استاد بخاری: وقت رواں کا شاعر


سید احمد شاہ بخاری المعروف استاد بخاری سندھی زبان اور سرائیکی زبان کے بہت بڑے جدید قومی اور عوامی شاعر ہیں۔ استاد بخاری عوامی لب لہجے کے ایسے منفرد شاعر ہیں جو عام اور خاص میں یکساں مقبول ترین شاعر ہیں۔ ان کی سادی شاعری میں خیالات اور فکر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شامل ہے۔ استاد بخاری نے اپنی شاعرانہ مہارت سے سندھی زبان اور سرائیکی زبان کے متروک لفظوں کو زندہ کیا ہے اور نئے الفاظ، اصطلاحات، استعارے اور تشبیہات تخلیق کر کہ دونوں زبانوں کو مزید مالامال کیا ہے۔ سادہ انداز بیان میں شعر میں فکری گہرائی بھرنے پر اسے ملکہ حاصل تھا۔ استاد بخاری اپنی شاعری اور متروک لفظوں کو زندہ کرنے کے سلسلے میں فرمایا ہے جس کی سادہ اردو یوں ہوگی؛

”مردوں میں ڈالنا سانس بڑی بات نہیں اے عیسی!
لفظوں میں ڈالنا سانس بڑی مشکل بات ہے۔ ”

استاد بخاری کا حسب نسب یا شجرہ بیسویں نسل میں صوبہ پنجاب کے شہر اچ شریف میں مدفون بزرگ سید جلال الدین شیر شاہ سرخ پوش بخاری سے ملتا ہے جن کے پوتے کا نام بھی جلال الدین شیر شاہ بخاری تھا جو بعد میں ’جہانیہ جہان گشت‘ سے مشہور ہوئے تھے۔ استاد بخاری کے بڑوں میں سے سید عادل شاہ المعروف آندل شاہ بخاری اور علی شاہ بخاری اچ شریف سے سندھ میں آئے۔ عادل شاہ کا مزار سندھ کے ضلع دادو کے شہر جوہی میں واقع ہے۔ بعد میں ان کے آباء اجداد ضلع دادو کے غلام چانڈیو گاؤں میں آباد ہوئے جہاں استاد بخاری پیدا ہوئے۔ استاد بخاری پرائمری استاد مقرر ہوئے اور پھر دادو کالج میں پروفیسر رہے۔ اب دادو کالج ان کے نام سے منسوب ہے۔ عمر بھر استاد رہے اس لئے استاد کا تخلص اختیار کیا۔

استاد بخاری وہ بہت بڑے شاعر ہیں جنہوں نے عوام میں لازوال مقبولیت اور شہرت حاصل کی۔ اس نے جدید سندھی شاعری اور سرائیکی شاعری میں نئے رجحانات اور جدید سوچ و فکر کو متعارف کیا۔ اپنے نئے اسلوب، پیشکش اور انداز بیاں کی ندرت سے سندھی شاعری پر جداگانہ چھاپ اور مہر لگائی۔ اب تک بخاری جیسا مخصوص لہجے کا شاعر سندھ پیدا نہیں ہوا۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد شیخ ایاز اور استاد بخاری ایسے بڑے شاعر ہیں جو ہر آنے والی صدی میں سندھی زبان کی شاعری پر اثر انداز رہیں گے۔ استاد بخاری نے سندھی زبان کی کلاسیکی شاعری کی اصناف کے ساتھ ساتھ عروضی شاعری کی صنفوں کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ شیخ ایاز کی طرح استاد بخاری نے بھی گیت اور نظم کی صنفوں کی ہیئتوں میں کامیاب تجربے کیے ہیں۔ استاد بخاری نے علم عروض کے بحروں اور وزنوں میں بھی بڑے کامیاب تجربے کیے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ استاد بخاری بذات خود بڑے موسیقار بھی تھے۔ موسیقی کے فن پر مہارت رکھتے تھے۔ وہ اپنا شعر خود بھی گنگناتے اور ترنم میں گاتے تھے۔ استاد بخاری نے نظم اور گیت کی صنفیں نئی انداز یا ہیئت میں بھی لکھے ہیں جو ان کی اعلی شاعرانہ صلاحیت کے مرحون منت ہیں۔

استاد بخاری کی شاعری اور ان کی شخصیت پر لگ بھگ 30 کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ استاد بخاری نے بیت، وائی، غزل، گیت، رباعی، نظم، قطعہ وغیرہ کی اصناف سے خوب نبھایا ہے۔ ان صنفوں مین فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ استاد بخاری کا ڈکشن ہی الگ اور منفرد ہے۔

استاد بخاری کا بیسویں صدی کے سندھی زبان کے بڑے جدید شاعروں میں شمار ہوتا ہے۔ مگر ان کی اعلی شاعری ہر دور کی ترجمان اور عکاس رہے گی۔ استاد بخاری سدا حیات شاعر ہیں۔ استاد محض بیسویں صدی کے شاعر نہیں مگر ہر صدی اور وقت رواں کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں ہر دور اور ہر آنے والی صدی کی ترجمانی کی قوت اور دوام موجود ہے۔ قوم، عوام، سماج کے ساتھ استاد بخاری ہر دور میں ہر لحاظ سے انسانی احساسات اور آدرشوں کے ترجمان شاعر ہیں۔ استاد بخاری کو اپنی لازوال شاعرانہ صلاحیت کا اندازہ تھا اس لئے استاد بخاری نے خود ہی فرمایا ہے کہ:

صد فخر کہ میں ہوں تمہارا شاعر۔
ماضی کا نہیں وقت رواں کا شاعر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments