خاندانِ غلاماں کے چشم و چراغ


کچھ نہیں کھلتا، دھند میں لپٹے ہوئے راستے کے ساتھ ساتھ غنودہ اشجار ایستادہ ہیں کہ خون آشام بلاﺅں کا لشکر بھیس بدل کر گھات لگائے ہوئے ہے۔ آنکھ دھندلائی ہوئی ہے کہ منظر، کچھ نہیں کھلتا، تہہ بہ تہہ، اسرار ہی اسرار، گمان ہی گمان، کچھ ایسا ہی منظر فیض صاحب کو بھی درپیش رہا ہوگا، کہتے ہیں ’جو سائے دور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں، نہ جانے محفل غم ہے کہ بزمِ جام و سبو، جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہیں، یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو‘۔

اب چلتے ہیں دھندمیں لپٹے ہوئے سیاسی منظر نامے کی طرف، عمران خان کہتے ہیں ان کی حکومت کے خلاف امریکا نے مقامی میر جعفروں سے مل کر سازش کی، یہ امپورٹڈ حکومت ہے، یہ غلام حکومت ہے، یہ بھکاریوں کی حکومت ہے۔ خان صاحب سچے آدمی ہیں، سچ ہی کہہ رہے ہوں گے، مگر سوال یہ ہے کہ امریکا اپنی لاڈلی حکومت سے آئی ایم ایف کے سامنے لکیریں کیوں نکلوا رہا ہے، خاندانِ غلاماں کو آٹھ دس بلین ڈالر عطا کر دے تاکہ پاکستان میں مہنگائی بےقابو نہ ہو اور سامراج دشمن خان بھی قابو میں رہے۔ اور یہ چین کو کیا سوجھی، وہ پاکستان میں امریکا کی لائی ہوئی حکومت کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟ یہ نکتہ بھی خان صاحب ہی سمجھا سکتے ہیں، اور پھر امریکا نے ایک ایسی حکومت کو نکالا ہی کیوں جس نے سی پیک پر کام رکوایا اور اپنا اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کیا؟ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی، ویسے بھی ہمارے ایک یوتھ پسند دوست کا قول ہے کہ خان صاحب کی باتیں دماغ کے لیے نہیں ہوتیں، دل کے لیے ہوتیں ہیں۔

اکثر سنجیدہ مزاج اصحاب خان صاحب کی ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن ہم کریں گے، کیوں کہ ہمیں امریکا اور میر جعفر کی سازش والی بات تو بےسر و پا لگتی ہے، مگر غلامی اور بھکاری والی بات میں وزن نظر آتا ہے۔ جس قوم کے ہر فرد پر تقریباً 12سو ڈالر قرضہ ہو، جس قوم کا وزیراعظم دن دیہاڑے کشکول بدست ملک ملک پھرتا ہو، جس کا وزیرِ خزانہ آج کے دن بھی آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑا ہو، اس قوم کو کیا کہیں گے؟ ایسی قوم کو پیار سے تو ’خوددار‘ کہا جا سکتا ہے، سنجیدگی سے نہیں۔ سو حکومت غلام تو ہے، بھکاری تو ہے، مگر یہ آدھا سچ ہے۔

پورا سچ یہ ہے کہ عمران خان ہماری تاریخ کے سب سے ماہر بھکاری تھے جنہوں نے پاکستان کے کسی بھی وزیرِ اعظم سے زیادہ بھیک قرضوں کی شکل میں اکٹھی کی۔ اب وہ حکومت سے نکل کر ’حقیقی آزادی‘ کی تحریک چلا رہے ہیں (اس قوم کی پیشانی پر کون سا حرفِ تہجی لکھا ہوا ہے؟) یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ یہ ریاست اپنی ابتدا سے ہی صدقہ و خیرات پر پلنے کی قائل رہی ہے اور اس گناہ کے بانی عمران خان نہیں ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان ہمارے پہلے وزیرِ اعظم ہیں جو اپنے ’ہم حمام‘ کو ننگا کہہ رہے ہیں، بلاشبہ یہ ذہنی کیفیت سنجیدہ تجزیے کی متقاضی ہے۔

آئیے، دھند کے مرکز کی طرف بڑھتے ہیں۔ عمران بہ ضد ہیں کہ ان کی حکومت کو ’نیوٹرلز‘ نے نکالا ہے اور اپوزیشن بھی تسلیم کرتی ہے کہ ’نیوٹرل‘ واقعی نیوٹرل تھے، یعنی انہوں نے نکالا تو نہیں مگر نکلنے دیا۔ اب آگے چلیے۔ شہباز شریف جو بات اپنے لوگوں کے درمیان سرگوشیوں میں کرتے ہیں، رانا ثنا اللہ نے با آوازِ بلند کہہ دی، فرماتے ہیں حکومت میں ہمارے ہاتھ پاﺅں باندھے جا رہے ہیں، وہ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ ’نظامِ ہستی‘ چلانے والے ہمارے خلاف جھوٹے کیسز کی حفاظت کر رہے ہیں، نیب کے دانتوں اور پنجوں کا تحفظ فرما رہے ہیں، اور پچھلی حکومت کے لگائے ہوئے مخصوص کارندوں کو چھتری فراہم کر رہے ہیں۔ کون ہے جو ہاتھ پاﺅں باندھ کر تیراکوں کے ایک گروہ کو ایسی جھیل میں پھینک گیا ہے جس پر دھند چھائی ہوئی ہے؟

جو بھی پھینک گیا ہے اسے چھوڑیے، اب مقتدرہ کی خواہش انتخابات نظر آتے ہیں، کیوں کہ شدید دھند کے باوجود پاکستان کو موجودہ حالت تک دھکیلنے کے الزام کی نسبت سے اجماعِ امت ہوتا چلا جا رہا ہے، پہلے اپوزیشن کی جماعتیں ’نیوٹرلز‘ کو مطعون قرار دیتی تھیں، اب عمران خان گلا پھاڑ کر یہی الزام دہرا رہے ہیں۔ اس صورتِ احوال سے نکلنے کا راستہ اس حکومت کو جلد از جلد گھر بھیج کر انتخابات کی طرف بڑھنے کو سمجھا جا رہا ہے، یعنی جوں ہی انتخاب کا اعلان ہوگا اور الیکشن کمپین کا آغاز ہوگا، سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیں گے، اور جنہوں نے یہ درد دیا ہے انہیں فراموش کر دیا جائے گا۔ ویسے منصوبہ برا نہیں ہے، انتخابات کے اعلان کے بعد لگ بھگ ایسا ہی منظر ہو گا۔ اس پس منظر میں قوی امکان ہے کہ اگلے انتخابات نسبتاً صاف ستھرے ہوں گے، کیوں کہ مزید گالی کھانے کی اب گنجائش نظر نہیں آتی۔

اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ دھرنا اور لانگ مارچ ہمیں انتخابات کے قریب نہیں لے جا رہے، سیاسی حریف یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ راﺅنڈ جیتنے والا زیادہ طاقتور ہو کر انتخابی اکھاڑے میں اترے گا، لہٰذا کوئی فریق بھی اس مرحلے کو ہارنا نہیں چاہتا، حکومت بھی عمران خان کی طرح آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہے، یعنی مہا یدھ شروع ہو چکا ہے، اور جب تک دھرنے کا زور نہیں ٹوٹے گا الیکشن کی تاریخ کا اعلان مشکل نظر آتا ہے۔ (دائروں کے مسافروں بارے ہی جون بھائی نے کہا تھا ’رنج ہے حا لتِ سفر، حالِ قیام رنج ہے‘)۔

پس نوشت: سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت سیاست تھا نہیں، جس گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو وہاں سیاست چونچلا بن جاتی ہے، خدائے سخن کا ارشاد ہے ’مصائب اور تھے پر دل کا جانا، عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے‘۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments