ملکی حالات شاید اس حد تک دگرگوں نہ ہوتے۔ جمہوری آئینی انتظام کے تحت ملکی اقتدار حاصل کرنے کی خواہاں سیاسی پارٹیاں جب تک اس بنیادی نکتہ کو تسلیم نہیں کریں گی، ملکی حالات و واقعات پر ان عناصر کا کنٹرول برقرار رہے گا جنہیں اس کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments