سنگ دل طالبان کی بیٹیاں اور خوش دل بیٹیوں کی بانسریاں


میں اس پیڑی سے ہوں جو افغان جہاد کے شور شرابے میں پروان چڑھی۔ گلی گلی جہاد کچھ اس طرح مچا ہوا تھا کہ اچھی بات ٹھیک سے سنائی ہی نہیں دیتی تھی۔ ان گنت افغانوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ بے شمار پاکستانیوں کو جہاد کا ایندھن بنا کر افغانستان میں جھونک دیا گیا۔

کراچی کے علاقے لسبیلہ اور سہراب گوٹھ سے ہفتہ وار بنیادوں پر بسیں افغانستان روانہ ہوتی تھیں۔ بس پر سفید رنگ کے دو جھنڈے لہرائے جاتے تھے جن کی تکریم پاکستانی پرچم سے بھی زیادہ تھی۔ دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے نادار بچوں کو بس میں سوار کیا جاتا تھا۔ بزرگ علماء رقت آمیز دعاؤں میں انہیں رخصت کرتے تھے۔ خدا تمہیں فتح نصیب کرے، شہادت تمہارا مقدر ہو۔ آمین آمین اور الجہاد الجہاد کی گونج میں بس کے دروازے بند ہو جاتے تھے۔ ڈرائیور چار گیئر پورے کر کے ٹیپ پر جہادی ترانے لگا دیتا تھا۔ سربکف دوستو، صف شکن ساتھیو، اپنی تاریخ کو پھر سے ترتیب دو ۔ بوڑھے ماں باپ کے خوابوں کو روندتی ہوئی یہ بس طور خم یا چمن بارڈر کی طرف نکل جاتی تھی۔

ان دنوں یہ بحث گرم تھی کہ کیا والدین کی اجازت کے بغیر جہاد کے لیے جانا ازروئے شرع جائز ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایسی حدیثیں تراش لی گئی تھیں جس میں قرن اول کے لوگوں نے عظیم مقصد کی خاطر اپنے والدین کو چھوڑ دیا تھا۔ جو بچے بہکا دیے گئے تھے وہ انہی حدیثوں کی سہارے یا تو بن بتائے نکل جاتے تھے یا پھر اپنے والدین کو ایک خط لکھ کر کہہ دیتے، ماں! مجھے معاف کرنا۔ دنیا میں میرے لیے تم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، مگر خدا نے جس مقصد کے لیے مجھے چن لیا ہے وہ تم سے بھی بڑھ کر ہے۔ لوٹ آؤں تو تم ایک غازی کی ماں بنو گی۔ نہ لوٹ سکا تو ایک شہید کی ماں بن جاو گی۔ قیامت کے روز فرشتے تم پر ناز کریں گے۔ تمہیں جواہرات سے آراستہ ایک تاج پہنائیں گے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل فون کے آنے میں اور انٹرنیٹ کا جال بچھنے میں ابھی وقت تھا۔ مدرسوں میں پڑھنے والے مسافر بچوں کے لیے والدین سے رابطے کے لیے خط کا ہی سہارا تھا۔ ان بچوں کے والدین دور پہاڑوں یا قصبوں اور دیہاتوں میں رہتے تھے۔ یہ ان پڑھ بھی تھے اور غریب بھی تھے۔ ایک فون کال کے لیے انہیں دور شہر آنا پڑتا تھا۔ جو کال شہر میں رہنے والوں کو دس روپے کی پڑتی تھی وہ انہیں ڈیڑھ دو سو میں پڑ جاتی تھی۔ خط لکھنے کے لیے یہ گاؤں کے کسی نیم خواندہ شخص کی مدد لیا کرتے تھے۔ پھر گھر گھر آواز دیتے تھے کہ کوئی لاہور، فیصل آباد یا کراچی جائے تو بتانا، بیٹے کو خط بھجوانا ہے۔ شہر کی طرف کسی کا جانا ہو تو بتائے، خط لیٹر بکس میں پھنکوانا ہے۔ اس بندوبست میں کبھی اتنے دن گزر جاتے کہ انگیٹھی میں جلنے والی لکڑیوں کی بو اور ماں کے گھی والے ہاتھوں کی مہک اس خط میں رچ بس جاتی تھی۔

خط لیٹر بکس پہنچ جاتا تو مدت تک جواب کا انتظار کیا جاتا تھا۔ انتظار کی رات لمبی ہوجاتی تو مائیں خود کو تسلی دے لیتیں کہ ڈاکیے کو خط نہیں ملا ہو گا۔ خط پہنچ گیا ہو مگر بچے کے ہاتھ لگنے سے پہلے گم ہو گیا ہو گا۔ بچے نے جواب لکھ دیا ہو گا مگر لیٹر بکس میں ڈالنے کا وقت نہیں ملا ہو گا۔ یا بھیج دیا ہو گا مگر رستے میں ہو گا۔

افغانستان گئے ہوئے بچے جب سالانہ چھٹیوں تک بھی واپس نہ آ پاتے تو کوئی دوست ان کے والدین کو فون کر کے کہہ دیتا کہ آپ کا بچہ تزکیہ نفس کی خاطر تبلیغی جماعت میں نکل گیا ہے۔ چالیس دن کا دورہ ہے، اطمینان رکھو جلد واپس آ جائے گا۔ مائیں مطمئن ہو جاتیں کہ چلو جہاں بھی ہو گا کھانا تو وقت پر مل رہا ہو گا۔

یہ وقت بھی جب انتظار میں گزر جاتا تو ریشمی شملوں والے علماء پھول اور مٹھائی کے ڈبے لے کر ان کے گھر چلے جاتے۔ مائی کو پہلے شہادت کی فضیلت سناتے، پھر مبارکباد دیتے کہ خدا نے آپ کو ایک شہید کی ماں ہونے کا اعزاز عطا کر دیا ہے۔ اس جہان فانی میں اور بھی لاکھوں مائیں تھیں مگر اس اعزاز کے لیے خدا نے تمہارا انتخاب کیا۔ معلوم ہے کیوں؟ کیونکہ تم بدکردار نہیں ہو تمہاری کوکھ صاف ہے۔ طارق بن زیاد اور خالد بن ولید ایسی ہی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں۔ سیدھی سادی اور ناسمجھ مائی ایک آنکھ سے روتی اور دوسری آنکھ سے مسکرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی کہ میں واقعی اس اعزاز پر خوش ہوں۔ علماء اسی ماں کی ہاتھ کی بنی ہوئی زیادہ چینی والی چائے پیتے اور مکرر مبارک دیتے ہوئے نکل جاتے۔

علماء کو اندازہ نہیں تھا کہ قتال کی جو جھوٹی فضیلتیں وہ رو رو کر سنا رہے ہیں، ایک دن ان کے اپنے بچے بھی اس پر ایمان لے آئیں گے۔ کئی علما تھے جنہیں صبح اٹھنے پر بیگمات نے بتایا کہ رات بچہ گھر نہیں آیا۔ مدرسے پہنچ کر معلوم کیا تو بچہ افغانستان جا چکا تھا۔ علمائے کرام کے دن کا سکون اور رات کا چین غارت ہو گیا۔ ان گھروں میں مسلسل سوگ کا عالم تھا۔ ان علماء کے یہاں نام تک درج کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے اپنے ’روحانی بچوں‘ کو مقتل جانے والی بسوں میں سوار کیا اور اپنے سگے بچوں کو ڈھونڈنے ہلمند اور جلال آباد پہنچ گئے۔ اگلے مورچوں اور کیمپوں میں روکھی سوکھی کھانے والے غریب لڑاکے اس منظر کو دیکھ کر حیران تھے، مگر علمائے کرام کے غیر محدود اور غیر مشروط احترام نے انہیں یہ سب چپ چاپ سہنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔

علماء کے یہ سگے بچے واپس پہنچے تو ان کی سرزنش کی گئی اور پوچھا گیا، تم جب جا رہے تھے تمہیں اپنی بوڑھی ماں کا ذرا بھی خیال نہیں آیا؟ اس سوال کے جواب میں یہ بچے بہت کچھ کہنا اور پوچھنا چاہتے تھے، مگر انہیں حکم ہوا تھا کہ والدین کے آگے اف تک بھی نہیں کرنی۔

یہ ساری کہانی طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا ایک انٹرویو سن کر یاد آئی۔ یہ صاحب عالمی ذرائع ابلاغ پر گلابی انگریزی میں طالبان کے غیر انسانی رویوں کا دفاع کرتے ہیں۔ وہی طالبان، جنہوں نے افغان بچیوں پر اسکول کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ موسیقی، اداکاری، تدریس اور صحافت سے وابستہ خواتین کو ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ فٹبال ٹیم کی خواتین کھلاڑی اپنا مستقبل بچانے کے لیے پاکستان کی طرف نکلنے پر مجبور ہوئیں۔ اب وہ یہاں سے بھی نکل کر مختلف ممالک کی طرف نکل گئی ہیں۔

سہیل شاہین اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور دونوں قطر میں اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی فٹبالر بھی ہیں۔ ان بچیوں کا یہ حق ہے کہ بہترین تعلیم حاصل کریں اور عملی کردار ادا کریں۔ لیکن کیا بیٹیاں وہی ہوتی ہیں جو آپ کے اپنے آنگن میں کھیلتی ہیں؟ اپنی بچیوں کے لیے اچھا سوچنے والا طبقہ دوسروں کی بچیوں کے لیے برا سوچنے والا دل کہاں سے لاتا ہے۔ دوسروں کی بچیوں پر تعلیم، ہنر اور فن کا دائرہ تنگ کرنے والے اپنی بچیوں کا سامنا کرنے والی آنکھ کہاں سے لاتے ہیں۔ یہ آنکھیں اتنی خشک کیسے ہوتی ہیں اور یہ دل اتنے پتھر کیوں ہوتے ہیں۔

آریانا سعید کی ’بدقسمتی‘ دیکھیے کہ وہ کسی سہیل شاہین کی بیٹی نہیں ہے۔ وہ افغانستان کی بیٹی ہے، جو گیت گاتی ہے اور بانسری بجاتی ہے۔ طالبان ایک کے بعد ایک فصیل پھلانگتے ہوئے کابل پہنچے تو آریانہ کو اپنی بانسری اور تجوری چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ اس نے دوسری بار اپنی دنیا کو اجڑتے دیکھا ہے، مگر اس کا دل پتھر کا نہیں ہوا۔ تبھی تو وہ سہیل کی بیٹی کے لیے بھی اتنی ہی فکرمند ہے جتنی سہیلی کی بیٹی کے لیے فکرمند ہے۔ ایک اخبار نویس سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا، میں طالبان سے گزارش کروں گی کہ وہ خود کو موسیقی سننے کا ایک موقع ضرور دیں۔ میں یقین سے کہتی ہوں ان کے دل نرم ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments