پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجوہات


گزشتہ رات میاں شہباز شریف صاحب کی موجودہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی۔ آج تمام دن سوشل میڈیا پر اس ایشو کے حوالے سے جس نے بھی بات کی وہ یا تو حکومت کے اس فیصلے سے شدید ناپسندیدگی اور شدید اختلاف کا اظہار تھا یا پھر اس فیصلے پر کسی نہ کسی انداز میں طنز کا اظہار تھا۔ کہیں پر اس اضافے کے بعد اشرافیہ کو حاصل مراعات کا زکر اور ان سے چھٹکارے کا مطالبہ تھا مگر اصل معاملہ اور اس کی حقیقت کا اظہار اور قیمتیں بڑھانے کے فیصلے کی ضرورت و وجوہات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ میری زاتی رائے میں اس کی بڑی وجہ اشرافیہ اور عام عوام کی تقسیم اور اشرافیہ سے جڑی بداعتمادی اور بددلی ہے۔ دوسری بڑی وجہ اصل حقیقت سے آگاہ نہ ہونا ہے۔ میری کوشش ہے کہ میں اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکوں۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پٹرولیم مصنوعات کو عالمی مارکیٹ سے درآمد کرتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تبدیلی ہو گی تو یقیناً اس کا اثر مقامی قیمت پر بھی پڑے گا۔ اگر پٹرولیم مصنوعات عالمی مارکیٹ میں مہنگی ہوں گی تو یقیناً اس کا بوجھ صارفین کو ہی برداشت کرنا چاہیے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ فروری میں سابقہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے میڈیا اور اس وقت کی اپوزیشن کے دباؤ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا اور میرے نزدیک یہ ایک غلط فیصلہ تھا  کیونکہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور ہماری ناتواں معیشت اس قسم کی عارضی عیاشی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ بائیس تئیس فروری کو پٹرول کی عالمی مارکیٹ میں قیمت 96 ڈالر فی بیرل تھی۔ جب خان صاحب نے قیمت میں کمی کا اعلان کیا تو پٹرول کے ہر لیٹر پر تقریباً پندرہ روپے سبسڈی کا بوجھ حکومت برداشت کر رہی تھی۔ آج عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 114 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے یعنی سبسڈی کی مد میں ہر ایک لٹر پٹرول پر حکومت کی جانب سے ادا کی جانے والی سبسڈی کی مقدار ڈبل ٹرپل ہو چکی ہے۔ یقیناً یہ کوئی قابل عمل یا قابل برداشت معاملہ نہ تھا۔
ایک اور پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ روپے کی گراوٹ ہے۔جب روپیہ گرتا ہے تو درآمدات پر مبنی مصنوعات صارفین کے لیے مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روپے کی گراوٹ کا اثر بھی شامل ہو کر سبسڈی میں اضافہ ہو رہا تھا، حکومت اور ہماری ناتواں معیشت یہ بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔سیاسی عدم استحکام اور دوران اپوزیشن کیے گئے بےبنیاد دعوے یا بےسروپا تنقید موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب کو اب درست اور صحیح فیصلہ لینے میں آڑے آ رہے تھے۔ ادھر آئی ایم ایف نے یہ شرط عائد کر رکھی تھی کہ آپ اس عیاشی سے کنارہ کشی اختیار کریں تو ہی ہم آپ کو قرض کی نئی قسط ادا کر سکیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف قرض دیتے ہوئے یہ یقینی بناتا ہے کہ وہ غیر ضروری عیاشی یا بےجا استعمال نہ ہو۔ حکومت اپنی وصولیوں کے اہداف پورے کرے تاکہ قرض کی واپسی ممکن ہو۔
آئی ایم ایف کی قسط کے بغیر دوست ممالک بھی معاشی صورتحال کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا تھے کہ صورتحال ڈیفالٹ کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی۔ یہ صورتحال یقیناً ملکی سلامتی کے لیے خطرہ تھی جسے مول لینا کسی صورت ملکی مفاد میں قابل قبول نہیں۔اب جب وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب نے یہ مشکل، غیر مقبول مگر صحیح اور درست فیصلہ لیا ہے تو میری رائے میں اسے سراہا جانا چاہیے، اگر سراہنا ممکن نہ ہو تو اسے بےجا ہدف تنقید نہیں بنانا چاہیے کہ ملکی سلامتی  اور ملکی مفاد سے صرف نظر کرنا تمام پاکستانیوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان سری لنکا اور زمبابوے کی صورتحال سے دوچار ہونے کے قریب پہنچ رہا تھا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا خمیازہ عام عوام نے بھگتنا ہے۔ ہماری تقریباً تمام اشرافیہ کے ٹھکانے تو بیرون ملک آباد ہیں، انہوں نے وہاں کوچ کر جانا تھا اور اس کی قیمت اور نقصان ہم عام پاکستانی عوام کو ہی چکانا پڑنی تھی۔
ایک ذاتی وضاحت پیش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میری سوچ اور نظریات پاکستان تحریک انصاف کی سوچ اور نظریات کے قریب ہیں اور عمران خان صاحب کو ان کے ہم عصر سیاست دانوں میں سب سے بہتر گمان کرتا ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی تو میں نے کبھی بھی پوسٹ لکھ کر اسے موضوع بحث نہیں بنایا جبکہ اس وقت کی اپوزیشن کے سپورٹرز ضرور اسے موضوع بحث بناتے تھے مگر اب کی بار میں ضروری سمجھتا ہوں کہ موجودہ وزیراعظم اور اس حکومت کے درست فیصلوں کی حمایت کی جائے اور کھل کر اس کا اظہار کیا جائے۔ اصول کی بنیاد پر تائید اور حمایت یا مخالفت کو نصب العین بنایا جائے نہ کہ جذباتی بنیادوں پر صحیح عمل کو بھی دھتکار دیا جائے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments