لالے کی حنا بندی


1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھین لینے کے بعد ان کے اذہان و قلوب کو بھی مسخر کرنے کی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ عیسائی مشنریوں نے برصغیر پر دھاوا بول دیا تھا جو اسکولوں اور اسپتالوں کا ایک جال بچھا رہی تھیں۔ مغربی مصنفین من گھڑت واقعات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور اس نے انسانی تہذیب اور فکر انسانی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر سے روح محمدی ﷺ نکال دی جائے۔ مختلف اطراف سے ہونے والے ان حملوں سے مسلم مفکرین اور دانش وروں میں یہ احساس گہرا ہوتا گیا کہ یورپی طاقتوں کے توسیع پسندانہ عزائم سے محفوظ رہنے کے لیے بین الاسلامی تعاون اور مقامی سطح پر مضبوط اداروں کا قیام ازبس ضروری ہے۔

مغلوں کی حکومت کے خاتمے کے صدمے سے سنبھلتے ہی مولانا محمد قاسم نانوتوی نے 1866 میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی جنہوں نے 1857 میں انگریزی فوجوں کا مقابلہ کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کا سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کو اپنے دین کے ساتھ پیوستہ رکھنا اور برطانوی سامراج کے خلاف جذبۂ مزاحمت کو تقویت پہنچانا تھا۔ بلاشبہ دارالعلوم دیوبند نے جید علما پیدا کیے جو وسیع پیمانے پر قال اللہ و قال الرسول ﷺ کا درس دیتے اور جذبۂ حریت پیدا کرتے رہے، مگر وہ کانگرسی سیاست کی زد میں آ گئے، تاہم ان کا ایک حلقہ اسلامی قومیت کا داعی رہا۔

اسی عہد میں 1875 کے لگ بھگ سرسید احمد خاں نے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا جس کی بنیادی غرض و غایت مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے ایک معیاری نظام کا قیام اور صلاحیت کار بڑھا کر انتظامیہ میں اپنا حصے کا حصول تھا۔ بلاشبہ علی گڑھ یونیورسٹی نے نامور سیاست دان، فلسفی، منتظمین، سائنس دان اور کمال درجے کے ریاضی دان پیدا کیے جبکہ سرسید احمد خاں نے مجلہ ”تہذیب الاخلاق“ کے ذریعے ایک سائنسی اسلوب اظہار اور جدید اسلوب حیات کی پرورش کی۔ اس کے نتیجے میں سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

سیاسی حالات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور کے چشمے مختلف علاقوں میں پھوٹنے لگے۔ پنجاب کی سرکردہ شخصیتوں اور مخیر حضرات نے 24 ستمبر 1884 کو ’انجمن حمایت اسلام‘ کی داغ بیل ڈالی جس کا بنیادی مقصد مسلم نوجوانوں اور خواتین کو جدید نظام تعلیم بہم پہنچانا اور اسلام کے خلاف عیسائی مشنریوں کے پروپیگنڈے کو غیر موثر بنانا تھا۔ علامہ اقبالؔ بھی سالہاسال اس تنظیم کی صدارت پر فائز رہے۔ وہ ایک غیرسیاسی تنظیم تھی، مگر آگے چل کر قومی تحریکوں کی آماجگاہ بن گئی۔

اس کے سالانہ اجتماعات میں لوگ دوردراز شہروں سے آتے اور قومی جذبوں سے سرشار ہو کر لوٹتے تھے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر اقبالؔ روح کو گرما دینے والی اپنی زیادہ تر نظمیں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں پڑھتے تھے جنہیں سننے کے لیے ہزاروں نوجوان جمع ہوتے اور ان کا کلام قریے قریے پہنچاتے رہتے۔ قائداعظم بھی گاہے گاہے انجمن کے اجتماعات سے خطاب فرماتے اور اس کے زیراہتمام چلنے والے اسلامیہ کالج کے طلبہ میں قومی سوچ کو پروان چڑھاتے رہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی ایک توانا فکری قوت کے طور پر ابھرے اور مسلمانوں کے اندر محبوب خدا حضرت محمد ﷺ کے ساتھ عقیدتوں اور محبتوں کے رشتے مستحکم کرنے کے مشن پر تن دہی سے کام کرتے رہے۔ ان کی علمی اور فقہی وجاہت کا یہ عالم تھا کہ حکیم الامت علامہ اقبال ان کے بارے میں فرماتے تھے کہ ”اگر ان میں شدت نہ ہو، تو وہ اپنے عہد کے امام ابوحنیفہؒ ہیں۔“ ان کی پیہم کوششوں سے 1920 کے لگ بھگ ان کی بریلوی مسلک کی جماعت اس مرتبہ پر یکسو ہو چکی تھی کہ مسلمانوں کا ہندوؤں سے اتحاد نہیں ہو سکتا۔

وہ علی برادران کو بھی اس حقیقت کا شعور دلانے میں بھی کامیاب رہے جو کانگرس سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ پاکستان کے معروف تاریخ دان جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ان کی اور مولانا نعیم الدین کی سیاسی بصیرت کی اپنی کتاب Ulema in Politics (علما سیاست میں ) میں کھل کر تعریف کی ہے، البتہ جناب احمد رضا خاں کی طرف سے جاری ہونے والے کفر کے فتووں نے مذہبی ماحول میں ایک تناؤ پیدا کر دیا تھا۔ غالباً ان کی انتہاپسندی میں ان بدبختوں کے خلاف ردعمل شامل تھا جو پیغمبر اعظم جناب محمد ﷺ کو اللہ اور بندوں کے درمیان ایک ہرکارے کی حیثیت دیتے تھے یا حدیث اور ختم نبوت کے منکر تھے۔

یہی وہ زمانہ تھا جب ممتاز علما کا ایک گروہ کانپور میں جمع ہوا اور اس نے 1893 میں ’دارالعلوم ندوۃ العلما‘ کی بنیاد رکھی۔ اس کی غرض و غایت علما کو تحقیق و تحریر کی جدید خطوط پر تربیت دینا تھا۔ اس اکیڈمی نے بڑے نامور محققین اور مصنفین تیار کیے جن میں سید سلیمان ندوی، سید ابوالحسن ندوی، سید عبدالسلام ندوی، شاہ معین الدین ندوی، سید مسعود عالم ندوی اور عبدالرشید ندوی قابل ذکر ہیں۔ اعلیٰ معیاری کتابوں کی تیاری اور ان کی عمدہ اشاعت کے لیے یو پی کے شہر اعظم گڑھ میں ’دار المصنفین‘ کا قیام عمل میں آیا جس کا خواب نادر روزگار شخصیت علامہ شبلی نعمانی نے دیکھا تھا۔

ان کی زندگی میں ان کا خواب پورا نہ ہو سکا، تاہم 1914 میں یہ عظیم ادارہ وجود میں آیا۔ اس نے سیرت، اسلامی تاریخ، مسلم مشاہیر، ادب اور فلسفے پر نہایت مستند اور خوبصورت کتابیں شائع کیں۔ مستشرقین بھی ان کے بلند معیار کے معترف تھے اور انہیں خاص اہمیت دیتے تھے۔ ان کے مطالعے سے مسلم نوجوانوں میں اپنی بہشت گم گشتہ کی بازیابی کا شوق انگڑائیاں لینے لگا۔ سید سلیمان ندوی کی زیر ادارت نکلنے والے مجلے ’عرفات‘ نے اسلامی موضوعات پر تحقیق اور ندرت فکر کا بلند معیار قائم کیا۔ علامہ شبلی کی ’الفاروق‘ سوانح نگاری، تحقیق اور ادب کی دنیا میں ایک لافانی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس علمی انقلاب کی راہ ’مسدس حالیؔ‘ نے ہموار کی جو دو حصوں میں 1879 اور 1886 میں منظرعام پر آئی۔ اس نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جھنجوڑنے اور انہیں میدان عمل میں اتارنے کی راہیں کشادہ کیں۔

انہی دنوں حیدرآباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہونے والے ایک لالۂ عہد ساز کی فطرت حنا بندی کر رہی تھی جس کا نام سید ابوالاعلیٰ مودودی تھا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments