وہ قوم جس کے پاس ایٹم بم ہے وہ غلام نہیں ہو سکتی


یہ ہماری اشرافیہ کے ایک نامور سیاسی سپوت کا فرمان ہے اور میں ان کے اس قول سے بعینہ ہی اتفاق کرتا ہوں کہ بے شک! وہ قوم جس کے پاس ایٹم بم ہے وہ بد کردار تو ہو سکتی ہے پر غلام نہیں ہو سکتی۔ جی ہاں! بالکل درست فرمایا آپ نے وہ قوم انتہائی عیاش، پرلے درجے کی بد عنوان، بد دیانت، بد اخلاق ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس قوم کا پسندیدہ مشغلہ جھوٹ، مکاری طعنہ زنی ہو مگر وہ غلام نہیں ہو سکتی ہے۔ اس قوم کے راہنما اگرچہ خود ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہوں، ان کے اثاثے، ان کے کاروبار اور ان کے محلات انھی ملکوں میں ہوں جن کے خلاف ایٹم بم بنایا گیا لیکن وہ قوم خود غلام نہیں ہو سکتی ہے۔

مجھے ان کے اس بیان سے اتنا ہی شدید اتفاق ہے جتنا آج کی اشرافیہ کا باہمی تعاون اور دلچسپی کے امور پر اتفاق ہے۔ آپ خود ہی بتائیں کہ بھلا وہ قوم جس کے پاس ایٹم بم ہو، ہر ماہ دو نئے پٹاخے چھوڑے جاتے ہوں مطلب میزائل لانچ کیے جاتے ہوں اور جن کا سب سے زیادہ بجٹ دفاع کی مد میں مخصوص افراد کے لئے یعنی معمر ترین افراد کے لئے مختص ہو، جن کے ہر شہر میں دو دو چھاؤنیاں اور سات سات ڈیفینس ہاؤسنگ کے فیز ہوں، جس کے پھنسے ہوئے کام جی ایچ کیو سے ہوتے ہوں، جن کے ٹینک سرحدوں سے زیادہ شہری آبادیوں میں گشت کرتے ہوں، جن کے جنگی جہاز عسکری پرواز سے زیادہ سرکسی پروازوں میں زیادہ موثر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوں، جن کے جرنیل خود کاروبار عامہ کے رکھوالے اور معاشی پالیسیوں کے محافظ ہوں، جن کے سیاست دانوں کی تیاری اور تربیت کا ذمہ جرنیلوں کے سپرد ہو وہ قوم کیسے اور کیوں کر آزاد ہو سکتی ہے اوہو مطلب غلام ہو سکتی ہے۔

اتنا دانشمندانہ بیان صدقے واری! کہ وہ قوم جس کے پاس ایٹم بم ہو! سبحان اللہ: یقین مانیں اگر موصوف یہ راز ہم پہ آشکار نہ کرتے تو ہم تو اسی غلط فہمی میں مارے جاتے کہ ہم شاید اپنے بہادر جرنیلوں کے کارناموں کی وجہ سے غلام نہیں ہیں، وہی کارنامے جو ہر سرکاری سکول کی دیواروں پہ ہر سال نئے نعروں کے ساتھ کندہ کیے جاتے ہیں اور جو ہم صبح دوپہر شام سکول اسمبلیوں میں، کالج میں قومی دنوں کے پروگرامات اور یوم آزادی کے ترانوں میں سنتے آ رہے ہیں لیکن کبھی کبھی مجھے ایک سوال تنگ کرتا ہے کہ یہ سارے کارنامے ہم سرکاری سکول، کالج اور یونیورسٹی والوں کو تو ازبر ہیں مگر یہ بیکن ہاؤس یونیورسٹی، یہ لمز، ایچی سن اور اس طرح کے دوسرے اداروں کے فارغ التحصیل جن میں سے بیشتر ہماری اشرافیہ کے ہی نمائندگان ہیں، انھیں یہ کارنامے کیوں نہیں پڑھائے جاتے، یہ کیوں ان حقائق سے نابلد ہیں، انھیں کیوں نہیں سکھایا جاتا ہے کہ ہر جرنیل چاہے وہ جزیرے خرید کر باہر ہی چلا جائے، وہ ہمارے لیے بہادر اور قابل سیلوٹ ہے اور اس کے اثاثوں کے متعلق کوئی بھی بات چیت ملکی سلامتی پہ حملہ تصور ہو گی اور اگر کوئی اس کے دس دس سالہ بچوں کے اربوں ڈالر کی کاروباری سرگرمیوں پہ بات کرے تو وہ غدار اور ففتھ جنریشن وار فیئر کا سرغنہ تصور کیا جائے گا۔

ان ایچی سن کے بچوں کو بھی ایوب خان کے سنہری دور کے بارے میں پڑھایا جائے انھیں بتایا جائے کہ آج پاکستان جس عظیم الشان مقام کا مرہون منت ہے اس میں اس دھرتی کے بہادر جنرل نیازیوں، مشرفوں، اور کیانیوں کی قیادت کا لہو شامل ہے۔ کوئی تو اشرافیہ کے ان ایمان مزاری جیسے بچوں کو سمجھائے کہ جرنیل چاہے آپ کی نسلیں تباہ کر دیں، نو آبادیاتی دور کے ملٹری لینڈ ایکٹ کے تحت اوکاڑہ کی زمینیں قبضے میں لے لیں، آپ کے تمام قدرتی وسائل کو اپنے نجی کاروبار کی نذر کر دیں، آپ کے تمام اداروں کو تہہ و بالا کر دیں مگر آپ کو ان کے بہادر، نڈر اور محافظ ہونے کا ورد ہی کرنا ہے۔

آپ کو آنے والی نسلوں کو یہی بتانا ہے ملکی سلامتی کی خاطر ہمیں بوٹوں کے آگے سر بسجود ہونا ہے۔ ظاہر ہے جو قوم ایٹم بم رکھتی ہو وہ غلام تو نہیں ہو سکتی نا! اس کی زراعت تباہ حال، صنعت پسماندہ، توانائی ندارد، صحت نہ ہونے کے مترادف، آبی وسائل سسکتے ہوئے، جنگلات جلتے ہوئے، قدرتی وسائل لٹے پٹے، عزتیں نیلام، شہری انتہا پسند، تعلیم ختم شد اور انصاف بکتا ہوا تو ہو سکتا ہے مگر وہ قوم غلام نہیں ہو سکتی۔

میرا دل کرتا ہے کہ میں ان کے یہ سنہری الفاظ چیخ چیخ کر ملک کے گلی کوچوں تک پہنچا دوں کہ سنو سنو! جس کا قوم کے اصل و الاصول ہیرو سسک سسک کے مر جائیں اور انھیں کوئی کندھا دینے والا بھی نہ ہو، جس قوم کی مادر ملت کو غدار کہا جائے، جس کی نوجوان نسل کے آئیڈیل ڈاکو، لٹیرے اور ناچنے والے ہوں، جس کے اساتذہ کو بیڑیوں میں گھسیٹا جائے، جس کے دہقان ذلت کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوں، جس کی مائیں اپنے بچوں کو جوان بیچنے کے لیے کرتی ہوں، جہاں تعلیم کاروبار بن جائے، جہاں عدالتیں بازار اور انصاف نیلام ہونے لگے، جس کے واحد ہیرو قانون شکن جرنیل ہوں، جہاں محنت کش اچھوت ہوں، اشرافیہ عیاش ہو، اہل ادب بدکار، اہل قلم زرخرید ہوں، سیاست دان مکار ہوں، صحافی دلال ہوں، تاریخ جھوٹ کا پلندا، نصاب کہانیوں کا مرکب، جج بد کردار ہوں، ادارے بد عنوان ہوں، بد دیانتی ورثہ ہو، تہذیب امپورٹڈ ہو، زبان ادھار کی ہو، مذہب کاروبار ہو، علماء فتنہ پرور ہوں، جس کے سائنس دان رسوا ہوں، اور محسن ذلت کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہو جائیں وہ قوم بھلا کسی اور کی کیا ہی غلام ہو گی! میں تو کہتا ہوں سارے کھیت جلا کر وہاں چھاؤنیاں بنا دینی چاہئیں، لائبریریاں گرا کر کلب بنا دینے چاہئیں، جنگل کاٹ کر ڈیفینس فیز بنا دینے چاہئیں، پہاڑوں میں یورینیم جمع کر کے ہر روز ایٹم بم کے تجربات کرنے چاہئیں تاکہ سب کو پتہ چلے کہ جس قوم کے پاس ایٹم بم ہو وہ قوم غلام نہیں ہو سکتی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments