دھرنا اور ایجی ٹیشن کی سیاست کا حاصل وصول


ایک بات تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے اکثر کہی جاتی ہے کہ عمران خان نے نوجوانوں میں شعور پیدا کیا ہے اور انہیں سیاست میں فعال کردار ادا کرنے پر رضامند کیا ہے۔

مجھے ہمیشہ یہ بات احمقانہ لگتی ہے۔ عمران خان کو پسند کرنے والے لوگ بنیادی طور پر ضیا الحق کے غیر جماعتی انتخابات کی پیداوار قسم کے لوگ ہیں۔

سیاست مختلف نظریات کا نام ہے۔ اس میں انسان آنے سے قبل ایک واضح پلان بناتا ہے کہ وہ جب ملک میں اپنی حکومت بنا لے گا تو وہ سماج کو کن راہوں پر چلائے گا کہ اس ملک کا سماج ایک ترقی یافتہ اور جدید جمہوری معاشرہ بن سکے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاست حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد لوگوں کے کردار پر کنٹرول حاصل کرنے کا نام ہے۔ انہیں مذہبی جماعتیں کہہ سکتے ہیں یہ سب جماعتیں انسان کی دنیاوی معاملات سے لاتعلق ہوتی ہیں اور ان کی جدوجہد ہوتی ہے کہ جلد از جلد اپنے ووٹر کو جنت میں اعلی ترین مقام سے سرفراز کر دیں۔

کچھ جماعتیں سوشلزم پر کام کرتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ سماج میں امیر غریب طاقتور اور کمزور کے مابین فرق ختم ہونا چاہیے بلکہ حکومت چلانے کا حق مزدور کسان اور غریب لوگ جو اکثریت میں ہوتے ہیں ان کے پاس ہونا چاہیے۔

کچھ جماعتیں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے لیے کام کرتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ ملک چلانا اور راج نیتی امیر لوگوں کا کام ہے۔ لیکن جب وہ امیر لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اپنی رعیت یا ملک کے عوام کی اچھی زندگی کے لیے بھی پلاننگ کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے عمران خان کے پاس ایسا کوئی نظریاتی اثاثہ موجود نہیں تھا۔ اور نہ ہی اس کے فین کلب نے اس سے ڈیمانڈ کی۔ سب سے زیادہ مایوس کن یہی بات ہے کہ جس طرح طرح کوئی متشدد مذہبی فرقہ محض خواب دکھا کر لوگوں کو اپنے ٹرانس میں لا کر استعمال کرتا ہے۔ عمران خان نے اپنے فین کلب کو بعینہ اسی طرح استعمال کیا ہے۔

عمران خان کا کوئی ووٹر یا کوئی رکن اسمبلی عمران خان سے کبھی یہ سوال نہیں پوچھ سکا کہ حکومت کے کسی بھی معاشرتی، معاشی، سیاسی، قانونی پہلو پر اس کی کیا رائے ہے۔

حتیٰ کہ چار سال گزرنے کے باوجود عمران خان کے فین کلب میں اس کی پرفارمنس کے بارے میں کوئی ایک بات نہیں کی جاتی، بلکہ وہ عمران خان کے الفاظ کی جگالی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ملک میں سیاست کرنے کی آزادی عوام کو 1973 کے آئین کے بعد ملی۔ اس سے قبل سیاست محض امرا و رؤسا کا کھیل تھا۔ اور عوام بھیڑ بکریوں کی مانند ان کو ووٹ ڈالنے کے لئے جانے کا حق رکھتے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے پچاس سال تک مسلسل جدوجہد کرنے کے بعد عوام کو یہ حق چھین کر دیا ہے کہ وہ جلسہ اور جلوس کی آزادی کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ اظہار آزادی رائے کا حق حاصل کرسکے ہیں۔ آئین پاکستان میں ان حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ کے پاس امانت رکھی گئی ہے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے کا حکم دیا۔ یہ ایک منصفانہ حکم تھا اور آئین قانون اور ضابطے کے مطابق تھا۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان نے اپنے غیر سیاسی رویہ اور اپنی غیر سیاسی مزاج اور افتاد طبع کے مطابق اس حکم کا نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ ملی ہوئی اجازت کو بری طرح رگید ڈالا۔ جس جگہ جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی اس کے خلاف ورزی کی اور اپنی من مانی کرتا رہا۔

اب عمران خان ایک فرد ہے۔ آج نہیں تو کل اس کی سیاست کو ختم ہو جانا ہے۔ لیکن آج کے بعد اس سپریم کورٹ کسی بھی موقع پر اس طرح کا دلیرانہ اور جراتمندانہ حکم جاری کرتے وقت سینکڑوں بار اس بات کو سوچے گی کہ یہ رعایت لینے والا شخص اس کے حکم کی توہین کا مرتکب بھی ہو سکتا ہے۔ توہین عدالت کی کارروائی بوجوہ اعلیٰ عدلیہ نے کرنا مناسب نہیں سمجھا اور حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ حکم عدولی کرنے والے کے خلاف دیگر قوانین کی روشنی میں مقدمات بنا سکتے ہیں۔

یقینی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کچھ نادیدہ طاقتوں کا لاڈلا بچہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ رات عمران خان کے رویہ کی وجہ سے ملک میں سیاست، تہذیب اور قانون کی حکمرانی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پی ٹی آئی کے غیرسنجیدہ لونڈے لپاڑے سیاسی زندگی کو سمجھنے کی اہلیت سے قاصر ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ سیاسی کارکن بنیادی طور پر سماج اور معاشرت کو ترقی یافتہ اور عوام دوست بنانے کی تڑپ رکھ کر اپنی زندگی کو رضاکارانہ طور پر وقف کر دیتا ہے۔ ان کے لئے سیاست ایک تماشا ہے۔

اور اس رویہ کی وجہ سے میں آنے والے دنوں میں میں آزادیوں کے تحفظ کے نظام کو کمزور پڑتے دیکھ رہا ہوں۔ عمران خان ہمارے سماج کی کامل بربادی اور تباہی کا نام بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments