ملک میں سیاسی تصادم اور سپریم کورٹ کی ثالثی


سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ثالثی کروانے کا اعلان کیا ہے۔ فریقین کو مذاکراتی کمیٹی بنانے کی ہدایت کی گئی اور کہا گیا ہےکہ رات دس بجے یہ کمیٹی مل کر معاملات طے کرلے۔

 ثالثی کی پگڑی سر پر باندھنے والے جج اس کے بعد آرام سے گھر جاکر محو استراحت ہوگئے لیکن بوجوہ مجوزہ کمیٹی کا اجلاس نہیں ہوسکا لیکن اسلام آباد آتے ہوئے حسن ابدال میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے اعلان کیا کہ ’میں ڈی چوک پہنچ رہا ہوں سب کارکن بھی وہاں پہنچیں‘۔ ان کا یہ اعلان بھی ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ لئے بغیر ڈی چوک سے واپس نہیں جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تحریک انصاف کے نمائیندوں نے حکومت سے مل کر متبادل جگہ پر جلسہ کرنے یا دھرنا دینے کے عملی انتظامات پر تو کوئی بات نہیں کی لیکن عمران خان کے ترجمان شہباز گل نے رات کے وقت اعلان کیا کہ خان ساڑھے دس بجے ڈی چوک پہنچ رہا ہے، کارکن وہاں پر اکٹھے ہوجائیں۔

اس اعلان کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ٹولیاں اسلام آباد کے بلیو ایریا میں پولیس اور رینجرزپر پتھراؤ کرنے پہنچ گئیں۔ پولیس کے مطابق پولیس اور رینجرز کے درجن بھر سے زائد ارکان زخمی ہوچکے ہیں۔ مظاہرین نے بلیو ایریا اور گرد ونواح میں درختوں کو آگ لگائی اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ تاہم اس کے باوجود پولیس آئی جی اسلام آباد نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ہر قیمت پر ریڈ زون کی حفاظت کی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے غیر متوقع اور غیر واضح حکم کے بعد اسلام آباد ہی نہیں لاہور اور راولپنڈی میں بھی حالات پر تشدد صورت اختیار کرگئے۔ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں کو ہراساں کرنے سے منع کیا تھا جس کے بعد پنجاب پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑا اور رکاوٹیں بھی ختم کردی گئیں۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیتے ہوئے تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان سے امن قائم رکھنے اور انتظامیہ کی طرف سے فراہم کردہ متبادل جگہ پر جلسہ یا دھرنا دینے کا وعدہ لیا تھا۔ لیکن اس فیصلہ کی خبر ملتے ہی عمران خان نے اعلان کیا کہ خوش خبری مل گئی۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا۔ رکاوٹیں ہٹ گئی ہیں۔ اب عورتیں اور بچے بھی گھروں سے نکلیں تاکہ اس ناجائز حکومت کو آخری دھکا دیں اور حقیقی آزادی حاصل کریں۔

حقیقی آزادی کا یہ علمبردار اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کو دی گئی ضمانت سے انحراف کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچنے کا اعلان کررہا تھا۔ یہ تو درست ہے کہ سپریم کورٹ کو بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ضرور ریاستی جبر کی سرزنش بھی کرنی چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کسی بھی سیاسی کارکن یا احتجاج کرنے والے کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی معاملات میں بلکہ انتظامی معاملات میں بھی، سپریم کورٹ کس بنیاد پر مداخلت کرسکتی ہے۔ سیاسی فیصلے کرنا سیاسی لیڈروں کا کام ہے۔ اعلی عدالت کے ججوں کو تو اس حوالے سے مہر بلب رہنا چاہئے تاکہ ان کی غیر جانبداری پر حرف نہ آئے اور ان کا وقار بھی متاثر نہ ہو۔ سیاسی طور سے ایک تقسیم شدہ معاشرے میں جب سپریم کورٹ کے جج سیاسی مشورے دینے شروع کردیں گے تو عدالتی طریقہ کار کے بارے میں شبہات بھی پیدا ہوں گے اور سوالات بھی اٹھائے جائیں گے۔ عدلیہ کا کوئی اقدام اور ججوں کی کہی ہوئی کوئی بھی بات سختی سے ملکی قانون و آئین کے مطابق ہونی چاہئے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ہماری اعلی عدلیہ سیاسی معاملات پر غور کرتے ہوئے اپنے آئینی اختیار کی ریڈ لائن کا احترام کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

 ماضی قریب میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ڈیم فنڈ کا ڈھونگ اس کی المناک مثال ہے۔ ایسی ہی ایک مثال آج جسٹس اعجاز الاحسن نے قائم کی جب انہوں نے پی ٹی آئی اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے خود ثالث بن کر حکومت اور تحریک انصاف میں مصالحت کروانے کا اعلان کیا۔ معزز جج کے تمام تر احترام کے باوجود جائز طور سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ آئین کی کون سی شق اور ملکی قانون کی کون سی دفعہ سپریم کورٹ کے کسی جج کو ’ثالثی‘ کرنے اور اس حیثیت میں ملکی سیاسی معاملات میں براہ راست فریق بننے کی اجازت دیتی ہے۔ کیا عدالت عظمی کے فاضل ججوں نے ’خیرسگالی‘ کا یہ مظاہرہ کرتے ہوئے، اس طریقہ کے ملکی سیاست اور جمہوری و آئینی انتظام پر اثرات کا اندازہ کرنے کی بھی کوشش کی تھی؟ ملکی سیاست میں نام نہاد اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور سیاسی امور میں دہائیوں پر محیط فوجی قیادت کی براہ راست دلچسپی کے اثرات کا ہی کا ثمر ہے کہ اس وقت ملک میں دو متحارب سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں اور مسلسل فوج کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے زور لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اب سپریم کورٹ بھی خود کو آئینی استحقاق اور قانونی دائرے تک محدود رکھنے کی بجائے ثالثی کرنے اور سیاسی و معاشی مشورے دینے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتی۔

قبل ازیں جب عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے، اسکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے۔ معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے پر ہے اور دیوالیہ ہونے کے کنارے ہے‘۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے فاضل جج سے درخواست کی کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو معیشت کے حوالے سے جج صاحب کے ریمارکس کی خبر چلانے سے روکا جائے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’معیشت سے متعلق جو ریمارکس آپ یہاں دیں گے تو وہ اہم مالیاتی اداروں تک بھی پہنچتے ہیں‘۔ ظاہر ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک جج کے ایسے منفی ریمارکس کے تناظر میں مالی معاونت کرنے والے عالمی ادارے ضرور سوال اٹھائیں گے۔ تاہم بزعم خویش قانون ہی نہیں معیشت و سیاست کے تمام رموز سے ’آگاہ‘ فاضل جج نے اٹارنی جنرل کو ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ’ملکی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے‘۔ گویا اٹارنی جنرل کی درخواست کے باوجود عدالت عظمی کے جج جو امن و امان اور سیاسی احتجاج کے حوالے سے پیدا ہونے والی افسوسناک صورت حال پر غور کے لئے جمع ہوئے تھے، نہ صرف سیاست میں رائے زنی پر مصر رہے بلکہ اس بات پر بھی اصرار کیا کہ ملکی معاشی حالت چوں کہ دگرگوں ہے، اس لئے ججوں کو بھی اس بارے میں کوئی بھی بات کرنے کا حق حاصل ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن کو خبر ہو کہ اس سماعت کے بعد اور رکاوٹیں ہٹانے اور حکومت کو بیک فٹ پر جانے کا حکم دینے کے فیصلہ سے اسلام آباد میں امن و امان کی صورت حال غیر یقینی ہوگئی۔ حکومت نے ریڈ زون کی حفاظت کے لئے فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ سیاسی سرگرمی کو ’جہاد ‘ کا نام دینے والے لیڈر نے سپریم کورٹ کے حکم کو کھل کھیلنے کا اجازت نامہ سمجھا ہے۔ عمران خان کے خیال میں اس حکم کا یہ مقصد ہے کہ سپریم کورٹ تحریک انصاف کے ساتھ ہے اور حکومت کو اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دے گی۔ کیا سپریم کورٹ کا سہ رکنی بنچ اس صورت حال کی ذمہ داری قبول کرے گا؟ اس حکم کے بعد اسلام آباد کے بلیو ایریا میں جو تباہی پھیلائی گئی ہے اور پولیس و رینجرز پر جو حملے ہوئے ہیں، اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا۔

 اس کے علاوہ دوحہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے دوران پیدا ہونے والا تعطل بھی فاضل جسٹس اعجاز الاحسن کے نوٹس میں لانا ضروری ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ اٹارنی جنرل نے معیشت جیسے ’غیر متعلقہ‘ معاملہ پر ریمارکس دینے سے گریز کی استدعا کی تھی تو اس پر غور کرنا اور اسے نخوت و جارحیت سے مسترد کرنا درست طریقہ نہیں تھا۔

عدالت عظمی کے سہ رکنی بنچ نے بجا طور سے حکومت کو تحمل سے کام لینے اور غیر ضروری طور سے سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اگر وہ تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے دیے جانے والے اشتعال انگیز بیانات پر بھی کوئی ریمارکس دینے کی زحمت کرتے تو عمران خان کو یہ دعویٰ کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا کہ ’اب عدالت بھی ہمارے ساتھ ہے، اب ہم ڈی چوک پر پہنچ کر ہی دم لیں گے‘۔

کیا عدالت کو اس اہم معاملہ کی سماعت کے دوران اس بات کا نوٹس بھی نہیں لینا چاہئے تھا کہ ایک سیاسی احتجاج کو ’جہاد‘ کا نام دے کر پاکستانی کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ جہادی کلچر کی وجہ سے سنگین سانحات سے بھری پڑی ہے۔ اس پس منظر میں اور عمران خان کی غیر ضروری اشتعال انگیزی کے حوالے سے عدالت کو معیشت و سیاست پر گل افشانی کی بجائے یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ احتجاج کو کوئی بھی پارٹی اپنی سیاسی لڑائی تک ہی محدود رکھے اور اسے جہاد کہہ کر یا ’کفر و باطل‘ کی جنگ بنا کر غیر ضروری اضطرار پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ فاضل جج اس پہلو پر توجہ دینے سے پہلو تہی کرگئے۔

عمران خان کا جلوس نہ جانے کب اسلام آباد میں اپنی ’منزل مقصود‘ تک پہنچے گا لیکن ریڈ زون میں فوج تعینات کی جاچکی ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ فوج 2014 کی طرح صرف خاص عمارتوں کی حفاظت کرے گی یا سپریم کورٹ کے حکم و خواہش کے مطابق پورے ریڈ زون کو کسی غیر متعلقہ شخص کی دسترس سے محفوظ رکھنے کا اقدام بھی کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا کہ جسٹس اعجاز الاحسن جمعرات کو جب دوبارہ اس کیس کی سماعت کریں گے تو کیا وہ تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان کو طلب کرکے استفسار کریں گے کہ انہوں نے عدالتی رعایت کے باوجود امن و امان خراب کرنے کا اقدام کیوں کیا۔ اپنے کارکنوں کو ایچ ایٹ کے مختص مقام پر جلسہ کی تیاریاں کرنے کی بجائے ڈی چوک پہنچنے کا پیغام کیوں دیا اور کس بنیاد پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ’اب ہماری حمایت میں عدالت کا حکم آ گیا ہے، اس حکومت پر ٹوٹ پڑو‘۔

عدالت عظمی نے فوری طور سے بدھ کو کی جانے والی غلطی کی اصلاح نہ کی اور ثالثی کی بجائے امن و امان کی بحالی اور ملک میں قانون کی بالادستی کا اہتمام کرنے کی کوشش نہ کی تو جس معیشت کے بارے میں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہے کہ یہ بات تو اب چوبارے چڑھ چکی ہے، اس کی اصلاح کا رہا سہا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments